کالم

ابو انیس حضرت صوفی برکت علی لدھیانوی

انسان کی بڑائی یہ ہے کہ وہ سب سے پہلے اپنی ذات میں اعلیٰ صفات ،سچائی ،محبت ،ایثار ،قربانی اور حق گوئی پیدا کرے ،پھر ان صفات کو اعلیٰ نظریات کے تابع کر دے ۔اس کے بعد صفات اور نظریات کو ہتھیار بنا کر جہل و تنگ نظری ،دہشت پسندی اور فرقہ واریت کے خلاف اعلان جہاد کرے ۔دوسری طرف تمام اجالا ذہن انسانوں کو اپنی آغوش میں اس طرح سمیٹ لے کہ ،تا کس نہ گوید بعد ازیں ،من دیگرم تو دیگری ۔عوام کا غم اور ان کی خوشی سب اسی کی ہو جائے ۔وہ جھلسے ہوئے ہونٹوں کیلئے آب حیات بن جائے ،ہچکیوں کا صدا گیر بن جائے اور پھر اپنے حق عمل اور حسن نظر کا خراج زمانے کو جھکا کر وصول کرے ۔صوفی برکت علی لدھیانوی ِایں چہ شمع ایست کہ ہمہ مردماں دیوانہ اوست کی منزل پر تھے ۔راقم کا صوفی برکت علی سے غائبانہ تعارف بذریعہ اپنے گائوں (چٹی شیخاں)کے ساکن عبدالرزاق قریشی صاحب ہوا جو ان کے مریدین میں شامل تھے ۔انہوں نے مجھے صوفی برکت علی کی تصنیف جو واقعہ کربلا پر لکھی گئی تھی پڑھنے کیلئے عنایت کی ۔راقم ان کی تحریر سے بہت متاثر ہوا ۔ان کی تحریر کا ہر لفظ اور فقرا اہلبیت ،امام حسین اور ان کے جانثاروں سے عقیدت و محبت کا مظہر اور ان کے دلی جذبات کا غماز تھا ۔دنیا میں دوام صرف انہی شخصیتوں کو حاصل ہوتا ہے جن کی عظمت و رفعت دل سے ،روح سے وابستہ ہوتی ہے ،جو اندر سے صاف و شفاف ہوتے اور کردار سے حسن و خیر کا اظہار کرتے ہیں۔ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں جن کے دلوں کی تاریخ میں نقوش ثبت ہوتے ہیں ۔صوفی برکت علی ایسی ہی روحانی شخصیت تھے ۔وہ سادگی و انکساری کا جیتا جاگتا اور چلتا پھرتا مرقع تھے ۔نمائش و بناوٹ سے ہمیشہ دوری اختیار کی ۔جو علامہ اقبال نے کہا کہ ،نے تاج و تحت میں نے لشکر سپاہ میں ہے ،جو بات مرد قلندر کی بارگاہ میں ہے ،ان پر پوری سچائیوں سے منطبق ہوتا ہے ۔بڑی بڑی شخصیات صوفی برکت علی لدھیانوی کی زیارت کو اپنی سعادت خیال کرتی تھیں ۔ان کے عقیدت مندوں میں میاں نواز شریف اور سابق صدر رفیق تارڑ بھی شامل تھے ۔جسٹس سردار اقبال نے ادیب جاودانی کو دئیے گئے انٹرویو میں بتایا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں وہ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے ۔بھٹو نے انہیں سپریم کورٹ میں تبدیل کر دیا ، انہوں نے فیصلہ کیا کہ ملازمت کو خیر باد کہہ دوں گا لیکن سپریم کورٹ نہیں جائوں گا ۔رات کو وہ فیصلہ کر کے سو گئے ،صبح کے وقت ان کی بیوی نے بتایا کہ فون پر کوئی برکت علی آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں ۔انہوں نے فون اٹینڈ کیا دوسری طرف صوفی برکت علی لدھیانوی بول رہے تھے ،انہوں نے کہا رات کو آپ نے جو فیصلہ کیا تھا وہ درست تھا ۔اﷲ آپ کے درجات بلند فرمائے گا ۔بعد ازاں وہ وفاقی محتسب کے عہدے پر فائز ہو گئے ۔میاں نواز شریف بحثیت وزیر اعلیٰ پنجاب اور وزیر اعظم حضرت کی خدمت میں بارہا حاضر ہوئے ۔سابق سیکرٹری اطلاعات و نشریات حاجی محمد اکرم نے ادیب جاودانی صاحب سے دوران ملاقات بتایا تھا کہ 88الیکشن کے روز میں اور میاں صاحب صوفی صاحب کے پاس گئے ۔انہوں نے میاں صاحب کیلئے دعا کی اور انہیں کامیابی کی خوشخبری سنائی اور یوں میاں صاحب پنجاب کے وزیر اعلیٰ بن گئے ۔انہوں نے ادیب جاودانی صاحب کو بتایا کہ 1990ء کے الیکشن کے روز بھی میں اور میاں صاحب تین چار بجے سہ پہر صوفی صاحب کے پاس دعا کرانے کیلئے گئے تو صوفی صاحب نے ان سے کہا ”جائو تم الیکشن میں بھاری اکثریت سے کا میاب ہو جائو گے اور وزیر اعظم تم ہی بنو گے ۔یہ بات حرف بحرف پوری ہوئی، صوفی صاحب کو میاں صاحب کا وہاں بار بار آنا پسند نہیں تھا ۔منع فرما دیا اور حاجی محمد اکرم سے کہا کہ میاں صاحب میرے پاس نہ آیا کریں، میں ایک فقیر ہوں اور میرا تخت و تاج سے کیا تعلق ۔ان کا دل غنی اور دنیا کے مال و متاع سے بے نیاز تھا ۔ان کے کشف و کرامات کی ان گنت داستانیں مشہور ہوئیں کوئی انہیں ملنے آتا تھا تو فوراً جان لیتے تھے کہ اس کی آمد کا مقصد کیا ہے ؟ کیا یہ محض قیافہ شناسی تھی ،قیافہ شناسی یا خدو خال سے ظاہری کردار کا اندازہ تو ہو سکتا ہے مگر ان کے دلوں کے بھید جان لینا ایک مختلف بات ہے ۔پھر یہ کہ ملنے والے کی اصلیت پہچان لیتے اور اس کا برملا اظہار کر کے اسے حیران و ششدر کر دیتے ۔اپنے تمام کمالات و کرامات کے باوجود انہوں نے خدمت دین اور خدمت خلق کی راہ اپنائی ۔یہی ”خدمت” ان کا منشور تھا ۔آپ کے حالات زندگی جو راقم کو دستیاب ہوئے ان کے مطابق تاجدار دارالاحسان ابو انیس حضرت صوفی برکت علی لدھیانوی 27ربیع الثانی 1329ھ بروز جمعرات بمطابق 27اپریل 1911ء میں موضع برہمی لدھیانہ (انڈیا) میں پیدا ہوئے ۔آپ کے والد کا اسم گرامی میاں نگاہ بخش جبکہ آپ کی والدہ کا اسم مبارک جنت بی بی تھا ۔آپ کی والدہ ایک بہت ہی نیک خاتون تھیں جو آقائے نامدارۖ کی ذات مقدس پر کثرت سے درود و سلام کا نذرانہ بھیجا کرتی تھیں ۔آپ کے والد محترم بھی ایک صالح اور نماز روزہ کے پابند تھے ۔اہل اﷲ سے محبت میل ملاقات ان کا خاص شغف تھا ۔اکثر ایک مجذوب کی خدمت میں حاضری دیا کرتے تھے جس نے آپ کی آمد کی خوشخبری دیتے ہوئے ان الفاظ میں فرمایا کہ ” نگاہیا ! تیری قسمت میں تو کچھ نہیں البتہ تیرے ہاں ایک بیٹا پیدا ہو گا ‘بڑا زبردست”یہ پیشن گوئی آپ کی ولادت با سعادت سے پوری ہوئی ۔آپ کے والد محترم فوج میں ملازم تھے اور ان کی یہ خواہش تھی کہ میرا بیٹا فوج میں بھرتی ہو اور بڑا افسر بنے۔ ۔اس خواہش کی تکمیل کیلئے 9اپریل 1930ء کے روز بابا کریر والا کی سفارش سے صوبیدار پاکھر سنگھ راجوآنہ فوج میں بھرتی کروانے کیلئے لے کر گئے تو عجیب معاملہ یہ ہوا کہ کسی بھی میڈیکل ٹیسٹ وغیرہ دئیے بغیر ہی کیپٹن ڈاکٹر ایم اے کھنہ نے آپ کو دیکھتے ہی بھرتی کر لیا ۔ابتدا میں آپ بوائے کمپنی کیلئے بہتر سمجھے گئے بعد میں انڈین آرمی سپیشل کورس پاس کر کے وائی کیڈٹ کے طور پر منتخب ہوئے اور ہیڈ کوارٹر میں نہایت ہی اہم اور حساس ذمہ داری پر متعین کئے گئے ۔کور کمانڈر جنرل وچ آپ کی باوقار اور غیر معمولی شخصیت سے نہ صرف بے حد متاثر تھا بلکہ وہ آپ کی تقلیدمیں ماہ صیام میں روزہ کے اوقات میں کھانے پینے سے بھی گریز کیا کرتا تھا ۔فوج کے عام جوانوں میں بھی آپ کے حسن اخلاق اور نیک صفات کے چرچے عام تھے اور آپ کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ۔آپ فوجی ملازمت کے دوران اپنے فرائض سے فارغ ہو کر اکثر اوقات کلیر شریف میں حضرت بابا فریدالدین گنج شکر کے بھانجے اور خلیفہ خاص حضرت علائوالدین علی احمد صابر کے مزار پر انوار پر حاضری دیتے ہوئے ساری ساری رات مجاہدہ میں گزار دیتے ۔بلآخر آپ نے 22مارچ1945ء میں فوج سے استعفیٰ دے دیا ۔آپ نے 19ربیع الثانی 1363ھ میں اپنے وقت کے مشہور بزرگ شاہ ولایت حضرت شیخ امیرالحسن سہارنپوری کے دست مبارک پر بیعت کی ۔تقسیم ہند کے بعد 27اگست 1947ء میں بھارت سے ہجرت کرتے ہوئے پاکستان کی طرف قصد فرمایا اور فیصل آباد میں سالار والا ریلوے سٹیشن کے قریب ڈیرہ لگایا ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے