کالم

اجالوں کا سفر

وزیر اعظم شہباز شریف کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے مشکل حالات میں ڈوبتی معیشت کو منجدھار سے نکالا اور آگے کی جانب بڑھنا شروع کردیا ہے بلا شبہ معیشت کی بحالی میں انہیں ریاست کا بھی بھرپور اعتماد حاصل رہا اور ان کی معاشی ٹیم نے بھی دلجمعی کے ساتھ کام کیا یہی وجہ ہے کہ آج آئی ایم ایف سمیت عالمی مالیاتی ادارے اور چین سعودی عرب سمیت مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک بھی شہباز شریف حکومت کی اصلاحات پر اعتماد کا اظہار کرتے نظر آرہے ہیں اور یہ سب کچھ اس لئے ممکن ہوا کہ انہوں نے مشکل حالات اور تلخ سیاسی حالات میں الجھنے کے بجائے اپنی توجہ معاشی مالی اور ترقی کے عمل پر مرکوز رکھی جس کے مثبت ثمرات اس وقت پوری قوم کے سامنے ہیں گزشتہ دو اڑھائی برسوں کے دوران ملک کی بد ترین معاشی صورت حال کو دیکھتے ہوئے عوام مایوسی کا شکار تھے لیکن حکومت اور ریاستی اداروں کی مسلسل کاوشوں سے اس وقت ملکی معیشت مجموعی طور پر ایک امید افزا صورت حال پیش کر رہی ہے کرنٹ اکانٹ اور زر مبادلہ کی مارکیٹ کے پر سکون حالات کے نتیجے میں زرمبادلہ کے ذخائر بہتر ہوئے ہیں اسی طرح افراط زر کی شرح مئی 2023 میں 38فیصد تھی جو آج 4 فیصد کے لگ بھگ ہے پالیسی ریٹ جون 2023 میں22 فیصد کی بلند ترین سطح پر تھا اس میں بھی قابل ذکر کمی آئی ہے ڈیفالٹ کا خطرہ بھی کہیں پیچھے رہ گیا ہے اور کریڈ ریٹنگ مقرر کرنےوالے ادارے پاکستان کی معاشی ریکوری کو تسلیم کر رہے ہیں الغرضتلخ معاشی حقائق کو شریں معاشی صورت حال سے تبدیل کرنے کےلئے جاری کوششیں کامیابی کے آس پاس منڈلا رہی ہیں وزیر اعظم شہباز شریف کا معاشی استحکام کی جانب تیزی سے پیش رفت کا دعوی اپنی جگہ لیکن ملک کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ معاشی نظام کو درست خطوط پر استوار کرنے اور ٹھوس معاشی پالیسیاں بنانے کا ہے مضبوط اور جامع ترقی کے حصول کےلئے ڈھانچہ جاتی اصلاحات میں تیزی ضروری ہے افراط زر اور شرح سود میں کمی حکومت کے مائیکرو معاشی دعوں کی تصدیق کرتے ہیں مگر بادی النظر میں مائیکرو اکنامک استحکام کے لئے ابھی بہت کچھ کرنا ہوگا معاشی استحکام کا بنیادی چیلنج عام آدمی کی قوت خرید میں اضافہ ہے حکومتی شماریات کے مطابق رواں سال کے دوسرے نصف کے دوران افراط زر میں نمایاں کمی ہوئی ہے مگر روز گار کے مسائل اور قوت خرید میں کمی کا مسئلہ وہیں کا وہیں ہے کوئی بھی فلاحی ریاست عوام پر زیادہ بوجھ ڈالنے سے گریز اور سہولتیں دینے کی کوشش کرتی ہے لیکن مہنگائی اور بےروز گاری کم کرنے پر وسائل وقف نہ کرنے سے غربت اور بھوک و افلاس میں اضافہ ہوتا جارہا ہے جس سے ریاست پر اعتماد میں بھی کمی آرہی ہے سیاسی چالوں کی جنگ میں وطن عزیز کے اصل مسائل نظر انداز ہوکر ملکی معیشت کےلئے زہر بنتے جارہے ہیں ظاہر ہے اس زہر کا جب کوئی تریاق ہی تلاش کرنے میں سنجیدہ نہیں تو زہر ختم نہیں ہوگا اسی رویے کی بنا پر آج حالات اتنے پریشان کن ہو چکے ہیں کہ عام آدمی کے لئے جسم و جان کا رشتہ بر قرار رکھنا مشکل ہوچکا ہے عام آدمی کی آمدنی کم اور اخراجات زیادہ ہیں 30 سے 40 ہزار ماہانہ کمانے والے افراد کا گزارا کرنا مشکل تقریبا نا ممکن ہوگیا ہے رواں سال ماہ جنوری میں منصوبہ بندی کمیشن کی ایک رپورٹ میں ملک میں بیروز گاری کی شرح سات فیصد بتائی گئی ہے جبکہ عالمی بنک کے مطابق یہ 10.3 فیصد ہے پاکستان میں40فیصد آبادی خطہ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے اور 2024میں پاکستان میں غربت کی شرح میں سات فیصد اضافہ ہوا ہے اور مزید ایک کروڑ 30 لاکھ پاکستانی خطہ غربت سے نیچے چلے گئے ہیں اس وقت پاکستانیوں کی اوسط فی کس آمدن جو مالی سال 2022میں 1766 ڈالر تھی گھٹ کر 1680 ڈالر ہو چکی ہے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ معاشرے کے تمام طبقات کا معیار زندگی تنزلی کا شکار ہے ایسے حالات میں حکمرانوں کے معاشی بحالی یا استحکام کے دعوے عوام کو کیسے متاثر کرسکتے ہیں؟ حقیقی معاشی بحالی وہ ہوتی ہے جب سماجی تنا اور اضطراب میں کمی آئے اور عوام کو بنیادی سہولیات میسر ہوں حکومتی اقتصادی پالیسیوں کے نتیجے میں ملک کے غریب اور مہنگائی کی چکی میں پسے ہوئے عوام پرجو گزر رہی ہے اس کا مداوا بھی بہر حال ضروری ہے اب جبکہ حکومت ملکی اقتصادیات کو سنبھالا دینے کے دعوے کر رہی ہے تو ضروری ہے کہ عوام کی بحالی پر بھی خصوصی توجہ دی جائے حکومت اگر پر عزم ہوکر معیشت کو دستاویزی بنانے اور تمام شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے اقدامات کرے تو بھاری ٹیکسز کی شرح کو کم کرنا بھی ممکن ہے اور مجموعی قومی پیدوار میں ٹیکس آمدنی کا حصہ بڑھانا بھی لیکن اگر سارا زور فائلر اور نان فائلر کی بحث ہی پر رکھا گیا اور سی طبقے پر ٹیکس کا بوجھ لادا جاتا رہا جو پہلے سے ٹیکس ادا کر رہا ہے تو اس سے معاشی جمود اور عوامی مشکلات میں اضافہ ہوگا پالیسی سازوں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ بالواسطہ ٹیکسوں اور ٹیکسوں کی شرح میں اضافے سے درپیش مسائل حل نہیں ہوسکتے حکومت کےلئے چیلنج یہ ہے کہ ٹیکس نیٹ سے باہر شعبوں کے نشاندہی کرے اور ان سے محصولات اکٹھے کرے یہ اسی صورت ممکن ہوگا کہ جب حکومت خود بھی خود ساختی نوعیت کی ٹیکس اصلاحات اور اس شعبے کے بنیادی مسائل کو حل کرنے میں سنجیدہ ہو اگر مالیاتی اداروں کی شرائط کو پورا کرنے کےلئے عارضی اقدامات کئے جاتے رہے تو نتیجہ اب بھی ماضی سے مختلف نہیں ہوگا پاکستان کے پاس ایسے متعدد وسائل موجودہ ہیں جن پر سرمایہ کاری کی جائے تو ملک خوشحال ہوسکتا ہے معدنی وسائل کسی بھی ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں معدنیات دو قسم کی ہوتی ہیں ایک دھاتی اور دوسری غیر دھاتی اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو وہ سب کچھ دیا ہے جس کی کسی بھی قوم کو خوشحالی اور ترقی کےلئے ضرورت ہوتی ہے وطن عزیز کے پاس پیسہ کمانے اور ہماری معیشت کو مضبوط کرنے کے بے پناہ وسائل ہیں نہ صرف ہماری زمین پر بلکہ زمین کے نیچے بھی بہت زیادہ معدنی وسائل ہیں ہماری زمینوں کے نیچے سونا، تانبا، لوہا، جواہرات، سنگ مرمر تیل گیس اور دیگر بہت سی معدنیات موجود ہیں جنہیں ہم حتمی شکل دینے کے بعد اگر صحیح طریقے سے نکال کر مارکیٹ میں لائیں تو اس سے حاصل ہونےوالی آمدنی اس قوم کی تقدیر بدل سکتی ہے ہم قدرت کے ان انمول خزانوں کو صحیح منصوبہ بندی اور افرادی قوت کے درست اور بر وقت استعمال کے ذریعے نہ صرف پاکستان کو تیز ترین معاشی وسماجی ترقی کی نئی راہوں پر گامزن کرسکتے ہیں ملک میں وسائل کی کمی نہیں دستیاب وسائل سے فائدہ اٹھانے کی منصوبہ بندی اور حکمت عملی کا فقدان بڑا مسئلہ ہے سی پیک کے تحت بننے والے منصوبے بھی اس سے مستثنیٰ نہیں جہاں بنیادی انفراسٹرکچر تو بڑی حد تک مکمل ہوچکا ہے مگر اکنامک زونز جہاں پاکستان چین اور دیگر ممالک کے سرمایہ کاروں نے صنعتیں لگانی ہیں اور کاروبار کرنے ہیں وہاں ابھی تک مطلوبہ سرگرمیاں دکھائی نہیں دیتیں اس کی وجہ ہمارے ہاں حکومتی سطح پر فیصلہ سازی میں تاخیر اور فیصلوں پر عمل درآمد میں لیت ولعل کی روایت ہے ٹیکس کے نظام کو بہتر بنانا اور اسے وقعت دینا ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو متحرک توانائی کے شعبے کو ٹھیک کرنا جو گردشی قرضوں میں اضافے کی بڑی وجہ ہے ملک میں اصلاحات متعارف کروانے کےلئے ایک قومی پالیسی ایجنڈے کی ضرورت ہے جس میں تمام سٹیک ہولڈرز کی شمولیت ضروری ہے اگر تمام سیاسی قائدین چارٹر آف اکانومی پر اکٹھے ہو جائیں تو معاشی ترقی کی رفتار تیز اور دیگر کئی مسائل بآسانی حل ہوسکتے ہیں قرض کے پروگراموں سے ادائیگیوں کا توازن کسی قدر قائم ہوا مگر اب بھی معاشی استحکام کی منزل خاصی دور ہے معاشی استحکام کےلئے قومی پیدواری صلاحیت کو بڑھانے اور دولت پیدا کرنے کی ضرورت ہے حکومتی اقتصادی ٹیم کی جانب سے بر وقت اقدامات اور مشکل فیصلوں کے نتیجے میں معیشت میں بہتری کے امکانات کا نمایاں ہو جانا بلا شبہ موجودہ حکومت کی ایک بڑی کامیابی ہے تاہم معاشی بہتری کے مثبت نتائج کو بلاتاخیر نچلی سطح تک منتقل کئے جاتا رہنا اور عوام کو مشکل فیصلوں کے منفی اثرات سے بچانے کی حتی الامکان ہر تدبیر کرنا ضروری ہے کیونکہ حقیقی قومی ترقی کا پیمانہ اشرافیہ کی نہیں عوام کی خوشحالی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے