انسان کا بدترین المیہ یہ ہے کہ اسر آذادی سے محروم رکھ کر ہر دور میں انسان کا غلام بنایاگیا ہے اور اسر مجبور کیا گیا ہے کہ وہ جانوروںکی طرح لاچار کی حیثیت سے ذندگی گزارے اور اسے ایک قسم کی افیوم دیکر یہ پٹی پڑھائی گئی ہے کہ یہاںکی پروقار ذندگی کے بارے میں سوچو بھی نہ ۔تمہارے لیئے معاشی اور معاشرتی جدوجہد عبث ہے اگر تم بھوک سے مرتے ہو تو مرجاﺅ ،یہی مرجانا تمہارے لیئے بہتر ہے لیکن صبر کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دو ،تمہارے یہا کی تکلیف ہی میں وہاں کی عیش ہے مالداروںمالداروں سے لڑ کر اپنی عاقبت مت خراب کرو ۔اخلاقی دیوالیہ پن کی وجہ سے ہمارا معاشرہ بگاڑ کا شکار ہو چکا ہے لالچ،ہوس اور حرص نے انسان کوحیوانیت کے درجے سے بھی گرادیا ہے انسان کے انسان کی غم گیری مفقود ہوگئی ہے اور اسکی جگہ خود غرضی نے لے لی ہے آخر ایسا کیوںہے ؟اس کا صاف اور واضح جواب یہ ہے کہ ہماری طرز سیاست غلط ہے اور غلط ہاتوں میں ہے کوئی جاگیر کی بنیاد پر سیاست کرتا ہے اور کوئی اپنی سیاست کو دولت سے چمکاتا ہے اور کوئی مذہب کا نام لیکر اپنے لیئے سیاسی راستہ ہموار کرتا ہے ۔سب جھوٹ بولتے ہیں ،پر، پروپیگنڈے کرتے ہیں ،عوام کو سبز باغ دیکھا کر انھیں قائل کرتے ہے اور ان کی جیب کاٹ کر ان کا سکون غارت کرتے ہیںاور محض نعرے لگا کر من موجی ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔ظلم اور تشدد کی سیاست ،سرمایہ داری اور سرمایہ داریت کی سیاست اور منافقت اور فرقہ واریت کی سیاست نے کبھی دانشوری اور روشن خیالی کا ڈھول پیٹ کر ،کبھی فلسفی کے روپ میں آ کر کبھی عقیدے اور مسلک کا جھگڑا لیکر کبھی زمیندار کی شکل میںکبھی مذہب کی آڑ لیکر کبھی روحانیت کاجبہ اوڑھ کر کبھی بے دینی کا پرچار کرکے کبھی سائنسی ترقیات کے نام پر کبھی تاجر کی شکل اختیار کرکے چہرے آ تے ہیں اور چہرے جاتے ہیںاور بےچارے عوام محو تماشہ ہیں۔صبر کا جو فلسفہ یہاں پیش کیا جاتا ہے اسکے رموز بڑے نرالے ہیں کہا جاتا ہے کہ اپنی اور افلاس کی شکایت اور ظلم اور زیادتی کے خلاف آ واز اٹھانا ایک ایسا عمل ہے جس سے اجر ضائع ہوجاتا ہے اور دوسروںکو ظالم کہنے سے پہلے اپنا محاسبہ ضروری ہے اور اپنے گریبان میں دیکھنا چائیے کہ ہم خود کتنے پانی میںہیں ،اگر یہاں انصاف نہیں ملتا تو نہ ملے وہاںضرور انصاف ہوگا ،غریب غربت لیکر پیدا ہوتا ہے ،یہ اسکی اپنی قسمت ہے اور یہی غربت اسے آخرت نعمت بھی ہے اور مالدار بھی اپنی قسمت کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں،اور بعض دانشور اور فلسفی یہ اپنے دانش کدے سے یہ فلسفہ بکھیرتے ہیںکہ دنیا نصیب سے ہے اور آخرت محنت سے ،جمود کا یہ فلسفہ بڑا نرالہ ہے اور یہی وہ نظریہ ہے جو قنوطیت کی عکاسی کرتا ہے ان کی دانست میں اقبال نے یوںہی کہ دہا ہے کہ
تقدیر کے پابند ہیں نباتات وجمادات
مومن فقط احکام الٰہی کا ہے پابند
اگر دیکھا جائے تو عجیب فکسفوں اور نظریات نے انسانی مزاج کا جنازہ نکال دیاہے ،بزدلی کو صبر کے معنی دیدیئے گئے ہیں شاید ایسے ہی فلسفیوں کے لیئے اقبال زاغوں کے تصرف میں عقاب کا نشیمن والی پھبتی کسی ہے ، انفرادیت پسندی کو ایمان کی پختگی کی علامت اور گروہیت اور فرقہ واریت کو مسلمان کی پہچان قرار دیا گیا ہے ،اسکا نتیجہ یہ ہے کہ مسجدوں میں سنگینوں کے سایہ میں نمازادا کی جاتی ہے ،رواداری کے سارے دروازے بند کردئے گئے ہیں ذاتی مفاد ات اور انفرادیت پسندی کی تسکین کیلئے اسلام کے زریں اصولوں کو بھی اپنے تابع بنا کر اس سبق کوبھلا دیا گیا ہے کہ اسلام کل انسانیت کی بھلائی چاہتا ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن نے اجتماعی سوسائٹی کو مخاطب کیا ہے ۔اللہ تعالٰی کو انسانیت کی ارتقاءمطلوب ہے اور اللہ تعالیٰ انسان تنزلی سے نکال کر ترقی اور فلاح کا راستہ دکھاتا ہے اور یہی راستہ انسان کیلئے قرآن نے متعین کیا ہے اور اجتماعیت کے ذریعے اس راستے کو حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ہم پر مسلط نظامِ عوام اور خاص کر نوجوانوں کی ایسی تربیت کی صلاحیت کا دشمن ہے کہ جس کے نتیجے میں وہ سماجی جدوجہد کے لیے کسی ضابطے کی پابندی کا مظاہرہ کرسکیں اور اجتماعی مقاصد کی حکمت سے بہرہ مند ہوکر انسانی احساسات اور قومی غیرت کے ساتھ ملک اور قوم کی خدمت کے جذبے سے معمور ہوں۔ ہمارے ہاں کی سیاسی قوتیں خواہ ایوانوں اور اداروں میں ہوں یا سڑکوں پر‘ یا تو سِرے سے قوم کو درپیش حقیقی مسائل کے شعور سے محروم ہونے کی وجہ سے اس پر بات ہی نہیں کرتیں، یا پھر اپنے سفلی ایجنڈے کےلئے قومی ایشوز پر نوجوانوں کو اس طرح مشتعل کرتی ہیں کہ اس سے وہ مسائل کے حقیقی حل کے بجائے اَنارکی اور جلا¶ گھیرا¶ کی نفسیات کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ آج ہمارے معاشرے میں اخلاقی دیوالیہ پن کا دور دورہ ہے سرمایہ داریت اور حرص نے انسانیت پر پردے ڈالے ہوئے ہیں اور حیوانیت کو غلبہ حاصل ہوگیا ہے ۔انسان خواہشات کا تابع ہوگیا ہے دولت کی پوجا نے آج کے کو صرف روٹی کا کیڑا بنادیا ہے ،سارا دن وہ روٹی کی تلاش میں وہ مارا مارا پھیرتا اور پھر بھی قلاش ہے یہ سب کچھ کیا ہے ؟اسکا جواب یہ ہے کہ یہ سب انفرادیت پسندی کا شاخسانہ ہے نیک بننے کا جذبہ تو ہم میں ہے لیکن انفرادی پسندی کا نشہ اسکے راستے میں رکاوٹ ہے ۔کیا حرام کی کمائی پر پلنے والے اور حرام کی کمائی کو شیر مادر کی طرح حلال سمجھنے والوں کے حج اور عمرے انہیں بچاسکیںگے؟ کیا ٹیکس چھپانے والے اور دو نمبر کا مال تیار کرکے بیچنے والوں کے صدقے اور خیرات اور نیکیاں ان کو بچاسکیں گی؟۔
کالم
اجتماعیت سے فرار کے نتائج !
- by web desk
- جنوری 17, 2024
- 0 Comments
- Less than a minute
- 437 Views
- 2 سال ago
