قوموں کی ترقی کا راز ان کے اتحاد، ایثار اور اجتماعی شعور میں پوشیدہ ہوتا ہے۔ جب افراد اپنی ذات سے بلند ہو کر قوم کے مفاد میں سوچنے لگیں تو وہ معاشرے سنہری ادوار تخلیق کرتے ہیں مگر جب ذاتی مفادات اجتماعی مقاصد پر غالب آ جائیں تو وہی قومیں جو کبھی طاقت و عزت کی علامت ہوتی ہیں، رفتہ رفتہ زوال کا شکار ہو جاتی۔کسی قوم کی اجتماعی بقا کا دار و مدار اس بات پر ہوتا ہے کہ ان میں سے کس جذبے کو زیادہ تقویت دی جاتی ہے۔ترقی پذیر دنیا کے کئی ممالک آج ایک ایسے دوراہے پر کھڑے ہیں جہاں ذاتی مفاد، خاندانی و سیاسی گروہ بندی، اقربا پروری اور بدعنوانی نے اجتماعی مفاد کو پس منظر میں دھکیل دیا ہے۔قومی اداروں کی کمزوری، انصاف کی ناپیدی اور نظام کی خرابی کی جڑ دراصل وہی انفرادی سوچ ہے جو میں کو ہم پر ترجیح دیتی ہے۔ یہی وہ ذہنیت ہے جو کسی ملک کی جڑوں میں دیمک کی طرح سرایت کر جاتی ہے ۔ اجتماعی مفاد وہ بنیاد ہے جس پر قومیں اپنے مستقبل کی عمارت کھڑی کرتی ہیں ۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد تباہ حال جرمنی اور جاپان نے اگر چند دہائیوں میں دوبارہ دنیا کے طاقتور ترین ممالک کا درجہ حاصل کیا تو اس کی ایک ہی بڑی وجہ تھی،ان قوموں نے اجتماعی مفاد کو ذاتی مفاد پر فوقیت دی۔ جرمن قوم نے تباہ کاریوں کے بعد اپنے آپ کو از سر نو تعمیر کیا۔ ہر فرد نے اپنے حصے کا کام پوری دیانت سے کیا۔ جاپان نے ایٹمی بموں کی ہولناکی کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ اب وہ جنگ نہیں بلکہ علم،ٹیکنالوجی، نظم و ضبط اور اجتماعی محنت کے ذریعے ترقی کرے گا۔ نتیجہ یہ کہ آج جاپان عالمی معیشت کا استعارہ ہے۔رومی سلطنت جو کبھی دنیا کے بڑے حصے پر حکومت کرتی تھی، آخر کیوں برباد ہوئی۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ وہاں کے امرا اور حکمران طبقے نے اجتماعی بھلائی کو چھوڑ کر اپنی عیاشیوں ، طاقت کے تحفظ اور ذاتی دولت کے انبار لگانے پر توجہ دی۔عوامی فلاحی نظام ختم ہو گیا، قانون صرف طاقتوروں کیلئے رہ گیا۔ نتیجہ یہ کہ بیرونی حملوں اور اندرونی بغاوتوں نے ایک عظیم سلطنت کا نام صفح ہستی سے مٹا دیا۔جب شہری ذمہ داری، ایثار اور دیانت مفقود ہو جائے تو سلطنتیں تلوار سے نہیں بلکہ اپنی اخلاقی کمزوری سے فنا ہوتی ہیں۔ ابن خلدون نے اپنی کتاب مقدمہ میں تحریر کیا ہے کہ جب قوموں کے اندر اجتماعی شعور اور عصبیت ختم ہو جائے تو ان کا زوال مقدر بن جاتا ہے ۔ اداروں کی کمزوری بھی دراصل انفرادی مفادات کی پیداوار ہے۔ جہاں قانون سب کیلئے برابر نہ ہو، جہاں اداروں پر ذاتی اثرورسوخ ہو، جہاں میرٹ کے بجائے سفارش یا رشوت کام دے، وہاں انصاف، استحکام اور ترقی ممکن نہیں۔ انٹرنیشنل ٹرانسپیرنسی کی رپورٹ کے مطابق وہ ممالک جن میں بدعنوانی کی شرح کم ہے، وہاں فی کس آمدنی اور عوامی خوشحالی زیادہ پائی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر ڈنمارک، فن لینڈ اور نیوزی لینڈ جیسے ممالک میں کرپشن کم ہے اور انہی ممالک میں انسانی ترقی کا معیار سب سے بلند ہے۔ ان ممالک میں عوامی اداروں پر عوام کا اعتماد اتنا زیادہ ہے کہ لوگ ٹیکس دیتے ہوئے سمجھتے ہیں کہ یہ ان کے اپنے بچوں کے مستقبل پر خرچ ہو گا، نہ کہ کسی سیاستدان کی جیب میں جائے گا ۔ ورلڈ ویلیو سروے کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ معاشروں میں باہمی اعتماد کی سطح جتنی بلند ہوتی ہے، وہاں معیشت بھی اتنی مستحکم رہتی ہے ۔ اسلام اجتماعی مفاد کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔ قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد ہے کہ”نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی مدد کرو، گناہ اور زیادتی پر تعاون نہ کرو۔” یہ آیت دراصل اجتماعی زندگی کے اصول کا خلاصہ ہے ۔ اسلام نے فرد کی آزادی کو سلب نہیں کیا بلکہ اس کی حد وہاں مقرر کی جہاں دوسرے کا حق متاثرہو۔ زکواة، عشر، صدقات اور بیت المال جیسے نظام اس بات کے مظاہر ہیں کہ اسلامی معاشرت کی بنیاد اجتماعی مفاد پر رکھی گئی تھی۔ خلفائے راشدین کے ادوار میں جب بیت المال عوامی امانت سمجھا جاتا تھا تو ریاستی وسائل سب کیلئے برابر تھے۔ یہی وہ اجتماعی سوچ تھی جس نے ایک مختصر مدت میں ایک منتشر عرب قوم کو عالمی طاقت بنا دیا۔بدقسمتی سے آج مسلم دنیا میں اجتماعی مفاد کا وہ جذبہ ناپید ہوتا جا رہا ہے۔ مساجد، سیاست، تعلیم حتیٰ کہ فلاحی ادارے بھی ذاتی مفاد، شہرت یا گروہی اثر کیلئے استعمال ہونے لگے ہیں۔ جب قوم کا ہر طبقہ صرف اپنے مفاد کا سوچنے لگے تو پھر ریاست کے ادارے کمزور پڑ جاتے ہیں، قوم تقسیم ہو جاتی ہے اور ترقی کا سفر رک جاتا ہے۔جب عام شہری یہ سمجھنے لگے کہ قانون صرف کمزور کیلئے ہے اور طاقتور کیلئے نہیں تو پھر قوموں کا اعتماد اداروں سے اٹھ جاتا ہے۔ یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جہاں ریاستیں اندر سے کھوکھلی ہو جاتی ہیں ۔ دوسری طرف اگر ہم ان معاشروں پر نظر ڈالیں جو اجتماعی سوچ پر قائم ہیں تو وہاں کا نظم، انصاف اور ترقی خود بولتی ہے۔ سویڈن میں ایک عام شہری اگر کسی چوراہیکی لال بتی پر رکے تو وہ پولیس کے خوف سے نہیں بلکہ اجتماعی نظم کے احترام میں رکتا ہے۔ جاپان میں زلزلے یا قدرتی آفات کے بعد لوگ قطاروں میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں، لوٹ مار نہیں کرتے۔ ان کا یقین ہوتا ہے کہ ریاست ان کیلئے انصاف کریگی اور وسائل منصفانہ طور پر تقسیم ہوں گے ۔ یونیورسٹی آف شکاگو کے تحقیق کے مطابق وہ ممالک جہاں رضاکارانہ تنظیمیں، مقامی کمیونٹی ادارے اور شہری شرکت زیادہ ہے، وہاں غربت کم اور تعلیم کی سطح بلند پائی جاتی ہے۔ اس کے برعکس جن معاشروں میں لوگ صرف ذاتی مفادات میں الجھے رہتے ہیں، وہاں حکومتی پالیسیوں کی کامیابی بھی کم ہوتی ہے کیونکہ عوام ان پر بھروسہ نہیں کرتے۔ استدعا ہے کہ اپنے تعلیمی، اخلاقی اور ادارتی نظام کو اس نہج پر لائیں جہاں اجتماعی سوچ کو فروغ دیا جائے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ پالیسی سازی میں شفافیت لائیں، اداروں کو خود مختار بنائیں اور احتساب کا ایسا نظام قائم کریں جہاں کسی کی حیثیت یا عہدہ رکاوٹ نہ بنے۔ جب عوام کو یقین ہو جائے کہ قانون سب کیلئے برابر ہے تو وہ بھی اپنی ذمہ داریاں بہتر نبھاتے ہیں ۔ قوموں کی تعمیر کیلئے بڑے منصوبے یا بلند عمارتیں کافی نہیں ہوتیں بلکہ اجتماعی ضمیر کا بیدار ہونا ضروری ہوتا ہے۔

