کالم

اجمیر کی وسیب۔۔۔!

khalid-khan

اجمیر کانام ملحقہ پہاڑی "اجے میرو” کے نام سے موسوم ہے،اس کا مطلب نا قابل تسخیر ہے۔اس شہر کی بنیاد گیارہویں صدی میں "اجے پال چوہان”نے رکھی تھی۔اس شہرکاتذکرہ بھارت کی قدیم کتابوں مہابھارت، رامائن اورپرناس میں موجود ہے ، ان کتابوں میں اجمیر کےلئے پشکر کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اجمیر میدانی ، صحرائی اور پہاڑی بیک وقت منفرد خصوصیات کاحامل شہر ہے۔اجمیرہندو اور مسلم دونوں تہذیب کا امین شہر ہے۔آپ کو اس شہر میں تفریق اور امتزاج دونوں نمایاں نظر آئیں گے۔ اجمیر لاہور سے 563کلومیٹر، دہلی سے400 کلومیٹر اور ریاست راجھستان کے دارالحکومت جے پور سے 130کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔اجمیر شریف مسلمانوں کےلئے حضرت خواجہ غریب نواز معین الدین چشتیؒ کے مزار کے باعث قابل احترام ہے جبکہ ہندﺅوں کےلئے پشکر جھیل کے ساتھ بر ہمامندر کی وجہ سے پوجا پاٹ کا مرکز ہے۔اجمیر شریف کے وسط میںایک پرہجوم گلی میں سے گذر کر حضرت خواجہ غریب نواز معین الدین چشتی اجمیری کے درگاہ کا راستہ جاتا ہے۔درگاہ کا صدر دروازہ ریاست حیدر آباد کے نظام نے بنایا تھا جبکہ اندورنی دروازہ اکبر بادشاہ نے بنوایاتھا اور دروازے کے اوپربالکونی میں دو ڈھول رکھے گئے ہیں ،یہ ڈھول اکبر بادشاہ نے قلعہ چتوڑ کے فتح کے موقع پر حاصل کیے تھے اور ان ڈھولوں کو فتح کے نشان کے طور پر رکھا گیاہے۔نواب رام پور نے مزار کے اوپر سوا من سونے کا تاج لگایا ہے۔درگاہ کے قریب تین مساجد ہیں، ایک مسجد اکبر بادشاہ ،دوسری مسجد شاہ جہاں اورتیسری مسجد اور نگزیب نے تعمیر کروائی۔ شاہ جہاں کی بیٹی جہاں آراءنے یہاں پر سفید سنگ مرمرکا کمرہ بنوایا۔حضرت خواجہ غریب نواز معین الدین چشتی کی پیدائش سیستان کے قصبے سنجر میں ہوئی۔سرزمین ہند میںسلسلہ چشتیہ کے بانی ہیں۔آپ کا نام معین الدین تھا اور آپ کا سلسلہ نسبت بارہویں پشت میں حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے۔ آپ کے والد ماجد کانام غیاث الدین تھا جبکہ والدہ ماجدہ کانام بی بی ماہ نور تھا۔آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والدماجد سے حاصل کی جو بہت بڑے عالم تھے۔آپ نے نوبرس کی عمر میں قرآن مجید حفظ کیا اور پھر ایک مدرسہ میں تفسیر وحدیث اور فقہ کی تعلیم حاصل کی۔آپ بچپن میںاکثر گلی سے اپنے ہم عمر بچوں کو گھربلا کراپنے ساتھ بیٹھاکر ان کوکھانا کھلاتے اور خوش ہوتے تھے۔ جب آپ کی عمر پندرہ سال ہوئی تو ان کے والد حضرت غیاث الدین فانی دنیا سے انتقال فرماگئے اور ترکہ میں ایک باغ اور ایک پن چکی تھی ۔ ان کی والدہ ماجدہ بی بی ماہ نور نے ان کوذریعہ معاش بنایا۔روایت ہے کہ ایک دن حضرت معین الدین ؒ اپنے باغ میں پودوں کو پانی دے رہے تھے کہ باغ میں ایک مجذوب حضرت ابراہیم قندوزی آئے ، آپ نے ان کو عزت واحترام سے بیٹھادیا اور انگور پیش کیا۔ حضرت ابراہیم قندوزی نے حضرت معین الدین کو ایک روٹی کا ٹکڑا دیا جس سے ان کی دل کی دنیا بدل گئی۔ بعدازاںآپ نے بغداد، مکہ اور مدینہ منورہ کا سفر کیا، حضرت خواجہ عثمان ہارونی ؒ کے دست مبارک پر بیعت کی۔قیام مدینہ منورہ کے دوران میںنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپؒ کو ہندوستان کی ولایت و قطبیت اور اجمیر جانے کی بشارت ہوئی تھی ۔آپ نے لاہور میں حضرت علی ہجویری داتا گنج بخش کے درگاہ پر قیام کیا اور لاہور سے رخصت ہوتے وقت یہ شعر پڑھا۔
"گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا
ناقصاں را پیر کامل، کاملاں را رہنما”
آپ ؒ نے لاہور سے اجمیر تک کا سفر دو ماہ میں پیدل کیا اور راستے میں سینکڑوں ہندﺅوں کو مسلمان کیا۔ آپ کی اجمیر شریف آمد سے قبل پرتھوی راج رائے پتھورا کی ماں جوکہ ماہر نجوم اور جادوگرنی تھی ، اس نے اپنے بیٹے کو پیش گوئی کہ اس حلیے اور علامات کا ایک درویش ہندوستان آئے گا اور تیری حکومت کو ختم کرکے اپنے دین کو فروغ دے گا۔تم ان کی عزت واحترام کرنا وگرنہ تم اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھو گے۔ پرتھوی راج رائے پتھورا نے ماں کی پیش گوئی پر عمل کرنے کی بجائے اپنے علاقے کے حاکمین کو اس درویش کا حلیہ لکھ کر بھیجا۔ آپ ؒ کی دہلی پہنچنے پر مخبروں نے آمد کی اطلاع دے دی، دہلی کے بعدسمانا ضلع پٹیالہ میں پرتھوی راج کے بندوں نے چالاکی سے وہاں قیام کے بندوبست کی پیش کش کی۔ حضرت معین الدین چشتی نے مراقبہ کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انکی چال کے بارے میں آگاہ کیا اور وہاں قیام سے منع کیا گیا ۔ آپ چالیس درویشوں کے ہمراہ 10محرم561ھ کو اجمیر پہنچے۔وہاں پہنچے تو آپ نے ایک سایہ دار درخت کے نیچے قیام کیا تو ساربانوں نے کہا کہ یہ جگہ ہمارے اونٹوں کے بیٹھنے کےلئے ہے، آپ نے فرمایا کہ اونٹوں کو دوسری جگہ بیٹھا دو لیکن وہ نہ مانے۔آپ نے کہا کہ ہم اٹھتے ہیں لیکن تمہارے اونٹ بیٹھے رہیں گے۔ساربانوں نے آرام کے بعد اونٹوں کو اٹھانا چاہا تو وہ نہیں اٹھ رہے تھے، وہ دودن کوشش کرتے رہے کہ کسی طرح اونٹ کھڑے ہوجائیں لیکن ان کی کوئی ترکیب کامیاب نہ ہوئی تو ساربانوں کو سمجھ آگئی اور وہ سارے ان کے پاس معافی کے لئے پہنچ گئے تو آپؒ نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالی کے حکم سے تمہارے اونٹ اٹھ جائیں گے، ساربان وہاں واپس پہنچے تو یہ دیکھ کر ششدر رہ گئے کہ ان کے اونٹ کھڑے تھے۔کہتے ہیں کہ حضرت خواجہ غریب نواز معین الدین چشتی اجمیری نے 90 لاکھ ہندﺅوں کو مسلمان کیا جو پہلے کئی خداﺅں کی پوجا کرتے تھے اور اب وہ ایک خدا کی عبادت کرنے لگے۔آپ کے مزار پر صرف مسلمان نہیں بلکہ ہندو، سکھ ، عیسائی، پارسی اور بدھ مت سمیت سب لوگ حاضری کےلئے آتے ہیں۔ترجمان وزارت مذہبی امور کے مطابق امسال اجمیر شریف کےلئے صرف 249پاکستانی زائرین کو ویزے جاری کیے گئے ہیں حالانکہ488 افراد کے پاسپورٹ بھیجوائے گئے تھے۔خاکسار بھی حضرت نواز معین الدین چشتیؒ ، حضرت نظام الدین اولیاءؒ،حضرت امیر خسروؒ ، حضرت شاہ ولی اللہؒ،حضرت شاہ عبدالرحیم ؒ ،حضرت شاہ عبدالعزیز ؒ، حضرت خواجہ حمید الدین ناگوری ؒ ، حضرت خواجہ بختیار کاکی ؒ ، حضرت مخدوم نصیر الدین محمود روشن چراغ دہلویؒ، حضرت خواجہ باقی باللہ ؒ اور حضرت سلطان التمشؒ کے مزارات پر انتہائی عقیدت و احترام سے حاضری کےلئے بے تاب ہے، اس سلسلے میںحکومت پاکستان اور حکومت بھارت کی مدد کی اشد ضرورت ہے، علاوہ ازیں انفرادی طور پر کوئی شخص اس سلسلے میں معاونت کرسکتاہے۔
اجمیر کانام ملحقہ پہاڑی "اجے میرو” کے نام سے موسوم ہے،اس کا مطلب نا قابل تسخیر ہے۔اس شہر کی بنیاد گیارہویں صدی میں "اجے پال چوہان”نے رکھی تھی۔اس شہرکاتذکرہ بھارت کی قدیم کتابوں مہابھارت، رامائن اورپرناس میں موجود ہے ، ان کتابوں میں اجمیر کےلئے پشکر کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اجمیر میدانی ، صحرائی اور پہاڑی بیک وقت منفرد خصوصیات کاحامل شہر ہے۔اجمیرہندو اور مسلم دونوں تہذیب کا امین شہر ہے۔آپ کو اس شہر میں تفریق اور امتزاج دونوں نمایاں نظر آئیں گے۔ اجمیر لاہور سے 563کلومیٹر، دہلی سے400 کلومیٹر اور ریاست راجھستان کے دارالحکومت جے پور سے 130کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔اجمیر شریف مسلمانوں کےلئے حضرت خواجہ غریب نواز معین الدین چشتیؒ کے مزار کے باعث قابل احترام ہے جبکہ ہندﺅوں کےلئے پشکر جھیل کے ساتھ بر ہمامندر کی وجہ سے پوجا پاٹ کا مرکز ہے۔اجمیر شریف کے وسط میںایک پرہجوم گلی میں سے گذر کر حضرت خواجہ غریب نواز معین الدین چشتی اجمیری کے درگاہ کا راستہ جاتا ہے۔درگاہ کا صدر دروازہ ریاست حیدر آباد کے نظام نے بنایا تھا جبکہ اندورنی دروازہ اکبر بادشاہ نے بنوایاتھا اور دروازے کے اوپربالکونی میں دو ڈھول رکھے گئے ہیں ،یہ ڈھول اکبر بادشاہ نے قلعہ چتوڑ کے فتح کے موقع پر حاصل کیے تھے اور ان ڈھولوں کو فتح کے نشان کے طور پر رکھا گیاہے۔نواب رام پور نے مزار کے اوپر سوا من سونے کا تاج لگایا ہے۔درگاہ کے قریب تین مساجد ہیں، ایک مسجد اکبر بادشاہ ،دوسری مسجد شاہ جہاں اورتیسری مسجد اور نگزیب نے تعمیر کروائی۔ شاہ جہاں کی بیٹی جہاں آراءنے یہاں پر سفید سنگ مرمرکا کمرہ بنوایا۔حضرت خواجہ غریب نواز معین الدین چشتی کی پیدائش سیستان کے قصبے سنجر میں ہوئی۔سرزمین ہند میںسلسلہ چشتیہ کے بانی ہیں۔آپ کا نام معین الدین تھا اور آپ کا سلسلہ نسبت بارہویں پشت میں حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے۔ آپ کے والد ماجد کانام غیاث الدین تھا جبکہ والدہ ماجدہ کانام بی بی ماہ نور تھا۔آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والدماجد سے حاصل کی جو بہت بڑے عالم تھے۔آپ نے نوبرس کی عمر میں قرآن مجید حفظ کیا اور پھر ایک مدرسہ میں تفسیر وحدیث اور فقہ کی تعلیم حاصل کی۔آپ بچپن میںاکثر گلی سے اپنے ہم عمر بچوں کو گھربلا کراپنے ساتھ بیٹھاکر ان کوکھانا کھلاتے اور خوش ہوتے تھے۔ جب آپ کی عمر پندرہ سال ہوئی تو ان کے والد حضرت غیاث الدین فانی دنیا سے انتقال فرماگئے اور ترکہ میں ایک باغ اور ایک پن چکی تھی ۔ ان کی والدہ ماجدہ بی بی ماہ نور نے ان کوذریعہ معاش بنایا۔روایت ہے کہ ایک دن حضرت معین الدین ؒ اپنے باغ میں پودوں کو پانی دے رہے تھے کہ باغ میں ایک مجذوب حضرت ابراہیم قندوزی آئے ، آپ نے ان کو عزت واحترام سے بیٹھادیا اور انگور پیش کیا۔ حضرت ابراہیم قندوزی نے حضرت معین الدین کو ایک روٹی کا ٹکڑا دیا جس سے ان کی دل کی دنیا بدل گئی۔ بعدازاںآپ نے بغداد، مکہ اور مدینہ منورہ کا سفر کیا، حضرت خواجہ عثمان ہارونی ؒ کے دست مبارک پر بیعت کی۔قیام مدینہ منورہ کے دوران میںنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپؒ کو ہندوستان کی ولایت و قطبیت اور اجمیر جانے کی بشارت ہوئی تھی ۔آپ نے لاہور میں حضرت علی ہجویری داتا گنج بخش کے درگاہ پر قیام کیا اور لاہور سے رخصت ہوتے وقت یہ شعر پڑھا۔
"گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا
ناقصاں را پیر کامل، کاملاں را رہنما”
آپ ؒ نے لاہور سے اجمیر تک کا سفر دو ماہ میں پیدل کیا اور راستے میں سینکڑوں ہندﺅوں کو مسلمان کیا۔ آپ کی اجمیر شریف آمد سے قبل پرتھوی راج رائے پتھورا کی ماں جوکہ ماہر نجوم اور جادوگرنی تھی ، اس نے اپنے بیٹے کو پیش گوئی کہ اس حلیے اور علامات کا ایک درویش ہندوستان آئے گا اور تیری حکومت کو ختم کرکے اپنے دین کو فروغ دے گا۔تم ان کی عزت واحترام کرنا وگرنہ تم اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھو گے۔ پرتھوی راج رائے پتھورا نے ماں کی پیش گوئی پر عمل کرنے کی بجائے اپنے علاقے کے حاکمین کو اس درویش کا حلیہ لکھ کر بھیجا۔ آپ ؒ کی دہلی پہنچنے پر مخبروں نے آمد کی اطلاع دے دی، دہلی کے بعدسمانا ضلع پٹیالہ میں پرتھوی راج کے بندوں نے چالاکی سے وہاں قیام کے بندوبست کی پیش کش کی۔ حضرت معین الدین چشتی نے مراقبہ کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انکی چال کے بارے میں آگاہ کیا اور وہاں قیام سے منع کیا گیا ۔ آپ چالیس درویشوں کے ہمراہ 10محرم561ھ کو اجمیر پہنچے۔وہاں پہنچے تو آپ نے ایک سایہ دار درخت کے نیچے قیام کیا تو ساربانوں نے کہا کہ یہ جگہ ہمارے اونٹوں کے بیٹھنے کےلئے ہے، آپ نے فرمایا کہ اونٹوں کو دوسری جگہ بیٹھا دو لیکن وہ نہ مانے۔آپ نے کہا کہ ہم اٹھتے ہیں لیکن تمہارے اونٹ بیٹھے رہیں گے۔ساربانوں نے آرام کے بعد اونٹوں کو اٹھانا چاہا تو وہ نہیں اٹھ رہے تھے، وہ دودن کوشش کرتے رہے کہ کسی طرح اونٹ کھڑے ہوجائیں لیکن ان کی کوئی ترکیب کامیاب نہ ہوئی تو ساربانوں کو سمجھ آگئی اور وہ سارے ان کے پاس معافی کے لئے پہنچ گئے تو آپؒ نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالی کے حکم سے تمہارے اونٹ اٹھ جائیں گے، ساربان وہاں واپس پہنچے تو یہ دیکھ کر ششدر رہ گئے کہ ان کے اونٹ کھڑے تھے۔کہتے ہیں کہ حضرت خواجہ غریب نواز معین الدین چشتی اجمیری نے 90 لاکھ ہندﺅوں کو مسلمان کیا جو پہلے کئی خداﺅں کی پوجا کرتے تھے اور اب وہ ایک خدا کی عبادت کرنے لگے۔آپ کے مزار پر صرف مسلمان نہیں بلکہ ہندو، سکھ ، عیسائی، پارسی اور بدھ مت سمیت سب لوگ حاضری کےلئے آتے ہیں۔ترجمان وزارت مذہبی امور کے مطابق امسال اجمیر شریف کےلئے صرف 249پاکستانی زائرین کو ویزے جاری کیے گئے ہیں حالانکہ488 افراد کے پاسپورٹ بھیجوائے گئے تھے۔خاکسار بھی حضرت نواز معین الدین چشتیؒ ، حضرت نظام الدین اولیاءؒ،حضرت امیر خسروؒ ، حضرت شاہ ولی اللہؒ،حضرت شاہ عبدالرحیم ؒ ،حضرت شاہ عبدالعزیز ؒ، حضرت خواجہ حمید الدین ناگوری ؒ ، حضرت خواجہ بختیار کاکی ؒ ، حضرت مخدوم نصیر الدین محمود روشن چراغ دہلویؒ، حضرت خواجہ باقی باللہ ؒ اور حضرت سلطان التمشؒ کے مزارات پر انتہائی عقیدت و احترام سے حاضری کےلئے بے تاب ہے، اس سلسلے میںحکومت پاکستان اور حکومت بھارت کی مدد کی اشد ضرورت ہے، علاوہ ازیں انفرادی طور پر کوئی شخص اس سلسلے میں معاونت کرسکتاہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے