کسی سماج میں اختلاف رائے کا پایا جانا قدرتی امر ہے ، کچھ لوگوں کا تویہاں تک ماننا یہ ہے کہ سیاسی ،سماجی ، ادبی، فکری حتی کہ مذہبی اختلافات معاشرے کے متنوع ہونے کا ثبوت دیتے ہیں، انسانی معاشرے کی مثال اس باغ کی سی ہے جس میں ہر رنگ ، شکل اور خوشبو کے پھول ہیں یعنی ہر گل کی انفرادیت اس کی گواہی دے رہی ہے ، ہم جانتے ہیں کہ ایک جیسے پھولوں کے برعکس کسی باغ میں انواع واقسام کے پھولوں کی موجودگی زیادہ باعث مسرت ہوا کرتی ہے، عصر حاضر کے ہر ترقی یافتہ معاشرے میں یہی خوبی ہے کہ اس کے ہاں اختلافات کو نہ صرف برداشت کیا جاتا ہے بلکہ تہذیب کے دائرے میں رہ کر اس کی موجودگی کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے ، مثلا مغرب میں جہاں عیسائیت کی شکل میں خدا کو ماننے والے ہیں تو وہی ان کے ہاں ایسوں کی بھی کمی نہیں جو خالق کی موجودگی کے سرے ہی انکاری ہیں، سماجی ماہرین متفق ہیں کہ ایک ہی عقائد، زبان ، کلچر یا تاریخ رکھنے والوں کے برعکس مختلف زبانوں اور ثقافتوں کے حامل معاشروں میں روداری اور برداشت کا جذبہ زیادہ ہوا کرتا ہے ، وطن عزیز میں جس چیز کی اشد ضرورت ہے وہ یہ کہ باہمی اختلافات کی صورت میں مکالمہ کو فروغ دیا جائے ،آسان الفاظ میں یوں کہ مختلف مذاہب کے ماننے والے ایک دوسرے کے عقائد کا احترام اس انداز میں کریں کہ نہ ان کے اپنے عقیدے پر حرف آئے اور نہ کسی دوسرا کا عقیدہ متاثر ہو،بلاشبہ مملکت خداداد پاکستان میں اس وقت مکالمہ کی اشد ضرورت ہے ، مکالمہ سے جہاں پیچیدہ اور حل طلب مسائل کو سمجھا جاسکتا ہے وہی دوسرے فریق کی ضروریات اور ترجیحات کا درست اندازہ لگانا بھی ممکن ہوسکتا ہے، یہ بات زہن نشین رہنی چاہےکہ مکالہ کسی ایک فریق کی شکست اور دوسرے کی جیت کی صورت نہیں ہوا کرتا ، اب پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں بے چینی واضطراب کی ایک وجہ بے تحاشا معلومات کا باآسانی دستیاب ہونا بھی ہے ، مثلا ٹیکنالوجی کے اس دور میں ہر کوئی صرف وہی بات پڑھ اور سن رہا ہے جو اس کے موقف کو تقویت بخشے ، اس کا نتیجہ یہ کہ ہمارے ہاں بتدریج دوریاں پیدا ہو رہی ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ عام آدمی کو مکالمہ کی اہمیت سے کیونکر روشناس کروایا جائے ، ایک تجویز یہ دی جاتی ہے کہ نصاب کی سطح پرطلبہ وطالبات کو اختلافی امور بارے انتہاپسندانہ رویہ سے تائب کرنے کی ضرورت ہے ، یعنی بچوں کو سکول کی سطح پر باور کروایا جائے کہ مذہبی ، سیاسی اور سماجی اختلافات کے ہوتے ہوئے بھی باہمی تعلقات خوشگوار رہ سکتے ہیں ، اب کوئی پوچھ سکتا ہے کہ معاشرے میں ردواری اور برداشت کے فروغ دے کر کیا مقاصد حاصل ہوں گے ، درحقیقت جدید تاریخ نے ثابت کیا کہ قوموں کی ترقی میں اعتدال پسندی کو کلیدی اہمیت حاصل ہے ، آپ غیر مسلم ممالک کو اگر ایک طرف رکھ کر ان مسلمان ملکوں کی جانب نظر دوڈائیں جنہوں نے عصر حاضر میں خود کو تیزی کساتھ منوایا تو لامحالہ طور پر یہ نتیجہ اخذ کریں گے کہ انھوں نے خود میں روشن خیال اور اعتدال پسندی جیسی صفات پیدا کیں ، ہمارا معاملہ یہ ہے کہ روشن خیالی کو دین کی بنیادی تعلیمات سے دوری سمجھتے ہیں لیکن درحقیقت ایسا نہیں، اسلام کہتا ہے کہ "دین میں جبر نہیں ” عام فہم میں اس سے مراد یہ لے جاسکتی ہے کہ دین انسانوں کو اپنے فہم وفراست کے مطابق اللہ کا پیغام سمجھنے یا اس پر عمل کرنے پر آمادہ کرنے کی بات کرتا ہے ، دوسری جانب دین کہتا ہے کہ "اور کسی قوم کی دشمنی تمیں اس بات پر آمادہ نہ کردے کہ تم انصاف نہ کرو، انصاف کرو یہ تقوی کے بہت قریب ہے "اسی بات کو خالق کائنات نے ایک اور آیت میں یوں فرمایا کہ”انصاف پر قائم ہونے والے ، اللہ کے لیے گواہی دینے والے ہو، گو(یہ گواہی تماری اپنی ذات یا ماں باپ اور قریبوں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو،)نہیں بھولنا چاہے کہ تعمیر ترقی کا ہر راستہ انصاف وقانون کی سربلندی سے گزرتا ہے ،قانون پر عمل داری ہی حصول انصاف کے لیے زاد راہ کا کام کرتی ہے ، یہاں یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہونی چاہے کہ عصر حاضر میں وہی معاشرے روشن خیال اور اعتدال پسند تسلیم کیے جاتے ہیں جہاں فوری اور بلاامتیاز انصاف کی فراہمی ممکن ہو ، مذکورہ قرآنی آیت کا ایک مفہموم یہ ہے کہ ممکن نہیں کہ کوئی معاشرہ خود کو اسلامی بھی کہلائے مگر عملا اس میں حصول انصاف جوئے شیر لانے کے مترداف ہو، مساوات قائم کرنے کے سنہری اصول کو قرآن یوں بھی بیان کرتا ہے کہ "اے لوگوں تمارا رب ایک ہی ہے پس کسی عربی کو عجمی اور کسی عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں، دین اختلافی امور کو بزور قوت ختم کرنے کی بجائے انھیں دل وجان سے تسلیم کرنے کا درس دیتا ہے ، ستم ظریفی ہے کہ ہم آج مغرب معاشروں میں اظہار خیال کی آزادی کی تعریف کرتے ہیں مگر سیرت النبی کو بھول جاتے ہیں جس میں میں معاشرتی سطح پر مسلم اور غیر مسلم میں کوئی فرق روا نہیں رکھا جاتا تھا ، وقت آگیا ہے کہ اہل پاکستان ترکی ، انڈونشیا اور ملایشیا سے سیکھیں جہاں اسلام بطور جدید مذہب کے اپنی موجودگی کا احساس دلا رہا ہے۔
٭٭٭٭٭
کالم
اختلافات معاشرے کا حسن ہیں
- by web desk
- اگست 26, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 1087 Views
- 2 سال ago