فروری کے عام انتخابات جنہیں عام کی بجائے جنرل الیکشن لکھاجائے تو مناسب ہوگا ۔ بڑی کوشش اور جدوجہد کے بعد آئے اور اپنے پیچھے دھاندلی دھاندلے اور نجانے کون کون سے الزامات کا گہرا دھواں چھوڑتے ہوئے چلے گئے جنرل الیکشن کے نتیجہ میں منتخب ارکان اسمبلی نے حلف اٹھائے اور اسمبلیاں پھرسے عوام کی خدمت اور جمہوریت کی مضبوطی کیلئے سرگرم عمل ہیں اور اب اکیس اپریل کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی اکیس نشستوں پر چھٹی کے دن ہونے والے انتخابات بھی جنرل الیکشن کی طرح شفافیت غیرجانبداری اور بڑے آزادانہ ماحول اور انتظامات میں مکمل ہونے کے بعد اپنے پیچھے کئی داستانیں چھوڑ کر جاچکے ہیں ,ہار اور جیت انتخابات کا نتیجہ ہوتاہے ماضی میں جتنے بھی جنرل الیکشن ہوئے ہیں ہرالیکشن کوکسی نہ کسی طور پرمتنازعہ ہی کہا گیا ہے پتہ نہیں کیا بات ہے کہ ہم شکست تسلیم کرنے سے عاری ہو چکے ہیں یا پھر شکست خوردہ کو یوں احساس ہوتا ہے کہ ہم ہارے نہیں بلکہ نامعلوم طریقوں سے ہروائے گئے ہیں وجہ کچھ بھی ہو لیکن بعض جگہوں پر ایسے الزامات کسی حد تک بلکہ بڑی حد تک درست بھی لگتے ہیں لیکن کیا کریں کہ 76 سال کی عمر پا کر بھی ہمیں آج تک جمہوریت کو سمجھنے پرکھنے آزمانے اعتبار کرنے اور پھر اس پر عمل کرنے کی عادت ہی نہیں ہوئی بس ہم من حیث القوم جمہوریت کے دلدادہ ضرور ہیں لیکن ہمیں راس ہمیشہ آمریت ہی آتی ہے آپ گزشتہ نصف صدی کی حکومتوں اور حکمرانوں کے بیانات نکال کر پڑھ لیں ہر آنے والا حکمران سب سے پہلے یہی بیان دیتا ہے کہ ماضی کے حکمرانوں نے خزانہ خالی کر دیا ہے ہم خزانہ بھی بھریں گے اور عوام کو سہولیات بھی فراہم کریں گے لیکن آج تک خزانہ نہیں بھرا گیا البتہ ہم پر حکمرانی کرنے والے بہت سے راجوں مہاراجوں کے خزانے بھرنے کے بعد دوسرے ممالک تک پھیل چکے ہیں اور عوام ہر مرتبہ پہلے سے زیادہ مہنگائی بیکاری بے روزگاری کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھائے بد سے بدترین کی طرف جا رہی ہے اور یہ سلسلہ ابھی تھما نہیں بلکہ پہلے سے زیادہ تیز رفتاری سے بڑھتا ہی جا رہا ہے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے قصور کس کا ہے تو سچ پوچھیں تو قصور عام آدمی کا ہے جو انتخابات کے دوران چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کے لیے خود کو بیچ دیتا ہے اور یہ سوچتا ہی نہیں کہ اس وقتی فائدے سے اپنی آنے والی نسلوں کے لیے عذاب بن رہا ہے لیکن موجودہ حالات میں عام آدمی کو شاید سائنس اور ٹیکنالوجی اور جدید معلوماتی ذرائع اور تبدیل ہوتے حالات اور نئے آنے والے سیاستدانوں نے کافی عقل اور شعور دے دیا ہے اور انہیں اچھے اور برے کی بڑی حد تک تمیز بھی آگئی ہے لیکن کیا کریں کہ عرصہ دراز سے مہم جوئی کے عادی بعض نامعلوم طاقتیں ابھی بھی عوام کو 60 اور 70 کی دہائی میں رہنے اور اپنے تجربات کے نتائج دیکھنے پر بضد ہیں عوام کے بعد اگر ہمارے قومی ادارے اور ان میں بیٹھے افسران اور طاقتیں بھی اگر کچھ اطمینان کر لیں تو حالات درست بھی ہو سکتے ہیں خزانہ بھر بھی سکتا ہے ترقی و خوشحالی کی سڑک کھل بھی سکتی ہے اور ریاستی ثمرات عام آدمی تک پہنچ بھی سکتے ہیں لیکن اس کے لیے اداروں کو مضبوط اور قانون کی حکمرانی کو مکمل طور پر یقینی بنایا جانا اور اس پر بلا تفریق اور فی الفور عمل کرایا جانا بہت ضروری ہے، بات جنرل الیکشن سے شروع ہو کر دوسری طرف نکل رہی ہے الیکشن کسی طرح شفا ف غیر جانبدار منصفانہ اور ازادانہ ہو سکتے ہیں کے لیے ہمیں ہمسایہ ملک بھارت کے الیکشن کمیشن کے اختیارات اور عمل درامد کو دیکھنا ہوگا مثال کے طور پر کچھ عرصہ پہلے بھارت میں سول انتظامیہ نے عام انتخابات کے لیے پولنگ اسٹیشن کی پولنگ سکیم بنا کر الیکشن کمیشن انڈیا کو ارسال کی کمیشن نے اس میں سے غلطیاں نکالنے کے علاوہ ایک ایسے دور دراز کے علاقہ میں جہاں ڈیم بن رہا تھا اور آبادی محض چند افراد پر مشتمل تھی میں پولنگ بوتھ بنانے کا حکم جاری کر دیا انتظامیہ نے جواب دیا کہ وہاں محض دو یا چار لوگ ہیں جن کےلئے اتنا خرچہ مناسب نہیں لیکن الیکشن کمیشن نے سختی سے حکم جاری کیا کہ وہاں پولنگ بوتھ بنے گا چاہے دو آدمی ہی وہاں رہائش پذیر ہوں، حکم پر عمل ہوا اور ڈیم کے دو چوکیدار جن میں سے ایک تو چھٹی پر گیا ہوا تھا دوسرے نے اپنا ووٹ کاسٹ کیا ،مزے کی بات یہ ہے کہ انتخابی عملہ کو علم تھا کہ دوسرا شخص نہیں آئے گا لیکن الیکشن کمیشن کی طاقت اور اختیارات سے ڈرتے ہوئے انتخابی عملہ پانچ بجے تک انتظار میں رہا ۔یہ ہے قانون کی حکمرانی اور الیکشن کمیشن کی طاقت، بھارتی الیکشن کمیشن کی طاقت اور اختیار پر چند سطور تو کیا پوری ایک کتاب لکھنا بھی نا کافی ہے اور ہم کس جگہ کھڑے ہیں کس طرح کی حکومتیں بناتے اور گراتے ہیں اور کس طرح الیکشن کمیشن کام کرتا ہے اس پر کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں طویل عرصہ کے بعد ہماری عالمی تنہائی کچھ کم ہو رہی ہے سعودیہ کے اعلی سطحی وفد کے بعد ایرانی صدر کی تشریف آوری اور چین کاپانچ روزہ دورہ کا پروگرام اچھی خبریں ہیں ،خاص طور پر ایران کے ساتھ تجارتی حجم دس ارب ڈالر سے بڑھانا اور گیس پائپ لائن پر پیش رفت جیسی باتیں حبس زدہ ماحول میں تازہ ہوا کا جھونکا ہے لیکن پتہ نہیں جونہی پاکستان ترقی کرنے لگتا ہے تو ملک دشمن طاقتیں امن وایمان کو تباہ کرنے کے لئے دہشت گردی کا جن بوتل سے نکال دیتی ہیں لیکن سلام ہے ہماری مسلح افواج کے جری بہادر افسروں اور جوانوں کو کہ جو اپنی جانوں کے نذ رانے دے کر ملک و قوم کی سلامتی اور بقاکے لئے شب و روز مصروف عمل رہتے ہیں۔