کالم

ارباب اختےار توجہ دےں

پرانے وقتوں مےں اےک بنےا گہری نےند سو رہا تھا ۔نےند کی حالت مےں اس کے جسم سے اےک سانپ ڈنگ مارے بغےر گزر گےا ۔وہ ہڑ بڑا کر اٹھ بےٹھا اور شور مچا دےا ۔شور سن کر بنئے کے ہمسائے اس کے گرد جمع ہو گئے ۔جمع ہونے والوں نے بنئے کو سمجھاےا کہ سانپ خرےت سے گزر گےا ہے اور بھگوان نے کرپا کر دی ہے کہ سانپ نے تمہےں ڈسا نہےں ۔اگر سانپ ڈستا تو سانپ کا زہر تمہارے جسم مےں پھےل جاتا ۔اس صورت مےں تمہارے مرنے کا خطرہ تھا ۔اب شور مچانے کا کےا فائدہ ۔لالہ جی بولے کہ مجھے تو ےہ پرےشانی ہے کہ سانپ مےرے جسم کے اوپر سے گزرا ہے ۔اب اس نے راستہ دےکھ لےا ہے ۔بار بار مےرے جسم کے اوپر سے گزرے گا ، اس طرح مےرے مرنے کا خطرہ تو ہے ۔راقم کے گاﺅں کے وہ لوگ جو ابھی تک اس جرائم پےشہ گروہ کی دست برد سے کسی حد تک محفوظ ہےں وہ بنئے والی کےفےت سے گزر رہے ہےں ۔امن وامان کی صورتحال پر قابو رکھنا اور شہرےوں کو راہزنوں ،ڈکےتوں ،منشےات فروشوں اور چوروں کی چےرہ دستےوں سے بچانا مجموعی طور پر رےاست کے بنےادی فرائض مےں ہے ۔21وےں صدی کی رےاستوں مےں عام طور پر ےہ فرض عملہ پولےس پر عائد ہوتا ہے ۔کہتے ہےں علاقے کا اےس اےچ او اگر ٹھےک ہو گا تو پورا علاقہ جرائم سے پاک ہو گا ۔ےہ مقولہ کےوں بار بار دہراےا جاتا ہے ےقےناً اس کا بھی کوئی پس منظر ہو گا ۔اخبارات اور الےکٹرانک مےڈےا پر عوام کے ساتھ پولےس کے عدم تعاون کی کہانےاں سننے کو ملتی رہتی ہےں ۔ عوام پولےس کے روےے سے بہت شاکی دکھائی دےتی ہے کےونکہ ےہ پہلو مےری observationمےں آےا ہے کہ بد سے بدنام برا والی بات ہوئی ہے ۔چونکہ ہر بندہ طاقتورکو مغلوب ےا مصلوب دےکھنا چاہتا ہے ،اےسے مےں اس کی برائی سننا اچھا ہی نہےں بلکہ بھلا بھی لگتا ہے ۔جےسا کہ مےں نے پہلے عرض کےا کہ ”عوام پولےس کے روےے سے شاکی دکھائی دےتی ہے “اور وجہ ےہی ہے کہ پولےس لوگوں کےساتھ گزرنے والی وارداتوں اور مظالم پر ان کی داد رسی نہےں کرتی ۔مدعےان ےہ گلہ کرتے دکھائی دےتے ہےں کہ ”پولےس پےسے لےکر ملزمان کو رعاےت دے رہی ہے ،پولےس نے پےسے لےکر مدعےوں پر دباﺅ ڈالنا شروع کر دےا ہے کہ اپنا کےس واپس لے لو ورنہ نقصان اٹھاﺅ گے ۔ الغرض پولےس کے متعلق جتنی بھی باتےں کر لو وہ سچی لگتی ہےں ۔ ہمارے ہاں ےہ قباحت ہے کہ آپ اےک دن کسی سرکاری افسر سے ملاقات کرتے ہےں اور دوسرے دن ےہ خبر ملتی ہے کہ ان کا تبادلہ فلاں جگہ ہو گےا ہے ۔گوےا کہ سرکاری تبادلوں کے حوالے سے ےہ کہا جا سکتا ہے کہ
کبھی عرش پر ،کبھی فرش پر ،کبھی تےرے در کبھی دربدر
غم عاشقی تےر ا شکرےہ تو کہاں سے کہاں گزر گےا
بہرحال اب پولیس کا امتحان ہے کہ وہ علاقہ مےں جرائم پر قابو پانے مےں کس حد تک کامےاب رہتی ہے ۔جرائم بڑھتے جا رہے ہےں لےکن ان کا تدارک مشکل ہوتا جا رہا ہے ۔ راقم کے علاقہ مےں مجرموں کے قلع قمع کےلئے اےک ٹارگٹڈ آپرےشن درکار ہے ۔جرائم پےشہ عناصر اگر کبھی پکڑے بھی جاتے ہےں تو وہ ضمانت لےنے کے بعد دوبارہ وارداتےںکرنا شروع کر دےتے ہےں مجرموں کو کےفر کردار تک پہنچانے کےلئے انوےسٹی گےشن اور پراسےکےوشن مےں موجود خامےاں دور کرنے کی ضرورت ہے ۔ جدےد مہذب معاشروں اور مملکتوں مےں شہرےوں کے جان، مال اور آبرو کا تحفظ ارباب حکومت اپنی اولےن ذمہ داری گردانتے ہےں ۔ اس باب مےں وہ معمولی سے تغافل اور تساہل کے بھی روادار نہےں ہوتے ۔شہرےوں کے جان ، مال اور آبرو کے تحفظ کا مطلب انہےں ہمہ جہتی تحفظ فراہم کرنا ہے ۔ان معاشروں اور مملکتوں مےں شہری اپنے آپ کو ہر مقام پر محفوظ تصور کرتا ہے ۔عدم تحفظ کا احساس ان رےاستوں مےں شہرےوں کے قرےب تک نہےں پھٹکتا ۔گھروں مےں بےٹھے شہری بھی اتنے ہی محفوظ ہوتے ہےں جتنا کہ شاہراہوں پر سفر کرتے ہوئے شہری ۔ البتہ ہمارے ہاں معاملہ اس کے بر عکس ہے ۔ وفاقی و صوبائی حکومتوں کے گڈ گورننس کے قےام کے تمام تر دعوﺅں کے باوجود امن و امان کی صورتحال انتہائی مخدوش ہے ۔ڈاکوﺅں اور راہزنوں نے صوبائی دارالحکومتوں اور بڑے شہروں مےں لوٹ مار کی وارداتوں کے دوران شہرےوں کو لاکھوں کی نقدی اور قےمتی اشےاءسے محروم کر دےا ہے ۔ کچھ عرصہ قبل ضلع قصور مےں اےک نوبےاہتا جوڑا جس کی شادی کو ابھی دو دن ہی ہوئے تھے ،کسی عزےز کے ہاں دعوت کھانے کے بعد گھر واپس جا رہا تھا کہ مصروف چوک مےں اےک گاڑی نے اس جوڑے کو روکا ،گاڑی سے کچھ لوگ اترے اور نئی نوےلی دلہن کو اسلحے کے زور پر اٹھا کر لے گئے ۔اس قسم کی دےدہ دلےری اور بے خوفی اسی وقت نظر آتی ہے جب مجرموں کو ےقےن ہو کہ انہےں نہ تو کوئی پکڑ سکتا ہے اور نہ ہی کوئی روک سکتا ہے ۔جرائم پےشہ افراد مےں تبھی اےسی بے خوفی اےک رواج بن پاتی ہے جب پےسوں کے زور پر پوسٹنگز اور ٹرانسفرز ہونے لگےں ۔پاکستان کی پولےس کے ساتھ بڑا المےہ ےہی رہا ہے کہ اس کو کبھی بھی اپنے فرائض ادا کرنے نہےں دئےے گئے ۔ حکمرانوں اور سےاستدانوں نے انہےں ذاتی غلام سمجھ کر استعمال کےا اور آج تک ےہی ہو رہا ہے ۔ سےاستدانوں اور حکمرانوں کی بے جا مداخلت نے پولےس فورس کو اےک اےسی فورس مےں تبدےل کر دےا ہے جس کے ذمے صرف راج کی حفاظت کرنا ہے ۔اےسے حالات مےں پولےس عوام کی حفاظت بھی نہےں کر سکتی امن قائم رکھنا تو دور کی بات ہے ۔آج بھی پولےس افسران کی تقررےاں ،تبادلے سےاسی بنےادوں پر ہو رہے ہےں ،بااثر آدمی اپنی پسند کا افسر اپنے علاقے مےں متعےن کرواتا ہے تا کہ وہ جو چاہے کرے اور اگر کبھی پکڑا بھی جائے تو آسانی سے چھوٹ جائے اور دوسروں کو چھڑوا سکے دوسرے کوئی بھی شہری لٹ جاتا ہے لےکن تھانے مےں اےف آر کروانے سے گرےزاں ہوتا ہے اگر وہ تھانے جانے کا ارادہ بھی کرتا ہے تو جن لوگوں کو پہلے جانے کا تجربہ ہوتا ہے وہ اس شخص کو صبر شکر کرنے کا مشورہ دےتے ہےں ۔کوئی بھی شہری مجرم کے خلاف گواہی دےنے کےلئے تےار ہی نہےں ہوتا کےونکہ قانون اےسے لوگوں کو کوئی تحفظ فراہم نہےں کرتا ،عدالتوں کے اندر اور باہر فائرنگ کے واقعات بھی ہوتے رہتے ہےں ۔ جب کوئی سنگےن جرم سرزد ہوتا ہے ،مےڈےا و سوشل مےڈےا پرکسی جرم کو لےکر خوب شور مچاےا جاتا ہے تب پولےس چند اشتہارےوں کو پکڑ کر ’سرکاری مہمان ‘بنا لےتے ہےں ۔ان پر کےسز اےسے بنائے جاتے ہےں کہ اےک طرف فائلوں کا پےٹ بھر جائے اور دوسری طرف جب اسے نکالنا پڑے نکال لےا جائے ۔ڈی پی او ضلع سےالکوٹ کی دانائی ،فراست، اور انتظامی امور پر دسترس و تجربہ ےقےناً مثالی ہے ۔پولےس فورس مےں کوئی انقلابی تبدےلی وقوع پذےر ہونے ولی نہےں ۔مشہور فلاسفر بطلےموس نے کہا تھا کہ ” حکمت عملی قوت بازو سے زےادہ کام کرتی ہے “،سےاسی لوگوں کو ڈی پی او صاحب اےک آنکھ نہےں بھا رہے ۔ان سے اہل علاقہ کی گزارش ہے کہ ضلع اور تھانہ مراد پور کے علاقہ مےں جرائم کی بڑھتی ہوئی رفتار پر قابو پانے پر خصوصی توجہ دےں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے