کالم

ارتعاش ما بعد کی زد میں آیا ایوان بالا

ارتعاش ما بعد کی زد میں آیا ایوان بالا

تحریر: عرفان صدیقی۔
پانامہ سے اقامہ کشید کرنے ، نواز شریف کو اپنی خودسر بیٹی کے ہمراہ جیل میں ڈالنے اور 2018 میں آر۔ ٹی۔ ایس کی گردن
دبوچ کر پراجیکٹ عمران خان کو پایہ تکمیل تک پہنچانے والے تمام کرتب کار آج بھی کامرانی کے احساس سے سرشار اپنی پرتعیش آسائش
گاہوں میں آسودگی بخش زندگی کے مزے لے رہے ہیں لیکن پاکستان اتنے بڑے ریکٹر سکیل کے زلزلے کی تباہ کاریوں کی زد میں آیا کہ
ملبہ سمیٹنے میں نہیں آ رہا۔ ارتعاش مابعد (After Shocks) کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ لاکھ ہاتھ پاؤں مارنے کے باوجود معاملات،
معمولات میں نہیں ڈھل رہے۔ صوبائی نگران حکومتوں کا نوے دن کے بجائے کم و بیش ایک سال اور وفاقی نگرانوں کا لگ بھگ چھ ماہ تک
کارو بار ریاست کی نگہبانی کرنا، انہی ارتعاشات ما بعد کا کرشمہ تھا۔ آج بھی ہمارے قدموں تلے زمین تھر تھرا رہی ہے۔ معیشت، سیاست،
جمہوریت، کسی کی بے قراری کو قرار نہیں آرہا۔
انہی ارتعاشات مابعد کے مابین، بالآخر پارلیمنٹ کے ایوان بالا (سینٹ) کی سانسیں بھی بحال ہو گئیں جو 12 مارچ سے 9
اپریل تک مسلسل ستائیس دن ، وینٹی لیٹر پر پڑا رہا۔ آئین کے مطابق سینٹ ہمیشہ موجود و متحرک رہتی ہے۔ اُس کا ایک دن کے لئے بھی
غیر فعال ہونا، دستوری تقاضوں کے منافی ہے۔ سینٹ کے ارکان چھ سال کے لئے منتخب ہوتے ہیں۔ معمول یہ ہے کہ ہر تین سال بعد
نصف ارکان ( جن کا چھ سالہ عرصہ پورا ہو چکا ہوتا ہے ) ریٹائر ہو جاتے ہیں۔ ان کی جگہ اتنے ہی نئے ارکان منتخب ہو کر سینٹ کا حصہ بن
جاتے ہیں۔ پوری قومی اسمبلی کی معیاد ختم ہونے کے باوجود سینٹ جوئے آب رواں کی طرح بہتی رہتی ہے۔ مارشل لا جمہوری علامتوں
کے بارے میں کسی طرح کے امتیاز کو روا نہیں رکھتے۔ چونکہ وہ خود ہی آئین کا درجہ رکھتے ہیں اس لئے وہ تلوار کے ایک ہی وار سے قومی
اسمبلی کا سر قلم کر دیتے اور سینٹ کی گردن اڑا دیتے ہیں۔ ضیاء الحق اور پرویز مشرف دونوں کے عہد ہائے زریں میں سینٹ برسوں نابود
رہی ۔ 1999 میں ختم کر دی جانے والی سینٹ ، 2002 کے مارشل لائی انتخابات کے بعد 2003 میں ایک فرمان کے ذریعے زندہ کردی
گئی ۔ 12 مارچ 2003 سے اس نے اپنے نئے سفر کا آغاز کیا اور اکیس برس کسی خلل کے بغیر چلتی 11 مارچ 2024 تک آ پہنچی ہو پایا۔ پراجیکٹ خان کے زلزلے کے ارتعاشات ما بعد تھم گئے ہوتے تو 12 مارچ 2024 کو نصف نو منتخب ارکان حلف اٹھا لیتے لیکن ایسا نہ پایا۔ یہ اعزاز پہلی بار کسی جمہوری عہد کے حصے میں آیا کہ سینٹ مفلوج ہوگئی ۔ طرفہ تماشا یہ ہوا کہ تاریخ میں پہلی با پہلی بار سینٹ چئیر مین نے ، اپنے منصب پر قائم رہتے ہوئے ، صوبائی اسمبلی کا انتخاب لڑا اور جیت گئے ۔ 15 فروری کو اُن کی کامیابی کا نوٹیفیکیشن بھی جاری ہو گیا۔ آئینی حوالے سے چیر مین کا عہدہ خالی ہو گیا۔ سنجرانی صاحب نے اُس کے بعد اجلاس کی صدارت تو نہ کی لیکن باقاعدگی سے اپنے چیمبر میں بیٹھتے اور انتظامی اختیارات استعمال کرتے رہے۔ ڈپٹی چئیر مین مرزا محمد آفریدی اجلاس کی صدارت کرتے رہے۔
اسی دوران میں ایک سرگوشی کسی در بیچے سے ایوان میں داخل ہوئی اور ہوا کے شریر جھونکے کی طرح ادھر اُدھر اٹکھیلیاں کرنے لگی ۔ ستہ چلا کہ چیر مین صادق سنجرانی نئے چیر مین کی آمد تک کاروبار چمن کی نگہبانی جاری رکھنا جانتے ہیں۔ محرک کچھ بھی ہو، ان کی یہ خواہش
کچھ ایسی ناروا بھی نہ تھی۔ ماضی میں 11 مارچ کی شب چئیر مین ، ڈپٹی چئیر مین رخصت ہوتے اور 12 مارچ کو نئے منصب دار حلف اٹھا لیتے تھے۔ ایوان کا ماحول سنجرانی صاحب کی اس خواہش کا ساتھ دینے اور اس مفہوم کی کسی قرارداد یا قواعد وضوابد کی منظوری پر آمادہ نہ تھا۔ سوصف بندیاں ہونے لگیں ۔ قومی اسمبلی کا سپیکر اسمبلی تحلیل ہو جانے کے بعد بھی) نے سپیکر کی آمد تک منصب پر قائم رہتا ہے۔ صدر مملکت کا معاملہ بھی یہی ہے۔ سینٹ چئیر مین کے بارے میں اس طرح کے ضابطے کی ضرورت اس لئے محسوس نہیں کی گئی کہ اس کی نہ تو کبھی نوبت آئی نہ آئین سازوں کی دور بین نگاہوں نے کسی پرا جیکٹ کے نتیجے میں آنے والے ارتعاش ما بعد کا تصور کیا تھا کہ ایسا وقت بھی آسکتا ہے جب سینٹ تو رہے لیکن نہ چئیر مین ہو نہ ڈپٹی چئیر مین _ یا یہ کہ خود سینٹ بھی دولخت ہو کر غیر فعال ہو جائے؟
سر گوشی ہولے ہولے برقی رو سی بن گئی۔ مسلم لیگ (ن) تسلسل کے اصول کی بنا پر اس تجویز کے بارے میں بے لچک نہ تھی۔ لیکن پیپلز پارٹی کسی طور آمادہ نہ ہوئی ۔ یہ پنچہ اُس دن بن کھلے مرجھا گیا جس دن پارلیمانی پارٹی لیڈرز کی میٹنگ کے دوران چئیر مین سنجرانی اور پی۔ پی۔ پی۔ کے سینٹر سلیم مانڈوی والا کے درمیان تند و تیز جملوں کا تبادلہ ہوا جسے جھڑپ بھی کہا جا سکتا ہے۔
بالآخر سنجرانی صاحب نے اپنی معیاد ختم ہو جانے سے تین دن پہلے 8 مارچ 2024 کو بلوچستان اسمبلی کے رکن کے طور پر حلف اٹھا لیا۔ چھ سالوں پر محیط یط طلسم ہوش ربا سے کئی گنا زیادہ پر اسرار و پر تحیر باب بند ہو گیا۔ 9 اپریل کو نو منتخب سینیٹرز نے حلف اٹھا لیا۔ اٹھالیا۔ رہا ۔ اٹھا لیا۔ چھ سالوں پر محیط مطلسم ہوش ربا سے کئی گنا زیادہ پر اسرار و پر تحیر باب بند ہو گیا۔ 9 اپریل کو منتخب سینیٹرز نے حلف اٹھا لیا۔ چئیر مین اور ڈپٹی چئیر مین کا انتخاب عمل میں آگیا۔ مفلوج و معطل ایوانِ بالا پھر سے جادہ پیما ہو گیا اگر چہ خیبر پختون خوا کی نمائندگی کا قضیہ
ہنوز جاری ہے۔
12 مارچ سے 9 اپریل تک کے ستائیس دن سینٹ کی تقویم سے خارج ہو گئے ۔ ان گئے دنوں کا سراغ لگانے کی نہ کسی کو فرصت ہے نہ ضرورت ۔ ارتعاشات مابعد کے اثرات بہت دیر تک جاری رہیں گے ۔ 16 برس بعد سینٹ کا کلینڈر 12 مارچ سے نہیں ، 9 اپریل سے شروع ہوا کرے گا ۔ کیا سینٹ کا مزاج بھی بدلے گا ؟ کیا قانون سازی کے عمل کو سنجیدگی سے لیا جائے گا ؟ کیا جمہوری اقدار کے احترام اور اختلافی آوازوں کو برداشت کرنے کی روایت بحال ہوگی؟ کیا قائمہ کمیٹیاں موثر طور پر کردار ادا کر پائیں گی؟ کیا پھیپھڑوں کو پھاڑ دینے
والی کوہ شگاف آوازوں کے بجائے ، دھیمے، متین اور سنجیدہ لہجے میں کلام کرنے کی روایت جڑ پکڑ سکے گی؟
صادق سنجرانی ، جس بھی اجرام فلکی کا سیارہ اور نوبت خانے کا نقارہ تھے، بلا کے منصوبہ ساز اور غضب کے ہنر کا ر بھی تھے۔ ایوان پر جو گزری سو گذری انہوں نے نہ کبھی اس کی باگیں ڈھیلی چھوڑیں ، نہ ایوان کو خود پہ حاوی ہونے دیا۔ اُن کی خوئے دلداری اور مخصوص منطقوں سے تعلق داری ان کی قوت بنی رہی۔ اقلیت اور اکثریت سے قطع نظر ، وہ ہر معرکے میں فاتح رہے، چاہے وہ انتخاب کا تھا یا عدم اعتماد کا۔ سید زادہ ملتان، سید یوسف رضا گیلانی سر تا پا ایک سیاسی شخصیت ہیں ۔ ساری عمر اسی دشت کی سیاحی میں گذاری اور بہت سی
اجلی روایات کے امین ہیں۔ شاید ان کا چیمبر، آستانہ عالیہ کا تقدس حاصل کرلے لیکن سنجرانی جیسی کھلی ڈتی ، قہقہہ بار چو پال نہیں بن سکے گا۔ حکومت ہی نہیں، اپوزیشن کو بھی اُن سے پیرا نہ دست شفقت کی ڈھیروں توقعات ہیں۔ اللہ تعالی انہیں سرخرو فرمائے۔ سنجرانی صاحب ہر لحظہ نیا طوری برق تجلی پر یقین رکھتے ہیں ۔ اللہ کرے اُن کے مرحلہ ہائے شوق جاری رہیں۔ کبھی کبھی تو مجھے
یوں لگتا ہے کہ صبح دم سینٹ اجلاس شروع ہوگا ۔ حاجب اعلان کرے خواتین و حضرات ! جناب چیئر مین سامنے کا دروازہ کھلے گا۔ صادق سنجرانی مسکراتے ہوئے نمودار ہوں گے اور چیر مین کی کرسی پر تشریف فرما ہوتے ہوئے کہیں گے _ السلام علیکم معزز خواتین و حضرات ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے