ملک کے ممتاز سینئر صحافی ارشاد احمد عارف چند دنوں کےلئے لندن آئے تو اپنی فیملی کی مصروفیات سے وقت نکال کر میری درخواست پر مضافاتی ٹاون لوٹن بھی تشریف لائے میں نے اپنے شہر کے صرف چند کمیونٹی رہنماوں سمیت چند نوجوان صحافیوں کو بھی مدعو کرلیا یاد رہے کہ بریڈفورڈ، مانچسٹر اور برمنگھم کے بعد لوٹن چوتھا بڑا شہر ہے جہاں بڑے پیمانے پر پاکستانی اور کشمیری کمیونٹی آباد ہے میرا ارادہ جناب ارشاد احمد عارف سے ملاقات میں اپنی رہنمائی اور اصلاح کرنا ہی مقصود تھا چونکہ ہمارے شعبہ صحافت میں اب بس چند نام ہی باقی رہ گئے ہیں جو کمرشل ازم اور افراتفری کے اس دور میں اپنی بات جرات،شائشگی اور سلیقے سے ملک و قوم کے لئے کرتے ہیں میں یہ بھی چاہتا تھا کہ میری طرح دوسرے بھی انکی گفتگو کو ضرور سنیں اور ان کی زندگی کے تجربات، مشاہدات، خیالات اور نظریات سے کچھ سیکھ سکیں چونکہ جس طرح ملک کے اندر مایوسیوں کے اندھیرے ہیں ویسے ہی بیرون ملک بھی پاکستانی اپنے ملک کے دگرگوں حالات کی وجہ سے مایوس ہوچکے ہیں اس لئے ارشاد عارف کی آمد باقاعدہ ایک ایونٹ یا فنکشن میں بدل گئی حالانکہ یہ ایونٹ ان جیسی بڑی تاریخی ، علمی اور صحافتی شخصیت کے شایانِ شان بالکل بھی نہیں تھا پھر بھی انکا یہ عمل قابلِ تحسین ہے کہ انہوں نے نہ صرف اس ایونٹ کو ایک باقاعدہ سیمنار سمجھ کر پاکستان کے ماضی اور حال کے مجموعی حالات، پوشیدہ رازوں اور تاریخ کے اوراق پر پڑی گرد و غبار کو اپنی گفتگو کے زریعے جھاڑ دیا بلکہ وہاں موجود صحافیوں سمیت تاجروں،کمیونٹی رہنماوں،علمائے اکرام اور کشمیری جماعتوں کے نمائندوں کے تقریبا ہر سوال کا بھی تسلی بخش جواب بھی دیا یاد ریے کہ اس فنکش میں آکسفورڈ یونیورسٹی سے پی آیج ڈی اور سابق برطانوی پارلیمنٹری امیدوار ڈاکٹر یاسین الرحمن فرسٹ سٹیژن مئیر آف لوٹن یعقوب حنیف، پاکستان میں چھوٹے کاروبار کے لئے سود کے بغیر قرض حسنہ دینے والے سماجی کارکن چوہدری عبدالعزیز، مولانا اقبال اعوان، پروفیسر مسعود اختر صحافیوں میں سید مقصود بخاری پاکستان پریس کلب یوکے کی قامی برانچ کے صدر اسرار خان اسرار راجہ لائق علی خان احتشام الحق قریشی سمیت درجنوں دوسرے افراد بھی شامل تھے میں نے جان بوجھ کر صرف ابتدا میں دو زعما کو ہی خطاب کرنے کی دعوت دی چونکہ پاکستان کے موجودہ حالات سے یہاں پاکستانی اتنے غصے میں ہیں کہ تحمل اور برداشت سنجیدہ لوگوں کی بھی ختم ہوچکی ہے خاص کر کے جو پی ڈی ایم حکومت میں جو تباہی مچی اور عمران خان کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے یا جس طرح پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہورہی ہیں ۔ خود میں نے بس اتنا کہہ کر سٹیچ جناب ارشاد عارف کے حوالے کردیا کہ پاکستان میں مشکلات ہیں اور ارشاد عارف صاحب کو اس کا ادارک بھی ہے سقوطِ ڈھاکہ کے بعد ہم معیشت اور سیکورٹی پر بالکل قابو نہیں پاسکے پھر بھی ہم پاکستان کے جھنڈے کے ساتھ ہیں گھر اپنا ہے اور ذمہ داریاں بھی ہماری ہیں برطانیہ میں رہتے ہوئے جس جمہوریت کی وجہ سے ہم یہاں معمول کے مطابق زندگیاں گزار رہے ہیں اسی طرز پر پاکستان میں بھی آئین جمہوریت اور انسانی حقوق کی پاسداری کےلئے ہم سب کو تگ ودو کرنی ہوگی ۔ارشاد احمد عارف کے چیدہ چیدہ نکات جن پر انہوں نے خطاب کیا اور پھر سوالوں کے جواب بھی دیئے اس کا احاطہ میں قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں” پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد پہلے یہ بحث چلتی رہی کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہونی چاہئے جسے خلاف راشدہ کے نظام مصطفی کے رہنما اصولوں کے تحت چلایا جائے یا پھر یہ ایک ایک مسلمان ملک ہونا چاہئے یہ تضادات ابہام اور کنفیوژن پھیلائی جاتی رہی کہ پھر طاقتور طبقہ پاکستان کے مسند اقتدار پر قابض ہو گیا جس نے طاقت کے بل بوتے پر اس ملک کے وسائل پر اپنا قبضہ جمالیا اس طبقے کے نزدیک نہ مسلم ریاست اور نہ ہی مسلمان ریاست بلکہ راجہ راجوڑے والی یہ ریاست بن گئی یعنی جس کی لاٹھی اس کی بھینس آج بھی اسی کے طبقے کے پاس طاقت اور وسائل ہیں۔اسی وجہ سے 76 سالوں کے بعد بھی یہ جدوجہد ہورہی ہے کہ پاکستان میں کیسا نظام ہونا چاہئے ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ایک آئین کی موجودگی میں اس ملک کی عوام کو معلوم نہیں کہ الیکشن کب ہونگے کون سی پارٹی اقتدار میں آئے گی اور ہمارا وزیراعظم کون ہوگا حالانکہ اسمبلیاں تحلیل ہو چکی ہیں جبکہ میں یوکے میں ہوں اور برطانوی آئین باقاعدہ تحریری طور پر سرے سے موجود ہی نہیں ہے پھر بھی عوام کو پتہ ہوتا ہے الیکشن کب ہونگے کون سی پارٹی اقتدار میں اور اگلا وزیراعظم کون ہوگا جبکہ پاکستان کے اس طاقتور طبقے نے ایسا ابہام پیدا کر رکھا ہے کہ پتہ ہی نہیں کہ ہمارے الیکشن کب ہونگے حالانکہ آئین اس بارے میں واضح ہے لیکن آئین پر عملدرآمد نہیں ہوتا ہمیں پہلے انگریزوں اور پھر ہندووں سے آزادی حاصل کیے ہوئے 76سال گزر گئے ہیں لیکن آج تک ہم اپنے حق آزادی اور آزادی اظہار رائے کے لئے لڑ رہے ہیں۔ ہم مسلمان ہیں پاکستان سے محبت رکھتے ہیں اور اسلام کے نام لیوا ہیں پاکستان یا کسی بھی مسلمان ملک میں آزادی اظہار رائے کی بات کریں تو اس کی سو سے زائد تشریحات ملیں گئیں حالانکہ آزادی اظہار رائے ایک مقدس فرض ہے اور حضورﷺ سرور کائنات خاتم النبیین کی سنت سے بھی ثابت ہے آزادی اظہار رائے ایک ایسا مقدس فرض ہے جس کےلئے حضورﷺنے مکہ مکرمہ سے ہجرت کی حالانکہ حضوؓر کو مکہ مکرمہ سے بے حد محبت تھی لیکن وہ آزادی سے عبادت اور دین اسلام کی تبلیغ مکہ مکرمہ میں نہیں کرسکتے تھے کفار مکہ کی جانب سے سختیاں تھیں حضوؓر ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لے کر چلے گئے ہجرت کرلی اور آزادی سے دین کی تبلیغ و ترویج کی جس کی بدولت دنیا میں اسلام پھیلا آج ہم مسلمان ملک میں جو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ہے یہ بحث کررہے ہیں کہ آزادی اظہار رائے کیا ہوتی ہے ڈکٹیشن دی جاتی ہے کہ جو بتایا جارہا ہے ویسا ہی کریں "ارشاد عارف بہت محتاط انداز میں گفتگو کررہے تھے لیکن باڈی لینگویج یہ بتا رہی تھی جیسے وہ اپنے جذبات اور احساسات کو بہت کنٹرول کررہے تھے انہوں نے جنرل ضیاالحق اور مارشل لاوں کے ادوار پر بھی روشنی ڈالی جنرل ضیاالحق کے بارے میں کہا کہ انہوں نے سیاست میں ایسے لوگوں کو داخل کردیا جن سے پاکستان کی جان چھوڑنی مشکل ہوگی غیر جماعتی انتخابات اور الیکٹ ایبل نے ملک کے ساتھ کھلواڑ کیا حرام ان کے منہ لگ گیا ایوب خان نے پہلا آئین اٹھا کر پھینک دیا انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ مانا کہ ان پڑھ غیر پیشہ ور یا لفافہ صحافی بھی چند صحافت کے شعبہ میں آگئے لیکن جن صحافیوں نے ایک طویل جدوجہد کی قربانیاں دیں کوڑے کھائے ہیں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور ملک میں جمہوریت کی بقا اور انسانی حقوق کی پاسداری کی بات کی وہ تو بھی تو صحافی تھے سیاست دان جب ڈر کر گھروں میں بیٹھ گئے یا جیل یا ملک سے بھاگ گئے تو صحافیوں نے سیاست دانوں کی بھی لڑائی لڑی اور ان کو میڈیا کے زریعے زندہ رکھا ان کا پیغام عوام تک پہنچایا آج بھی اگر کسی کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے تو صحافی اس کے لئے آواز اٹھاتے ہیں پھر یہ سیاست دان جب اقتدار کی کرسی پر متمکن ہوتے ہیں تو پہلا وار ہی میڈیا پر کرتے ہیں ارشاد عارف نے ملک کی سیاسی اور معاشی ابتری پر کہا کہ 11 لاکھ افراد بے روزگاری اور مہنگائی سے تنگ ہوکر پچھلے سوا سال میں پاکستان چھوڑ چکے ہیں جبکہ نادرا ریکارڈ کے مطابق پانچ لاکھ افراد کے پاسپورٹ زیر التوا ہیں کاروبار کی حالت یہ ہے کہ کارخانے بند ہورہے ہیں ہنڈا سوزوکی اور ٹیوٹا کے کارخانے مہینے میں پندرہ دن چلتے ہیں اور پندرہ دن بند رہتے ہیں لوگ شہروں میں مہنگائی کی وجہ سے واپس گاوں کا رخ کر رہے چونکہ مکانوں کے کرایے بجلی،گیس پیٹرول کی قیمتیں عام تنخواہ دار طبقے سے برداشت نہیں ہو رہی ہیں اور مہنگائی مسلسل بڑھ رہی ہے روپے کی قدر میں کمی واقع ہورہی ہے ان حالات میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ملک کی معیشت سنبھل نہیں رہی ہے عمران خان کی حکومت میں ساڑھے تین سال موج مستیاں کرنے والے ایک جھٹکے میں ہی اس کو چھوڑ کر چلے گئے ہیں جبکہ بعض افراد سختیاں بھی جھیل رہے ہیں اور اس کے ساتھ کھڑے ہیں پولیس 9 مئی کی آڑ میں عام معصوم شہریوں سے جان بخشی کے عوض لاکھوں روپے کما رہی ہے آنے والے حالات بھی زیادہ حوصلہ افزا نہیں دکھائی دیتے لیکن ہمیں باہم اتحاد و اتفاق سے اپنے اپنے حصے کا کردار ادا کرنا ہوگا ملک کی بہتری ، استحکام اور وسلامتی ہر بات مقدم رہنی چاہئے اوورسیز پاکستانیوں کا اس سلسلے میں ایک واضح کردار ہیں جو جاری رہنا چاہئے اوورسیز پاکستانی ہمارے ملک کے سفیر ہیں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے برطانیہ میں صدر تحسین گیلانی، تحریک کشمیر یوکے کے سینیئر نائب صدر چوہدری شریف، نیشنل سٹوڈنٹ فیڈریشن کے سابق صدر امجد ملک نے پاکستان کی کشمیر پالیسی اور آزاد کشمیر کو جس طرح چلایا جارہا ہے اس پر اپنی برہمی کا اظہار کیا اور سخت سوالات کئیے جس پر ارشاد عارف کا کہنا تھا کشمیریوں کی بات ہمیشہ سنی جانی چاہئے اور محرومیوں کا بھی ازالہ ہونا چاہئے وہ اپنے کالموں اور پروگراموں کے زریعے ایسے ایشوز ہمیشہ اجاگر کرتے رہتے ہیں۔آخر میں اپنی طرف سے اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں مجھے برطانیہ میں رہتے ہوئے 33 سال بیت گئے ہیں پاکستان سے ایل ایل بی کرکے برطانیہ ایا تھا ملک کی اب جو حالت ہے وہ کبھی پہلے نہیں تھی عوام کا اعتماد جج جرنیل جرنلسٹ بیورکریٹس، تاجر سیاست دان سفرا اور حکمران کھو چکے ہیں جس سے ملک کو بہت نقصان ہورہا ہے
٭٭٭٭٭
کالم
ارشاد احمد عارف کے اعزاز میں تقریب
- by web desk
- اگست 25, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 368 Views
- 2 سال ago
