اداریہ کالم

اسحاق ڈارکی پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس

idaria

یقیناً پاکستان اس وقت سنگین معاشی مشکلات میں پھنسا ہوا ہے اگر موجودہ صورتحال کو دیکھاجائے توبجٹ بنانابہت مشکل تھا کیونکہ آئی ایم ایف کی طرف سے قرض کے حصول کاایک بڑا چیلنج درپیش ہے مگر اس کے باوجود حکومت معاشی مشکلات پرقابوپانے کی بھرپور کوشش کررہی ہے ۔اب حکومت کواصل مسئلے کی طرف توجہ بھی دیناہوگی اور وہ تمام حکمران جماعتوں کامیثاق معیشت، میثاق امرا اورمفت خوری ہے ۔وفاقی وزیر خزانہ و محصولات سینیٹر اسحاق ڈار نے پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس سے خطاب اورصحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مشکل فیصلوں کے ذریعے معیشت کی گراوٹ کا عمل رک چکا ہے ، اقتصادی قوت بننا ہے،پلان بی پر پبلک میں بات نہیں ہوسکتی ، دودھ پر کوئی سیلز ٹیکس نہیں لگایا، کم از کم اجرت نہ دینے والے اداروں کیخلاف کارروائی ہوگی۔ افراط زر کی شرح 21فیصد متوقع ہے ۔ایک سال الیکشن ملتوی کا بیان نہیں دیا، بڑھتی آبادی ترقی کی کوششوں کو کھا جائیگی، ایک سال الیکشن ملتوی کا بیان نہیں دیا، عالمی اداروں کے قرضوں کی ری شیڈولنگ کی طرف نہیں جارہے،دوست ممالک سے بات کی جاسکتی ہے، آئی ایم ایف خوش نہ ہوتا تو اب تک فون آجاتا ۔ معاشی ترقی اور بجٹ کے تمام اہداف قابل حصول اور عملی ہیں، وفاق اور صوبوں کے سالانہ ترقیاتی پروگرام پر حقیقی معنوں میں عمل ہوا تو 3.5فیصد کے نمو کا ہدف آسانی سے حاصل کر لیں گے، ہمارا بنیادی ہدف 2017 کے معاشی اشاریوں کو دوبارہ حاصل کرنا ہے، تنخواہوں میں اضافہ بنیادی تنخواہ پر ایڈہاک ریلیف کی صورت میں دیا جائے گا، پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کی شرح میں اضافے کا کوئی ارادہ نہیں، تازہ اور پراسیسڈ دودھ پر کوئی سیلز ٹیکس عائد نہیں کیا گیا، دفاعی بجٹ مجموعی قومی پیداوار کا 1.7 فیصد ہے جو ہمسایہ ممالک کے مقابلے میں زیادہ نہیں ہے، ایئر پورٹس کی آﺅٹ سورسنگ کے حوالے سے اقدامات جاری ہیں، کوشش ہے کہ جولائی تک پہلے ایئرپورٹ کی آﺅٹ سورسنگ کے حوالے سے بولی ہو جائے، پاکستان دیوالیہ نہیں ہو گا، بجلی کے شعبہ میں اصلاحات کیلئے کوشاں ہیں، ہر سال ایک ہزار ارب روپے کی سبسڈی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ بجٹ منظور ہونے کے بعد عمومی طور پر ایف بی آر کی تجارتی اور تکنیکی کمیٹیاں سفارشات مرتب کر کے حکومت کو دیں گی جوفنانس بل میں شامل ہونگی۔ اسی طرح سینیٹ کی سفارشات بھی شامل کی جائیں گی۔ اگر ملک کی ترقی کا پہیہ چلے گا تو ترقی ہو گی ،ہماری حکومت نے پہلی مرتبہ سالانہ ترقیاتی پروگرام کو 1150ارب روپے تک بڑھا دیا ہے ۔ اس میں 491ارب روپے بنیادی ڈھانچے کیلئے مختص ہیں۔ سماجی بہبود، تعلیم، ایس ڈی جیز، پانی، فزیکل پلاننگ سمیت اہم شعبوں کیلئے فنڈز مختص ہیں، سابق فاٹا اور پاٹا کے منصوبوں کیلئے 61ارب روپے مختص کئے گئے ہیں، زرعی خود کفالت کیلئے 45ارب روپے کے منصوبے ہیں، اسی طرح آئی ٹی اور سائنس کیلئے بھی رقوم مختص کی گئی ہیں، صوبوں کا ترقیاتی بجٹ 1509ارب روپے کے قریب ہو گا، مجھے یقین ہے کہ اگر پی ایس ڈی پی پر صحیح عمل ہوا اور صوبے بھی اس پر حقیقی بنیادوں پر عمل کرینگے تو 3.5فیصد شرح نمو کا ہدف حاصل کرینگے۔ عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک نے مالی سال 2024 کیلئے پاکستان کی شرح نمو کا ہدف 2 فیصد لگایا ہے تاہم آئی ایم ایف ساڑھے 3 فیصد، بلومبرگ 4فیصد اور فچ نے بھی 4فیصد شرح نمو کا اندازہ لگایا ہے۔جی ڈی پی کے تناسب سے محصولات کی شرح 8.7فیصد، خسارے کی شرح 6.5فیصد اور پرائمری بیلنس 0.4فیصد ہے۔ جی ڈی پی کے تناسب سے قرضوں کی شرح 66.5فیصد ہے، سابق حکومت نے 25ٹریلین قرضے کو 49 ٹریلین تک پہنچا دیا تھا۔ اقتصادی نموہو گی تو روزگار کے مواقع بھی بڑھیں گے، بنیادی ہدف 2017 کے معاشی اشاریوں کو دوبارہ حاصل کرنا ہے اس مقصد کیلئے زراعت پرخصوصی توجہ مرکوز کی گئی ہے کیونکہ پوری دنیا میں زراعت وہ واحد شعبہ ہے جہاں تیزی سے ریٹرن ملتا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی اہم شعبہ ہے، اس شعبے کی ترقی کیلئے نئے مالی سال کے وفاقی بجٹ میں اہم اقدامات کئے گئے ہیں ، تین سال کیلئے ٹیکسوں میں رعایت دی جا رہی ہے، نئے سٹارٹ اپس کو 24 ہزار ڈالر سالانہ ٹرن اوور پر ٹیکس کی چھوٹ دی گئی ہے اسی طرح پچاس ہزار ڈالر برآمدات کی صورت میں ایک فیصد کی شرح سے ڈیوٹی فری کی سہولت دی جا رہی ہے، آئی ٹی کے حوالے سے خصوصی اقتصادی زونز کو بھی ترقی دی جا رہی ہے اور اس کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کی جارہی ہیں۔
سندھ اسمبلی میں آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کردیاگیا
سندھ حکومت نے مالی سال 2023-24کیلئے 22 کھرب 44ارب کا بجٹ پیش کر دیا ہے جس میں 37ارب 79کروڑ روپے خسارہ ہے، تنخواہوں میں 35فیصد تک اور پنشن میں 17.5فیصد اضافہ کیا گیا ہے، گریڈ ایک سے 16تک 35 فیصد اور گریڈ 17سے اوپر کے سرکاری ملازمین کی تنخواہ 30فیصد بڑھانے کا اعلان کیا ہے، جبکہ کم از کم اجرت 33ہزار 750روپے کرنے کی تجویز ہے۔وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے بطور وزیر خزانہ اپنے پانچ سال دور حکومت کا پانجواں بجٹ سندھ اسمبلی میں پیش کیا۔بجٹ میں ترقیاتی پروگرام کیلئے 410 ارب روپے، تعلیم کیلئے 353 ارب روپے، صحت کیلئے 214ارب روپے، امن و امان کیلئے 160 ارب روپے ، کراچی کے میگا پروجیکٹس کیلئے ساڑھے 12ارب روپے مختص کیے گئے ہیں ۔ بجٹ میںصوبے کو وفاق سے 1353.227ارب روپے کی منتقلی کا ہدف رکھا گیا ہے، حیدرآباد اور لاڑکانہ میونسپل کارپوریشن کی گرانٹ کو 30ملین سے بڑھاکر 45ملین روپے کردیا گیا ہے، کراچی میٹروپولیٹن خصوصی گرانٹ کو 600ملین روپے سے بڑھاکر 650ملین روپے کیا گیا ہے۔ محکمہ تعلیم 2582آسامیاں پیدا کی جائینگی،صوبائی بجٹ میں سود کی دائیگی کےلئے 96ارب روپے مختص کیا گیا ہے، پریس کلب اور مستحق صحافیوں کی گرانٹ اور انڈوونمنٹ فنڈز کی مد میں 25کروڑ 20لاکھ روپے رکھنے کی تجویزہے۔بجٹ میں صوبائی سالانہ ترقیاتی پروگرام کے تحت 87ارب روپے سیلاب کی بحالی کیلئے دیئے گئے ہیں،بجٹ میں کھیل اور امور نوجوانان کیلئے 1.83ارب روپے مختص کیا گیا ہے ۔
خیبرپختونخوامیں طوفانی بارشوں سے اموات کاافسوسناک واقعہ
خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع میں طوفانی بارشوں اور آندھی کے دوران دیورا گرنے سمیت مختلف حادثات میں جاں بحق افراد کی تعداد 28ہوگئی۔بنوں میں 12، لکی مروت 3 اور کرک میں 4 افراد جاں بحق ہوئے۔ریسکیو 1122 کے مطابق آندھی اور طوفان کے باعث 60 افراد زخمی ہوئے، بیشتر حادثات، چھتیں اور دیواریں منہدم ہونے کے باعث پیش آئے۔حکام کے مطابق صورت حال کے پیش نظر تمام اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے۔جاں بحق اور زخمیوں میں بچوں کی تعداد زیادہ ہے۔تیز بارش اور ندی نالوں میں طغیانی کے سبب گلیاں اور سڑکیں تالاب کا منظر پیش کررہی ہیں جبکہ بجلی منقطع ہوگئی ہے ۔ ادھر سوات کے علاقے مینگورہ شہر اور گرد و نواح میں تیز بارش کے باعث ندی نالوں میں طغیانی ہوئی ہے جبکہ بعض علاقوں میں ژالہ باری بھی ہوئی ہے۔وزیراعظم شہباز شریف ، نگران وزیر اعلی خیبر پختونخوا محمد اعظم خان نے بارشوں کے باعث ہونے والے جانی و مالی نقصانات پر اظہار افسوس کیا ہے۔ طوفانی بارشوں سے ہلاکتوں کاواقعہ افسوسناک ہے اللہ تعالیٰ مرحومین کی مغفرت فرمائے اوران کے درجات بلند فرمائے ۔این ڈی ایم اے نے پہلے ہی الرٹ جاری کیا ہواتھا انتظامیہ کے ساتھ عوام کوبھی قدرتی آفات سے نمٹنے کےلئے تیاررہناچاہیے۔ ادھرسمندری طوفان بائپر جوائے سائیکلون 150 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے شمالی بحر ہند میں موجود ہے، آئندہ 24گھنٹے تک طوفان کی یہ شدت برقرار رہنے کا امکان ظاہر کردیا گیا ہے ، طوفان کے کراچی سے ٹکرانے اور 25فٹ تک اونچی لہروں کا امکان ہے ، این ڈی ایم اے ، این ای او سی نے ساحلی علاقوں میں الرٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ طوفان کراچی سے تقریبا 910کلومیٹر اور ٹھٹھہ سے 890کلومیٹر جنوب میں واقع ہے اور اپنے مرکز میں 150کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار برقرار رکھے ہوئے ہے، جس سے ممکنہ طور پر ساحلی علاقے تیز آندھی، سمندری طوفان اور سیلاب کی زد میں آسکتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے