جنوبی ایشیا کی بدلتی ہوئی جغرافیائی سیاسی صورتحال میں پاکستان نے ایک اہم سفارتی قدم اٹھایا ہے۔ نائب وزیرِ اعظم اور وزیرِ خارجہ محمد اسحاق ڈار اس ہفتے چین کے تین روزہ سرکاری دورے پر بیجنگ روانہ ہوئے۔ یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب پاکستان اور بھارت کے درمیان پہلگام واقعے کے بعد کشیدگی میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس دورے کی اہمیت نہ صرف پاکستان کے لیے بلکہ پورے خطے کے لیے بے حد اہم ہے، کیونکہ یہ علاقائی امن، معاشی ترقی، اور اسٹریٹجک اتحاد کی نئی راہیں متعین کر سکتا ہے۔ بھارت کی جانب سے ایک مرتبہ پھر پاکستان پر بے بنیاد الزامات عائد کیے گئے ہیں کہ وہ مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہونے والے حملے میں ملوث ہے۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ ان الزامات کو نہ صرف سختی سے مسترد کیا بلکہ دعوی کیا کہ پاکستان نے ٹھوس اور ناقابلِ تردید شواہد فراہم کیے ہیں جو بھارت کے دعوﺅں کو بے نقاب کرتے ہیں۔ پاکستان نے عالمی برادری کے سامنے واضح کر دیا ہے کہ بھارت کی طرف سے عائد کیے گئے الزامات صرف الزام تراشی پر مبنی ہیں۔ اب دنیا بھارت کے بیانیے کو بغیر دلیل تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ پاکستان کی جانب سے موثر سفارتی حکمت عملی اپنانے کے باعث اب عالمی طاقتیں بھی مسئلہ کشمیر اور خطے میں بھارتی جارحیت پر ازسرنو غور کر رہی ہیں۔ ڈار کا مقف عالمی برادری میں پاکستان کے اعتماد کی عکاسی کرتا ہے کہ اسلام آباد امن کا داعی ہے اور ہر قسم کی دہشتگردی سے لاتعلقی رکھتا ہے۔ چینی وزیر خارجہ وانگ ژی کی دعوت پر ہونے والا یہ دورہ دونوں ممالک کے درمیان باہمی اعتماد، معاشی تعاون اور اسٹریٹجک شراکت داری کو نئی بلندیوں تک لے جانے کی ایک کڑی ہے۔ بیجنگ میں ہونے والی ملاقاتوں میں نہ صرف حالیہ کشیدگی کا جائزہ لیا جائے گا بلکہ جنوبی ایشیا میں امن، استحکام، اور ترقی کے امکانات پر بھی بات چیت کی جائے گی۔چین اور پاکستان کے تعلقات صرف سفارتی سطح تک محدود نہیں بلکہ سی پیک (CPEC)جیسے بڑے منصوبے ان تعلقات کو معاشی ترقی کے زاویے سے بھی تقویت دیتے ہیں۔ سی پیک، جو چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کا اہم جزو ہے، پاکستان کے لیے معاشی استحکام، روزگار کے مواقع، اور انفراسٹرکچر کی بہتری کا ذریعہ بن رہا ہے۔ اس دورے کے دوران سی پیک کے جاری منصوبوں پر نظرثانی اور مستقبل کے لیے نئی راہیں متعین کی جائیں گی۔پاکستان کے اس دورے کو علاقائی اسٹریٹجک توازن کے تناظر میں بھی دیکھا جا رہا ہے۔ چین کی پاکستان کے ساتھ حالیہ کشیدگی کے دوران غیر متزلزل حمایت اس بات کا ثبوت ہے کہ بیجنگ کےلئے اسلام آباد ایک اہم اسٹریٹجک اتحادی ہے ۔ یہ حمایت صرف الفاظ کی حد تک نہیں بلکہ ایک مکمل اسٹریٹجک حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔ پاکستان کی فعال سفارتکاری اور عالمی طاقتوں کے ساتھ متوازن تعلقات نے اسے ایک اہم بین الاقوامی کردار عطا کیا ہے۔ اس وقت جبکہ بھارت کو کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک پر شدید تنقید کا سامنا ہے، پاکستان کی پرامن اور تعاون پر مبنی پالیسی اسے ایک مثبت روشنی میں پیش کر رہی ہے۔سابق سفیروں خالد مسعود اور ماریہ سلطان نے نشاندہی کی کہ پاکستان کی چین، ترکی، آذربائیجان اور بنگلہ دیش جیسے ممالک کے ساتھ مستحکم تعلقات بھارت کی سفارتی ناکامی کو واضح کرتے ہیں۔ بھارت کے جارحانہ رویے اور اندرونی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں نے اسے عالمی سطح پر تنہائی کی طرف دھکیل دیا ہے جبکہ پاکستان کی متوازن پالیسیوں نے اسے ایک ذمہ دار ریاست کے طور پر پیش کیا ہے۔پاکستان کی جانب سے بین الاقوامی فورمز پر مسلسل سفارتی مشن، انسانی ہمدردی پر مبنی موقف، اور تنازعات کے پرامن حل کی اپیلیں اسے ایک ذمہ دار ریاست کے طور پر سامنے لا رہی ہیں۔ یہی وہ عوامل ہیں جو پاکستان کی خارجہ پالیسی کو اعتماد، وقار اور توازن عطا کرتے ہیں۔اسحاق ڈار کا دورہ صرف حالیہ بحران کا ردعمل نہیں بلکہ ایک جامع سفارتی حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔ یہ حکمتِ عملی اقتصادی خوشحالی، سیکیورٹی تعاون، اور علاقائی توازن پر مرکوز ہے۔ پاکستان چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو محض دو طرفہ تعاون تک محدود نہیں رکھنا چاہتا بلکہ انہیں ایک وسیع تر عالمی حکمتِ عملی میں ڈھالنا چاہتا ہے۔جبکہ جنوبی ایشیا میں عدم استحکام کے بادل منڈلا رہے ہیں، اس دورے سے نہ صرف پاکستان کی چین کے ساتھ شراکت داری مضبوط ہوگی بلکہ یہ علاقائی امن، معاشی ترقی اور عالمی تعلقات میں پاکستان کے مثبت کردار کو بھی اجاگر کرے گا۔ اسلام آباد کی یہ کاوش ظاہر کرتی ہے کہ موجودہ عالمی انتشار میں، وہ ممالک جو آج اسٹریٹجک اتحاد قائم کرتے ہیں، وہی کل کے فیصلوں میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔