اسرائیل کے پاس کوئی جواز نہیں ہے کہ وہ ایران پر پہلے سے حملہ کرنے کا بہانہ کرے کہ اس نے اپنے آپ کو بچانے کے لیے ایران کی جوہری صلاحیت کو تباہ کر دیا ہے۔ درحقیقت ایران کے پاس اسرائیل پر حملہ کرنے کی ایٹمی صلاحیت نہیں ہے۔ دوسری جانب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ایران کو مزید کوئی کارروائی کرنے سے پہلے اپنے جوہری پروگرام کو ترک کرنے کے معاہدے پر دستخط کرنا ہوں گے۔ صدر ٹرمپ کے بیان اور اسرائیلی حملے کو جوڑا جائے تو دو اہم حقائق سامنے آتے ہیں۔ اول، اسرائیل کو امریکی حکومت کی مکمل حمایت اور رضامندی حاصل ہے کہ وہ اتنے بڑے پیمانے پر حملہ کرے تاکہ ایران کو اپنے پروگرام کو ترک کرنے یا واپس لینے کے معاہدے پر دستخط کرنے پر مجبور کیا جا سکے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس اسرائیلی حملے کا نتیجہ زیادہ خطرناک ہے۔ اسرائیل نے بین الاقوامی قوانین کی تمام ریڈ لائنوں کو نظر انداز کر دیا ہے۔ ایرانی مسلح افواج کے اعلی کمانڈروں اور جوہری سائنسدانوں کا قتل نہ صرف بین الاقوامی قوانین اور جنگ کے اصولوں کی شدید خلاف ورزی ہے بلکہ انہوں نے ایک خطرناک مثال بھی قائم کی ہے کہ "جنگ میں سب کچھ جائز ہے۔” اگر دنیا بھر میں اس نظیر کی پیروی کی جائے تو عالمی امن باقی نہیں رہے گا۔ اسرائیل نے ثابت کیا ہے کہ اس کی خفیہ ایجنسی موساد کی ایران میں گہری دراندازی ہے، کیونکہ ان کا دعوی ہے کہ اس نے ان اہلکاروں کو نشانہ بنانے کے لیے ایران کے اندر ایک خفیہ اڈے سے ڈرون لانچ کیے ہیں۔ اگر یہ سچ ہے تو ایران کو فوری طور پر اپنی اندرونی اور بیرونی انٹیلی جنس صلاحیتوں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ اسرائیل کی 1980 کی دہائی سے اپنی پڑوسی عرب ریاستوں کو غیر مستحکم کرنے کی کوششوں کی تاریخ ہے۔ جب وہ عراق، شام اور لبنان جیسے ممالک کو عدم استحکام سے دوچار کرنے میں کامیاب رہے، ایران کے پراکسیوں نے مقابلہ کیا اور خاص طور پر لبنان اور عراق میں امن و استحکام بحال کرنے میں کامیاب رہے۔ تاہم، شام حال ہی میں جولانی کے ہاتھ میں آگیا، جو اسرائیل کے لیے خطرہ نہیں بن سکتا۔ اس کے باوجود اسرائیل نے اپنی توجہ حماس اور حزب اللہ کی طرف مبذول کر لی ہے۔ "آپریشن رائزنگ لائن” کے تنقیدی تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ امریکی حمایت نے اسرائیل کو مناسب سمجھے بغیر کوئی بھی اقدام کرنے کی اجازت دی ہے۔ اس صورتحال میں عرب ریاستوں کا کردار مایوس کن ہے۔ غزہ کی صورتحال پر ان کی خاموشی نے اسرائیل کو تمام ریڈ لائنز عبور کرنے کا حوصلہ دیا ہے۔ شاید عرب بادشاہوں کا خیال ہے کہ اسرائیل ان کے لیے خطرہ نہیں بنے گا لیکن یہ غلطی ہوسکتی ہے۔ اسرائیل اور امریکہ اپنے اہداف کو آگے بڑھانے کے لیے "تقسیم کرو اور حکومت کرو” کی حکمت عملی استعمال کر رہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ذریعے ریاستوں کے اندر اختلاف پیدا کر رہے ہیں۔اگر اسے روکا نہ گیا تو ایران کو اسرائیل کی طرف سے مزید جارحیت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جس سے ممکنہ طور پر عرب ریاستیں ایک ایک کرکے امریکی اور اسرائیلی دبا کے سامنے جھک جائیں گی۔ ایران کی ایٹمی صلاحیت پر حملہ اور اہم فوجی اور ایٹمی شخصیات کی ہلاکتیں پاکستان کیلئے پریشان کن ہیں۔اگرچہ اسرائیل پاکستان کی صلاحیتوں سے آگاہ ہے لیکن اس نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف اپنے مذموم عزائم کو ترک نہیں کیا۔ اگر عرب ریاستیں اسرائیلی فضائیہ کو اپنی فضائی حدود تک رسائی کی اجازت دیتی ہیں تو بھارت گمراہ کن منصوبوں میں اسرائیل کے ساتھ تعاون کر سکتا ہے۔ اسرائیل کیخلاف پاکستان کی جوابی کارروائی کو سمجھ میں آتا ہے، لیکن عقلمند قومیں اپنے دشمنوں کو کم نہیں سمجھتیں۔ "آپریشن رائزنگ لائن” کے اثرات عالمی امن کیلئے وسیع اور خطرناک ہیں۔ایران کو اسرائیل کا مقابلہ کرنے اور مزید غلط مہم جوئی کو روکنے کیلئے بھرپور جوابی کارروائی کرنی چاہیے۔ اسلامی اور عرب ممالک کو اسرائیل کے بارے میں اپنی پالیسیوں کا از سر نو جائزہ لینا چاہیے۔ پاکستان کا ردعمل بروقت اور مناسب ہے اور ایران کو خطے میں ڈیٹرنس قائم کرنے کیلئے اس کی پیروی کرنی چاہیے۔ اسرائیل اور امریکہ کو دنیا کے سامنے بے نقاب کرنے کے لیے فوری سفارتی مہم کی ضرورت ہے۔ "آپریشن رائزنگ لائن” کے گرد حالیہ واقعات نے مشرق وسطی میں اسرائیل اور امریکہ کی طرف سے کھیلے جانے والے خطرناک کھیل کو سامنے لایا ہے۔ اسرائیل کی طرف سے ایران پر قبل از وقت حملے کا جواز سب سے کمزور ہے، کیونکہ ایران کے پاس اسرائیل کو دھمکی دینے کیلئے جوہری ہتھیاروں کی صلاحیت نہیں ہے۔ صدر ٹرمپ کا ایران سے اپنے جوہری پروگرام کو ترک کرنے کے معاہدے پر دستخط کرنے کے مطالبے نے صورتحال میں ایک اور پیچیدگی کا اضافہ کر دیا ہے۔یہ حقیقت کہ اسرائیل کو اس طرح کے ایک اہم حملے کیلئے امریکی حکومت کی حمایت حاصل ہے، بین الاقوامی قوانین اور اصولوں کی پامالی کے بارے میں شدید تشویش پیدا کرتا ہے۔ اسرائیل کے اقدامات کے اثرات ایران کے ساتھ فوری تنازع سے آگے بڑھتے ہیں۔ اعلیٰ ایرانی فوجی اور جوہری حکام کی ہلاکتیں نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہیں بلکہ مستقبل کے تنازعات کیلئے ایک خطرناک مثال بھی قائم کرتی ہیں۔ اگر دوسرے ممالک اسرائیل کی پیروی کریں اور دشمن ریاستوں کے اہم عہدیداروں کو نشانہ بنائیں تو دنیا افراتفری کا شکار ہو سکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کا دعوی ہے کہ اس نے خود ایران کے اندر سے ڈرون لانچ کیے ہیں، ان کی دراندازی کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے ۔ اسرائیل کی اپنی پڑوسی عرب ریاستوں کو غیر مستحکم کرنے کی تاریخ، امریکہ کی حمایت کے ساتھ، خطے میں ایک خطرناک تحریک پیدا کرتی ہے۔ غزہ کی صورتحال پر عرب ریاستوں کی خاموشی اسرائیل کو نتائج کے خوف کے بغیر ریڈ لائنز عبور کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ پاکستان کے خلاف اسرائیل اور بھارت کے درمیان ممکنہ تعاون پہلے سے ہی غیر مستحکم خطے میں پیچیدگی کی ایک اور تہہ کا اضافہ کرتا ہے۔ اسرائیل کی جارحیت پر ایران، پاکستان اور دیگر اسلامی اور عرب ریاستوں کا ردعمل خطے میں ڈیٹرنس قائم کرنے میں اہم ہوگا۔ اسرائیل اور امریکہ کو دنیا کے سامنے بے نقاب کرنے کی سفارتی کوششیں ان کے اعمال کے احتساب کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی پر چین اور روس کا ردعمل بھی خطے کے مستقبل کو سنوارنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ "آپریشن رائزنگ لائن” کے ارد گرد ہونے والے واقعات کے عالمی امن پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ اسرائیل اور امریکہ کے اقدامات قبل از وقت حملوں اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں کے خلاف مضبوط بین الاقوامی تحفظات کی ضرورت کو اجاگر کرتے ہیں۔ ضروری ہے کہ خطے کے ممالک اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ کرنے اور مشرق وسطی میں استحکام برقرار رکھنے کیلئے ایک ساتھ کھڑے ہوں۔ دنیا کو خطے میں ہونے والی پیش رفت پر پوری توجہ دینی چاہیے اور تنازعات کو مزید بڑھنے سے روکنے کیلئے پرامن حل کیلئے کام کرنا چاہیے۔