کالم

اسرائیلی حملہ، قطر پاکستان تعلقات کی نئی جہتیں

قطر اور پاکستان کے تعلقات وقت کی آزمائشوں اور باہمی مفادات سے نکھرتے گئے ہیں۔ 1973میں سفارتی تعلقات کے قیام کے بعد سے دونوں ممالک نے توانائی، تجارت، دفاع اور افرادی قوت کے شعبوں میں مضبوط روابط قائم کیے ہیں۔ حالیہ اسرائیلی حملہ، جو 9 ستمبر 2025 کو دوحہ میں پیش آیا، صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ ایک بڑی آزمائش ہے جس نے پاکستان کی اصولی خارجہ پالیسی، اسلامی بھائی چارے اور جغرافیائی حکمتِ عملی کے کئی پہلوں کو سامنے لایا ۔پاکستان نے اس حملے کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کی، اسے قطر کی خودمختاری، عالمی قوانین، اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی تعلقات کے اصولوں کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے فوری طور پر قطر کا دورہ کیا، امیر قطر سے ملاقات میں یکجہتی کا اظہار کیا اور کہا کہ پاکستانی حکومت اور عوام قطر کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہیں ۔ انہوں نے اسرائیلی حملے کو خطے کے امن و استحکام کیلئے سنگین خطرہ قرار دیا۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مندوب آصف افتخارِ نے دو ٹوک انداز میں اسرائیلی موقف کو مسترد کرتے ہوئے اسرائیل کو "غیر ذمہ دار اور بدمعاش ریاست”قرار دیا۔ انہوں نے اسرائیلی جواز کا موازنہ القاعدہ پر حملے سے کرنے کو گمراہ کن اور ناقابلِ قبول قرار دیا۔اصف افتخار نے واضح کیا کہ پاکستان اسرائیل کی کسی بھی اشتعال انگیزی کا جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔پاکستان نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں ہنگامی اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا۔ اگرچہ اجلاس مخر ہوا، تاہم جزوی کامیابی یہ رہی کہ کونسل نے حملے کی مذمت کی، اگرچہ اسرائیل کا نام براہِ راست شامل نہ کیا گیا۔ اجلاس کے التوا کی وجوہات میں ممکنہ طور پر ویٹو طاقتوں کا دبا، سفارتی پیچیدگیاں، اور اختلافات ہو سکتے ہیں۔ یہ رویہ عالمی اداروں کی غیر جانبداری پر سوال اٹھاتا ہے۔اقتصادی سطح پر قطر پاکستان کا ایک نہایت اہم شراکت دار ہے۔ پاکستان اپنی ایل این جی (LNG) کی ضروریات کا بڑا حصہ قطر سے پورا کرتا ہے۔ مالی سال 2022 میں دو طرفہ تجارت کا حجم تقریبا 2.8 بلین امریکی ڈالر تھا، جو 2024 میں بڑھ کر 3.89 بلین ڈالر تک پہنچ گیا، جس میں 3.7 بلین ڈالر کی درآمدات شامل ہیں۔ یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پاکستان-قطر تعلقات محض سفارتی نوعیت کے نہیں بلکہ اقتصادی بقا سے بھی جڑے ہیں۔قطر میں اس وقت تقریبا تین لاکھ پاکستانی مختلف شعبوں میں خدمات انجام دے رہے ہیں، جن کا کردار قطر کی تعمیر و ترقی میں نمایاں ہے۔ حالیہ معاہدوں کے تحت مزید 100,000 بلو کالر پاکستانی مزدوروں کو قطر بھیجے جانے کا امکان ہے، جو دونوں ممالک کے مابین انسانی و معاشی روابط کو مزید گہرا کرے گا۔دفاعی سطح پر بھی تعلقات تیزی سے فروغ پا رہے ہیں۔ قطری افواج کے افسران کی پاکستان میں تربیت، مشترکہ مشقیں، اور حالیہ "ملٹری ٹو ملٹری کوآپریشن کمیٹی” کی تشکیل، اس بات کا ثبوت ہے کہ دفاعی شراکت داری میں بھی سنجیدہ پیش رفت ہو رہی ہے۔ مستقبل میں اگر قطر پاکستان سے براہِ راست دفاعی ساز و سامان خریدتا ہے یا ٹیکنالوجی کی منتقلی ہوتی ہے، تو یہ دونوں ممالک کی دفاعی خودکفالت کو تقویت دے سکتا ہے۔ یہ واقعہ پاکستان کیلئے ایک موقع بھی ہے: وہ اپنی خارجہ پالیسی کو نہ صرف اصولی بلکہ متوازن بھی رکھے۔ قطر کے ساتھ کھڑے ہو کر پاکستان خطے میں نہ صرف ایک بااعتماد شراکت دار کے طور پر ابھر سکتا ہے بلکہ توانائی، روزگار اور اسٹریٹیجک مفادات میں بھی خاطر خواہ بہتری لا سکتا ہے۔یہ بات بھی نظرانداز نہیں کی جا سکتی کہ اگر قطراسرائیل کشیدگی میں اضافہ ہوتا ہے تو امریکہ اور دیگر عالمی طاقتوں کا ردعمل اہمیت اختیار کر جائے گا۔ پاکستان کو بین الاقوامی دبا، انسانی حقوق کے تقاضوں اور اپنی دیرینہ پالیسی کے اصولوں کے درمیان نازک توازن برقرار رکھنا ہوگا۔قطر اور پاکستان کے تعلقات محض تاریخی نہیں، بلکہ متحرک، ہمہ جہت اور ضرورت پر مبنی ہیں۔ 9 ستمبر کے حملے کے بعد پاکستان کا ردعمل اس کی اصولی سفارتکاری، اسلامی ہم آہنگی، اور علاقائی توازن کیلئے عزم کا غماز ہے۔ اگر یہ تعلق مزید گہرا ہوتا ہے خاص طور پر دفاعی اور اقتصادی محاذ پر تو نہ صرف دونوں ممالک مستحکم ہوں گے بلکہ یہ دونوں ممالک کے مابین اتحاد کی ایک کامیاب مثال بھی بن سکتا ہے۔پاکستان نے عملی طور پر اپنا مقف واضح کیا ہے؛ اب وقت ہے کہ قطر اور پاکستان آگے بڑھ کر سفارتی، عسکری اور اخلاقی میدان میں مشترکہ عمل کی طرف قدم بڑھائیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے