کالم

اسرائیلی دھمکیوں پر مسلم ممالک کی خاموشی ،چہ معنی

riaz chu

حماس اور اسرائیل کی جنگ بندی میں قیدیوں اور زیر حراست افراد کا تبادلہ بھی شامل ہے۔ تنازعہ کے دونوں اطراف کے بہت سے لوگ اس بات کے منتظر ہیں کہ جنگ بندی کے خاتمے کے بعد کیا ہوگا۔ اگر فریقین میں سے کسی ایک پر جنگ بندی کے معاہدے کی شرائط کی خلاف ورزی کا الزام لگایا گیا تو ایسی صورت میں اس پہلی جنگ بندی کی ناکامی اور اس سے دستبرداری کا خدشہ بھی ہے۔تاہم اسی دوران نیتن یاہو نے یہ بھی واضح کیا کہ جیسے ہی عارضی جنگ بندی کا خاتمہ ہوگا اسرائیل پوری طاقت کے ساتھ اپنے مقصد کو حاصل کرنے کےلئے حملے کرے گا۔ اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ حزب اللہ آگ سے کھیل رہی ہے اب ہم زیادہ خطرناک جواب دیں گے۔ ایسے لوگ جو سمجھتے ہیں کہ وہ ہماری افواج اور شہریوں کے خلاف حملوں کو بڑھا سکتے ہیں وہ آگ سے کھیل رہے ہیں۔ ہم شمال اور جنوب میں سیکیورٹی بحال کریں گے اور حماس کو تباہ کر دیں گے۔اسرائیلی وزیر دفاع نے ٹی وی چینل پر دھمکی دی ہے کہ جنگ بندی کے بعداسرائیل دوبارہ حملے شروع کر دے گا اورشدت سے لڑائی جاری رہے گی۔ حماس پرمزیدیرغمالیوں کی رہائی کےلئے دباو¿ڈالیں گے۔جنگ بندی کے بعد فلسطینیوں کا استقبال اسرائیل ایئر فورس کے بموں سے ہوگا۔پھر ٹینکوں کے شیلز سے ، پھر آرٹلری کی آگ برساتی گولیوں سے ہم غزہ کو ختم کر کے دم لیں گے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم اور وزیر دفاع کی دھمکیوں کے بعد بھی مسلمان حکمران خاموش ہیں۔ کیا انہیں یہ احساس نہیں کہ ان کے مسلمان بھائیوں پر قیامت گزر رہی ہے۔ ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ مگر اب بھی مسلم حکمران خاموش ہیں۔ ہاں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ریاستِ اسرائیل کو تسلیم کرنا اسرائیلی غاصبانہ قبضہ اور ”سٹیٹس کو“ کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے جوقانونی، اخلاقی اور روحانی کسی بھی اعتبار سے درست قدم نہیں ہو سکتا- موجودہ صورتحال میں یہ بات مسلم دنیا کے حکمرانوں کو ذہن نشین ہونی چاہئے کہ مسجدِ اقصیٰ کی مسلمانوں کیلئے کیا اہمیت ہے- اس سے ہمارا رشتہ ر±وحانی ہے اور جب تک مسلمانوں کا اسلام سے رشتہ قائم ہے وہ اپنے اس روحانی ورثہ سے دستبردار نہیں ہو سکتے ۔ بانیانِ پاکستان سے لےکر آج تک پاکستان اپنے اصولی مو¿قف پہ قائم ہے کہ فلسطینیوں کو ان کا حق ملنے تک اسرائیل کو تسلیم کرنے کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔اس معاہدے میں "حماس” کے زیر حراست 50 اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے میں اسرائیلی جیلوں میں قید 150 فلسطینی قیدیوں کی رہائی بھی شامل ہے، جن میں سے زیادہ تر خواتین اور 19 سال سے کم عمر کے بچے ہیں۔ رہائی پانے والوں کا پہلا گروپ مختلف خاندانوں کی 13 خواتین اور بچوں پر مشتمل ہے۔حماس کا کہنا ہے کہ رہا ہونے والے ہر اسرائیلی قیدی کے بدلے 3 فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا جائے گا۔حماس نے مطالبہ کیا کہ جنگ بندی کی پوری مدت کے دوران لوگوں کو نقل و حرکت کی آزادی کی اجازت دی جائے۔ اسرائیلی فضائیہ غزہ کی پٹی پر پروازیں معطل کرے۔ انسانی امداد کے قافلوں اور ایندھن کی سپلائی کی اضافی تعداد کو محصور پٹی میں داخل ہونے دیا جائے۔ لیاقت بلوچ نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان نے خصوصی سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عارضی جنگ بندی اسرائیل کی مجبوری ہے ۔ مسئلہ فلسطین حل کیے بغیر دنیا کو امن نہیں مل سکتا ۔یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ مسئلہ فلسطین کے منصفانہ حل تک مشرقِ وسطیٰ میں امن قائم نہیں ہو سکتا اور نتیجتاً مسلم دنیا امن و سلامتی کی منزل حاصل نہیں کر سکتی۔ یہ غالب امر ہے کہ بحیثیت مجموعی مسلم ممالک کے عوام کے دل بیت المقدس اور قبلہ اول کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور وہ اپنے روحانی و ملکی فریضہ سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں، چنانچہ آج مسئلہ فلسطین اور کشمیر کا حل امتِ مسلمہ کے اتحاد سے ج±ڑا ہے جس کیلئے بالخصوص او آئی سی اور عرب لیگ کو مل کر فوری اقدامات کرنے ہونگے کیونکہ یہ سچ ہے کہ فلسطین صرف فلسطینیوں کا نہیں بلکہ پوری امتِ مسلمہ کا ہے جس سے مسلمانوں کی دینی و روحانی نسبت ہے۔ اس لئےجب تک پوری مسلم قیادت بغیرکسی سمجھوتےیابیرونی دباو¿کے متحد ہو کرایک مربوط پالیسی اپناتے ہوئے مسئلہ فلسطین پر عملاً آواز نہیں اٹھاتی اس وقت تک فلسطین کا کوئی ممکنہ حل نظر نہیں آتا۔ دنیا کے ستاون مسلم ممالک اپنے بے پناہ قدرتی و معاشی وسائل کی وجہ سے بلاشبہ اسرائیل پر دباو¿ ڈالنے کی طاقت رکھتے ہیںلیکن ان ممالک کے باہمی اختلافات کی گہری خلیج نے انہیںکبھی بھی اس طاقت سے فائدہ اٹھانے کے قابل نہیں رہنے دیا۔اجلاس میں کچھ ممالک اسرائیل اور امریکہ کے خلاف حتمی فیصلے سے گریزاں رہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کانفرنس کے حتمی اعلامیے میں جن اہداف پر توجہ مرکوز رہی انہیں کم سے کم درجے کا کہا جا سکتا ہے۔اس وقت فلسطینی عوام کو اخلاقی ہمدردی اور مطالبات سے زیادہ عملی اقدامات درکار ہیں۔مسلم ریاستوں کا فلسطین کے مسئلہ پر فکر مند ہونا اور فلسطینیوں کی شہادت پر دکھ کا اظہار کرنے تک خود کو محدود رکھنا ان کی بے بسی کو ظاہر کرتا ہے۔ایسی کانفرنسوں سے فلسطینیوں کی اشک شوئی نہیں ہو سکتی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے