کالم

اسرائیلی وزیر اعظم کے خلاف ہنگامے

غزہ جنگ کے حوالے سے اسرائیل بھر میں حکومت مخالف احتجاجی مظاہرے پھوٹ پڑے جن میں قیدیوں کے اہل خانہ سمیت ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ حکومت کے خلاف ہونے والے ان احتجاجی مظاہروں میں حماس کی قید میں موجود اسرائیلی شہریوں کے لواحقین نے بھی پہلی بار شرکت کی۔ سب سے بڑا احتجاج دارالحکومت تل ابیب میں ہوا۔مظاہرین نے اہم سڑکیں بلاک کردیں جس کے نتیجے میں شدید ٹریفک جام ہوگیا اور مسافر پھنس گئے۔ پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے درجن بھر افراد کو گرفتار کرلیا اور مظاہرین کو منتشر کرنے کےلئے پانی کی توپ کا استعمال کیا۔مقبوضہ بیت المقدس یروشلم میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔ مظاہرین نے پولیس کی رکاوٹیں توڑ کر وزیراعظم نیتن یاہو کے گھر کی جانب پہنچنے کی کوشش کی اور مستعفی ہونے کے نعرے لگائے۔مغویوں کے اہل خانہ اور مظاہرین نے مغویوں کی رہائی کےلئے حماس کے ساتھ معاہدے میں نیتن یاہو کو رکاوٹ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس مسئلے کے حل میں نیتن یاہو کا کردار ناقابل فہم اور مجرمانہ ہے۔ ایک مغوی کی والدہ اینا زانگوکر نے کہا کہ اب سے ہم نیتن یاہو کی برطرفی کے لیے جدوجہد شروع کریں گے۔ برطانیہ کے سرکاری وکلاءنے اپنی حکومت کو دی گئی خفیہ رپورٹ میں اسرائیل کو بین الاقوامی قانون کیخلاف ورزی کا مرتکب قرار دیا ہے۔برطانوی رکن پارلیمنٹ کی خارجہ امور کمیٹی کی سربراہ ایلیسیا کیرنز نے کہا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ حکومت اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ اسرائیل بین الاقوامی انسانی قانون کی پاسداری نہیں کر رہا تاہم حکومت اس بات کو چھپا رہی ہے۔ ایک لیک شدہ ریکارڈنگ سے یہ انکشاف ہوا کہ برطانوی حکومت کو اس کے اپنے وکیلوں کی رپورٹ موصول ہوئی جس میں کہا گیا کہ اسرائیل نے غزہ میں بین الاقوامی انسانی قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔ تاہم برطانوی حکومت نے یہ رپورٹ دبالی ہے اور اس کو مشتہر نہیں کیا گیا۔ایلیسیا کیرنز نے بتایا کہ “مجھے یقین ہے کہ حکومت نے غزہ جنگ پر اپنا تازہ ترین جائزہ مکمل کرلیا ہے جس میں حکومت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ اسرائیل بین الاقوامی انسانی قانون کی پاسداری نہیں کر رہا جو وہ قانونی طور پر کرنے کا پابند ہے۔ اس موقع پر بین الاقوامی قوانین کو برقرار رکھنے کے لیے برطانوی حکومت کو شفافیت کا مظاہرہ کرنا بہت ضروری ہے۔یہ بات ظاہر کرنے سے برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ کیمرون اور وزیر اعظم رشی سونک شدید دباو¿ میں آجائیں گے کیونکہ برطانیہ میں سرکاری وکلا کی جانب سے ایسی کسی بھی قانونی ایڈوائس ملنے کا مطلب یہ ہے کہ برطانیہ کو نہ صرف بلاتاخیر اسرائیل کو تمام ہتھیاروں کی فروخت بند کرنی پڑے گی بلکہ اس کے ساتھ انٹیلی جنس معلومات کا تبادلہ بھی روکنا ہوگا۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ کے باوجود برطانیہ نے اسرائیل کو ہتھیاروں کی فروخت بند نہ کی تو برطانیہ خود بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار پائے گا، کیونکہ اس پر اسلحے کی فروخت کے ذریعے جنگی جرائم کی مدد اور حوصلہ افزائی کا الزام آئے گا۔ اسرائیل کے اقدامات نے نہ صرف اس کی اپنی بلکہ برطانیہ کی طویل مدتی سلامتی کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔واضح رہے کہ 2022 میں برطانیہ کی اسرائیل کو ہتھیاروں کی برآمدات 42 ملین یورو تھی۔جنوری میں خارجہ امور کی سلیکٹ کمیٹی کے ایک اجلاس میں، کیرنز نے وزیر خارجہ کیمرون سے براہ راست سوال کیا کہ کیا “آپ نے کبھی دفتر خارجہ کے وکیل کا قانونی مسودہ نہیں دیکھا جس میں کہا گیا ہو کہ اسرائیل بین الاقوامی انسانی قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔اس کے جواب میں ڈیوڈ کیمرون نے کہا کہ میں اپنے سامنے پیش کیے گئے ہر کاغذ کو یاد نہیں کرسکتا، میں اس سوال کا جواب نہیں دینا چاہتا، تاہم اگر آپ مجھ سے پوچھ رہی ہیں کہ کیا میں فکرمند ہوں کہ اسرائیل نے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کی ہے تو ہاں، یقیناً میں اس کے بارے میں فکر مند ہوں۔ اس لیے میں اسلحے کی برآمدات کے بارے میں مشورہ دیتے وقت دفتر خارجہ کے وکلاءسے مشورہ کرتا ہوں۔ امریکی ماڈل بیلا حدید نے فلسطین مخالف بیان دینے پر اسرائیلی وزیر کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔سوشل میڈیا پر عبرانی زبان میں اسرائیلی وزیر اورط اسٹروک کی ایک تقریر وائرل ہے جس میں وہ یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ فلسطینی لوگوں کا کوئی وجود نہیں ہے۔بیلا حدید نے اسرائیلی وزیر کے بیان کو اپنی انسٹاگرام اسٹوری کے ساتھ لگا کر وزیر کو پیشکش کی کہ وہ ان کے والد کا پاسپورٹ چیک کریں اور ان لاکھوں لوگوں کو دیکھیں جو جنہیں اپنی سرزمین کی حفاظت کیلئے مٹا دیا گیا۔فلسطین پر اسرائیلی جارحیت اور مظالم کی وجہ سے اب تک 32 ہزار افراد شہید اور 74000 افراد زخمی ہوگئے ہیں اور شہید ہونے والوں میں آدھی سے زیادہ تعداد بچوں کی ہے۔غزہ میں اسرائیل کی وحشیانہ بمباری اورنہتے فلسطینی عوام کے قتل عام میں اسرائیل کو امریکا اور دیگر مغربی ممالک کی مالی اور عسکری امداد حاصل ہے۔ غزہ کے 22 لاکھ عوام کو گزشتہ 16 برس سے غیر انسانی محاصرے میں محصور کیا گیا ہے اور انہیں غیر انسانی حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور کیا گیا ہے۔ اس وحشیانہ ظلم پر مسلمان ممالک کی حکومتوں نے مجرمانہ خاموشی اختیار کی ھوئی ھے۔ او آئی سی کے پلیٹ فارم سے محض بیانات جاری کرنے کے علاوہ کوئی عملی اقدام نہیں اٹھایا گیا۔ اب بمباری کے ساتھ ساتھ غذائی مواد اور ادویات کے داخلے پر اسرائیلی کنٹرول کی وجہ سے اہل غزہ کو مصنوعی قحط میں رکھا جارھا ہے۔ جس کی وجہ سے بڑی تعداد میں جانی نقصان کا خطرہ پیدا ھو گیا ھے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے