کالم

اسرائیل ایران تنازعہ

13جون 2025ء اسرائیل کے صیہونی حکمرانوں نے غزہ میں پونے دو سال کے دوران ریاستی دہشت گردی کے ذریعے آگ اور خون کی ہولی جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ ایران کو جوہری معاملے پر امریکہ سے متوقع طور پر نتیجہ خیز مذاکرات سے عین پیشتر سراسر بلا جواز ،غیر قانونی فضائی حملے کر کے پورے مشرق وسطیٰ بلکہ پوری دنیا کو جنگ کے شعلوں کی لپیٹ میں آ جانے کے خدشات کو آخری حد تک ابھار دیا ۔اسرائیل کے ایران پر کئے جانے والے حملے جسے آپریشن ”رائزنگ لائن ” کا نام دیا گیا ،اس سے قبل ایسی کوئی مثال نہیں ملتی ۔اسرائیل کا بڑا مقصد ایران میں رجیم کی تبدیلی ہے ۔اسی لئے اس کا کہنا ہے کہ وہ ایرانی عوام کے خلاف نہیں اور نیتن یاہو کا ایرانی عوام کو مخاطب کرتے ہوئے انہیں مشورہ دینا کہ وہ اپنے حکمرانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں ۔اس آپریشن کا نام رائزنگ لائن معنی خیز اور اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے کہ موجودہ حکومت کے مخالفین متحرک اور اٹھ کھڑے ہوں ۔
1980ء سے1988ء کی ایران عراق جنگ کے بعد یہ ایران کی سرزمین پر ہونے والا سب سے بڑا حملہ ہے ۔اسرائیلی فضائیہ نے نہ صرف ایران کے جوہری پروگرام سے منسلک تنصیبات کو نشانہ بنایا بلکہ ملک کے فضائی دفاعی نظام اور بیلسٹک میزائل اڈوں کو بھی نشانہ بنایا ۔اسرائیل کی انٹیلی جنس ایجنسی موساد کیلئے کام کرنے والوں کے نیٹ ورک نے مبینہ طور پر فوجی قیادت اور جوہری سائنس دانوں کی نشاندہی کرنے میں مدد دی ۔اسرائیل نے غداروں کی سہولت کاری کے ذریعے فوج کے سربراہ ،سنئیر فوجی افسروں اور ایٹمی سائنس دانوں کو پہلے ہی حملے میں شہید کر دیا ۔دراصل امریکہ بہادر نے ایرانی قیادت کو جوہری مذاکرات کی راہ دکھا کر امن و سلامتی کی خواہش کا اظہار کیا اور اپنے بغل بچہ اسرائیل سے حملہ کرا دیا گیا ۔امریکی رضامندی کے بغیر اسرائیل ایران پر حملے کی جرأ ت نہیں کر سکتا تھا ۔اگر امریکہ بہادر پشت پناہی نہ کرے تو کیا یوکرائن روس سے جنگ چھیڑ سکتا تھا ۔سابق امریکی صدر جو بائیڈن نے یو کرائن ،روس کو لڑایا اور بھاری نقصان کے باوجود جنگ جاری ہے ۔جس طرح امریکہ نے عراق میں یورینیم افزودگی کے الزامات لگا کر اس پر حملہ کیا اور اس کی اہم فوجی تنصیبات کو تباہ و برباد کر دیا تھا ،ایسا ہی ڈرامہ اب امریکہ ،اسرائیل کے ذریعے رچا کر ایران کی اہم فوجی تنصیبات اور نیوکلئیر پروگرام کے مراکز پر حملے کر رہا ہے اور عراق کی طرح ایران کو بھی نشان عبرت بنانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے ۔عراق کے ایٹمی و فوجی مراکز میں جا کر امریکی ایجنسیوں نے خود چھان بین کی مگر کچھ بھی ایسا نہ ملا جو ان کے لغو الزامات کی تصدیق کرتا ۔غزہ ،شام ،یمن کے بعد اسرائیل کا نشانہ اب ایران ہے ۔اسرائیل کا ایران پر حملہ اس بات کی علامت ہے کہ اگر طاقتور ممالک چاہیں تو عالمی قوانین کو نظر انداز کر کے کمزور پر حملہ کر سکتے ہیں ۔ان پر کوئی بھی بین الاقوامی ضابطہ اور اصول لاگو نہیں ہوتا ۔
اسرائیل نے ایران کے دارالحکومت تہران پر جس وحشیانہ انداز میں بربریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فضائی حملے کئے وہ پوری دنیا کے سامنے ہے اور ان حملوں میں ایران کو فوجی اور دفاعی سطح پر جو بھاری نقصان ہوا وہ بھی عالمی برادری کے علم میں ہے ۔اسرائیل کو اس بربریت کا جواب دینے کا پورا حق حاصل تھا چنانچہ اس نے اسرائیل کے ہاتھوں گہرے زخم کھانے کے باوجود جمعتہ المبارک کی شب اسرائیل پر بھرپور جوابی وار کیا اور امریکہ کے ساتھ ہونے والے مذاکرات بھی منسوخ کر دئیے ۔ایران نے اپنے جواب کے پہلے مرحلے کو ”سخت سزا” اور دوسرے مرحلے کو ”وعدہ صادق ” کا نام دیا ۔ایران نے آپریشن ”وعدہ صادق سوم” کی 11ویں لہر کا آغاز کر دیا ہے ۔ایران نے تابڑ توڑ اور بھرپور قوت کے ساتھ حملوں کے ذریعے اسرائیل کی اہم فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا ہے ۔میزائل حملے کے بعد حیفہ پاور پلانٹ میں آگ لگ گئی ۔وسطی اسرائیل میں بجلی بند ہو گئی ۔
حیفہ اندھیرے میں ڈوب گیا ۔ایران اسرائیل جنگ اب دوسرے مرحلے میں داخل ہو گئی ہے ۔اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب غزہ کا منظر پیش کر رہا ہے ۔ایران نے اسرائیلی حملے کا جس بہادری سے جواب دیا وہ دنیا کیلئے حیران کن تھا ۔اسرائیل کے تین سطحی نظام جنہیں ناقابل تسخیر سمجھا جاتا تھا ایران کے میزائلوں اور ڈرون حملوں کے سامنے ناکام ہو گئے ۔اسرائیل کے شہریوں کو پہلی بار خوف اور غیر یقینی حالت میں زندگی گزارنے کا تجربہ ہوا ۔مظلوم فلسطینیوں کے چہروں پر عرصے بعد خوشی کے آثار ہیں ۔اسرائیل پر ایران کے جوابی حملوں سے یہ بات تو واضع ہو گئی ہے کہ اسرائیل ناقابل شکست نہیں ہے اور اسرائیل کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے ۔یہ حقیقت اب چھپی نہیں رہی کہ اسرائیلی حملے کی منصوبہ بندی میں امریکی ہاتھ ہی کارفرما ہے ۔یہ دراصل امریکہ ،بھارت ،اسرائیل کا وہ ہنود و یہود گٹھ جوڑ ہے جو مسلم دنیا کا اتحاد توڑنے اور اسے ایک ایک کر کے صفحہ ہستی سے مٹانے کیلئے قائم ہو اہے ۔1990ء کی دہائی میں سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد فلسطین اور عرب دنیا کے ایک بڑے مزاحمتی حصے نے اسرائیل کے آگے ہتھیار ڈال دئیے ۔2003ء میں عراق اور2011ء میں شام اور لیبیا پر استعماری یلغار نے میدان ہموار کر دیا ۔اس کڑے وقت میں ایران نے پورے خطے میں مزاحمتی گروہوں کو مضبوط کیا۔ حماس سے لیکر حزب اﷲ اور انصار سے لیکر شام اور عراق میں مزاحمتی گروہوں کو مضبوط کیا ۔ایران سے کئی غلطیاں بھی ہوئیں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ آج اسرائیل اگر پریشان ہے تو اس کی وجہ ایران کی خطے میں مزاحمتی گروہوں کی حمایت ہے ۔
ایران کو اس کی دلیری اور جرأت کی داد تو دینی پڑے گی کہ اس نے سالہا سال سے اپنے اوپر اقتصادی پابندیوں کے باوجود امریکہ اور اسرائیل کے خلاف کام کرنے والے گروپس کو یکجا رکھا اور خود بھی یہ مزاحمت دو بڑی قوتوں کے خلاف جاری رکھی ۔ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری جنگ روز بروز شدت اختیار کرتی جا رہی ہے ۔دنیا اور بالخصوص اسلامی ممالک کی نظریں اس جنگ پر مرکوز ہیں جو ”گریٹر اسرائیل ” کے منصوبے کا حصہ ہے ۔اسرائیلی حکام نے عندیہ دیا ہے کہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اﷲ خامنہ ای پر حملے کا امکان رد نہیں کیا جا سکتا ۔اسرائیل کی کوشش ہے کہ امریکہ کو بھی اس جنگ میں گھسیٹا جائے تا کہ ایران کے خلاف مشترکہ حکمت عملی اپنائی جا سکے ۔امریکی سینیٹر برنی سینڈر نے کہا ہے کہ اسرائیل کا ایران پر حملہ غیر قانونی ہے ۔یہ اسرائیل کی امریکہ کو اپنی جنگ میں گھسیٹنے کی سازش ہے ۔یہ بھی ایک تشویشناک بات ہے کہ اسرائیل نے ایران کے اندر جگہ بنا کر اس پر حملے کئے لیکن بد قسمتی سے ایران کا دفاعی اور جاسوسی نظام اس کی اطلاع پانے میں ناکام رہا ۔اسرائیل کے ایران پر ناجائز حملے پر مغربی دنیا خاموش ہی نہیں بلکہ اسے اسرائیل کا ”دفاعی اقدام ” قرار دے رہی ہے ۔مسلم امہ کیلئے بھی لمحہ فکریہ ہے کہ آج ایران نشانہ ہے ،کل کوئی اور ہو گا ۔اگرچہ ایران پر اسرائیلی حملے کے خلاف پاکستان ،سعودی عرب ،ترکیہ ،قطر ،عمان سمیت آج پوری مسلم دنیا متحد نظر آتی ہے اور ایران کے ساتھ کھڑا ہونے کے عزم کا اظہار کیا جا رہا ہے تا ہم آج محض مذمتی قراردادوں اور مذمتی بیانات نہیں ،ایران اور فلسطین کے ساتھ عملی طور پر کھڑا ہونے اور انہیں دشمن کے مقابلے میں ہر قسم کی فوجی ،دفاعی کمک پہنچانے کی ضرورت ہے جس طرح امریکہ ایران و فلسطین کے خلاف اسرائیل کو کھلی فوجی کمک فراہم کر رہا ہے ۔آج یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کیا امریکہ براہ راست جنگ میں کودے گا ؟اگر ایسا ہوا تو روس اور چین کہاں کھڑے ہوں گے ۔
چین کے صدر شی نے اپنے ملٹری اکائونٹ سے ایک پیغام جاری کیا ہے ۔انہوں نے کہا ہے کہ دنیا امریکہ کے بغیر آگے بڑھ سکتی ہے ۔اگر امریکہ دنیا کا احترام کھو بیٹھا ہے تو وہی سبق سیکھے گا جو ہر زوال پذیر سلطنت نے بہت دیر سے سیکھا کہ دنیا کسی کیلئے نہیں رکتی ہمیشہ آگے بڑھتی رہتی ہے ۔اس لڑائی کا کیا نتیجہ نکلتا ہے لیکن یہ جنگ ایران پر فلسطین کی حمایت کی وجہ سے مسلط کی گئی ہے ۔ایران نے وہ کر دکھایا جو اقوام متحدہ کو کرنا چاہیے تھا ۔ایران صرف ایک ملک نہیں ایک تہذیب ہے ۔صرف اﷲ تعالیٰ ہی ہے جس کا حکم کائنات پر رواں ہے ۔اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس جنگ میں ایران کو سرخرو کرے آمین۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے