خلیج تعاون کونسل کے ارکان نے اقوام متحدہ سے اسرائیل کو مذاکراتی میز پر لانے کا مطالبہ کر تے ہوئے کہا کہ غزہ کی پٹی میں اسرائیل کے 2 ماہ سے جاری گھناو¿نے جرم عالمی برادری کے لیے باعث شرم ہیں لہذا اسے فوری بند کیا جائے اور اسرائیل کے خلاف جنگی جرائم بارے مقدمہ چلایا جائے۔ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں خلیج تعاون کونسل کے رکن ممالک کے سربراہان نے سربراہی اجلاس کے اختتام پر خبردار کیا کہ "جب تک غزہ میں اسرائیلی جارحیت ختم نہیں ہوتی تب تک محاذ آرائی میں وسعت اور تنازعات کے مشرق وسطیٰ کے دیگر علاقوں تک پھیلنے کا خطرہ ہے، جس کے خطے کی عوام پر اور بین الاقوامی امن و سیکورٹی پر سنگین نتائج مرتب ہوں گے۔ ارکان نے "فلسطینی عوام کے خلاف واضح اسرائیلی جارحیت” کے تسلسل پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسرائیلی فورسز کی جانب سے فلسطینی شہریوں کے خلاف پرتشدد اور اندھا دھند بمباری کی کارروائیوں میں اضافے اور شہری آبادی کی جبری نقل مکانی کی مذمت کی۔ترک صدر رجب طیب اردگان نے اس سربراہی اجلاس، جس میں وہ بطور مہمان شریک تھے، سے خطاب کرتے ہوئے غزہ جنگ کا علاقائی جنگ میں تبدیل ہونے کے امکان سے خبردار کیا اور کہا: "ہمیں غزہ کی پٹی میں قتل عام کو علاقائی جنگ میں تبدیل نہیں ہونے دینا چاہیے جس میں شام بھی شامل ہے۔” غزہ کی پٹی میں قابض افواج کی خلاف ورزیاں بین الاقوامی برادری کی بدنامی ہے، امید ہے اس اجلاس سے خلیجی ممالک کی جانب سے مضبوط لائحہ عمل تیار کرنے میں مدد ملے گی۔غزہ میں عارضی جنگ بندی مسئلے کا متبادل نہیں ہو سکتی۔ اسرائیل اور اس کے حامیوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ مسئلہ فلسطین پس پشت نہیں ڈالا جا سکتا۔ 7 اکتوبر کو طوفان الاقصیٰ حق اور باطل کا معرکہ تھا، اس کے بعد یہ دنیا تقسیم ہو گئی، اس واقعے کو دو ماہ سے زائد عرصہ گزر چکا ہے اور ہم دنیا کے ہر اس باضمیر انسان کو مبارکباد پیش کرتے ہیں جنہوں نے معصوموں اور مظلوموں کا ساتھ دیا، غزہ کے مسلمانوں کا ساتھ دیا۔ اس تمام صورتحال میں غزہ کے بچے اپنی ماو¿ں سے پوچھ رہے ہیں کہ پاکستان کی فوج کب آئے گی، ایران اور ترکیہ اور انڈونیشیا کی فوج کب آئے گی، ہمارے عرب کب آئیں گے۔ ہمارا خیال تھا کہ اسلامی تعاون تنظیم کے اجلاس میں یہ لوگ حماس کے لیڈر کو بلائیں گے اور اسرائیل کو دھمکی دیں گے کہ اگر 72 گھنٹوں میں لڑائی بند نہ کی تو ہمارے تیل کا ایک قطرہ ان ممالک کو نہیں ملے گا جو اسرائیل کی حمایت کر رہے ہیں۔ ہمیں یقین تھا کہ او آئی سی اجلاس میں اسرائیل کے اقتصادی بائیکاٹ کا اعلان ہو گا۔ فلسطین فنڈ کا قیام ہو گا اور او آئی سی اراکین غزہ کی سیکیورٹی کے لیے کوئی عملی لائحہ عمل دیں گے لیکن افسوس ہے کہ وہ کچھ نہیں کر سکے۔ انہوں نے صرف اپنے مسلمان عوام کو تسلی دینے اور خاموش کرانے کے لیے ایک مردہ قرارداد منظور کی جس کا نہ اسرائیل پر کوئی اثر ہوا اور نہ امریکا نے کوئی اثر لیا۔ غزہ کے حوالے سے مسلمان حکمرانوں کی مثال میر جعفر اور میر صادق کی ہے جو استعمار اور سامراج سے ڈرتے ہیں۔اسرائیل کی بدترین جارحیت کی حمایت میں الحادی قوتوں کا گٹھ جوڑ اور مسلمان دشمنی کھل کر سامنے آچکی ہے جبکہ ان کا دوغلا پن بھی مسلم دنیا کے سامنے آچکا ہے۔اگر مسلم ممالک اب بھی متحد نہ ہوئے تو وہ الحادی قوتوں کی بربریت کا نشانہ بن کر فلسطین کی طرح ایک ایک کرکے اپنا وجود کھو بیٹھیں گے۔ امریکہ اور دوسرے طاقتور ملکوں کی من مانیوں نے اقوام متحدہ کو ایک غیرفعال ادارہ بنا دیا ہے‘ یہ طاقتور ملک نہ صرف عالمی قوانین کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں بلکہ تاریخ کے بدترین جارح اور ناجائز ریاست کا کھل کر ساتھ دے رہے ہیں جبکہ اقوام متحدہ ایک بے بس اور لاچار ادارہ بن کر انکی لونڈی کا کردار ادا کررہا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جنگی جرائم کا مرتکب ہونے پر اقوام متحدہ اسرائیل کیخلاف سخت کارروائی عمل میں لاتا اور اسکی پشت پناہی کرنیوالوں کو اسکی حمایت سے روکتا مگر اسکی حالت یہ ہے کہ سیکرٹری جنرل سمیت اسکے نمائندگان اسرائیل کی ننگی جارحیت اور فلسطین میں بدترین انسانی المیے پر تشویش کا اظہار تو کررہے ہیں مگر بااختیار ہونے کے باوجود اسکے جنونی ہاتھ روکنے میں بے بس نظر آتے ہیں۔ اگر فلسطین اور اسرائیل کی جنگ طول اختیار کرگئی تویہ جنگ پورے کرہ ارض کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ پوری دنیا میں اسرائیلی مظالم پر آہ و بکاہ ہو رہی ہے‘ جنگ بندی کے تقاضے کئے جارہے ہیں‘ اقوام متحدہ کو جھنجوڑ کر جگانے کی کوشش کی جا رہی ہے مگر امریکہ اور دوسری الحادی قوتیں نہ صرف اسرائیلی ہاتھ روکنے پر آمادہ نہیں بلکہ فلسطینیوں پر مزید مظالم کیلئے اسے ہر قسم کا جنگی سازوسامان بھی فراہم کر رہی ہیں۔ یقیناً الحادی قوتوں کی اسی شہ پر اسرائیلی وزیر دفاع نے فلسطینیوں پر ایٹم بم چلانے کی دھمکی بھی دی ہے جو اسرائیل کے پاس ایٹم بم کی موجودگی کا بھی ثبوت ہے مگر ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول کی پاداش میں امریکہ نے جس طرح پاکستان پر اقوام متحدہ کے ذریعے عالمی اقتصادی پابندیاں عائد کرائیں‘ بھارت اور اسرائیل کیلئے ایسی پابندیوں کا کبھی سوچا بھی نہیں گیا۔ اس سے بادی النظر میں یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ الحادی قوتوں کو مسلم دنیا کی کمزوریوں کا مکمل ادراک ہے اور اسی بنیاد پر امت مسلمہ کو مزید کمزور کرکے اسے ایک ایک کرکے ختم کرنے کی سازشیں کامیاب ہوتی نظر آرہی ہیں۔ فلسطین کے حق میں ایک ہزار سے زائد قراردادیں منظور ہو چکی ہیں۔ پونے 2 ارب مسلمان مسلسل دعائیں مانگ رہے ہیں لیکن یہ ثابت ہوا کہ یہ دعائیں اور قرادادیں اس وقت تک نامکمل اور بے جان ہیں جب مسلمان حکمران اور عوام فلسطین کی آزادی کےلئے جہاد کا راستہ اختیار نہیں کرتے۔