اسرائیلی فوج مقبوضہ فلسطین اور غزہ میں محصورنہتے اور بے یارو مددگارفلسطینیوں پر شدید بمباری کر رہی ہے۔ فلسطینیوں کے خلاف بھارتی توپیں، ٹینک اور فضائیہ استعما ل کی جا رہی ہے جس میں اب تک تین ہزار فلسطینی شہید ، ایک لاکھ سے زائد زخمی اور ہزاروں افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ اسرائیلی درندے غزہ میں محصور فلسطینیوں کو جبراً گھروں سے بے دخل کر رہے ہیں جبکہ مغربی کنارے پر بھی یہودی آباد کارنہتے فلسطینیوں پر فائرنگ کر رہے ہیں۔ بد قسمتی یہ ہے کہ آج ستاون مسلمان ممالک فلسطینیوں کی مدد کرنے کےلئے آگے نہیں بڑھے وہ صرف یہودیوں کی وحشیانہ بمباری کی زبانی مذمت پر اکتفا کر رہے ہیں۔ الخدمت اسلام آباد کے صدر محترم حامد اطہر نے فلسطینیوں کو خوراک ، ادویات اور دیگر ضروریات پہنچانے کرنے کےلئے فنڈ قائم کیا ہے جس میں لوگ دل کھول کر مدد کر رہے ہیں۔ راقم الحروف یہاں دو بہنوں کے ایثار کا بھی ذکر کرنا چاہتا ہے کہ ان دونوں بہنوں نے فلسطینیوں کی امداد کےلئے الخدمت کے فنڈ میں پچاس تولے سونا اور دو لاکھ روپے نقد فراہم کئے ہیں۔ان کا یہ جذبہ و ایثار دوسرے پاکستانیوں کےلئے باعث تقلید ہے۔ آج کے معاشرے میں اس کی بہت کم مثالیں ملتی ہیں۔ حماس کے ہزاروں کارکن اور فلسطینی مسلمان بے یارومددگار ہیں لیکن ان کے ایمانی جذبے کو دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی۔ جو قوم اللہ پر ایمان کے ساتھ کفر کا مقابلہ کر تی ہے تو وہ آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ ان دنوں فلسطینیوں کا جذبہ ایمانی عروج پر ہے۔ اس کی ایک مثال ایک دس سالہ فلسطینی بچے کی ویڈیو سامنے آئی ہے جو اپنے گھر کے ملبے پر بیٹھا قرآن پاک کی موجودہ صورتحال سے متعلقہ آیات کی تلاوت کر رہا ہے ۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ فلسطینی اپنی قوت ایمانی سے یہودیوں کے خلاف جہاد کر رہے ہیں۔ چار مسلمان ملکوں مصر، اردن ،شام اور ترکی کی سرحدیں غزہ اور اسرائیل کے ساتھ ملتی ہیںلیکن ان چاروں میں سے کسی ایک ملک کی حکومت معصوم بے یارومددگار فلسطینیوں کی مدد کرنے کو نہیں آئی۔ ہمارے محترم دوست اور ممتاز دانشور پروفیسر ڈاکٹر محمد باقر خاکوانی کا کہنا ہے کہ فلسطین میں حماس کے بزرگ وجوانوں کے حوصلے تو بلندہیں ہی کہ وہ تباہی اور غموں کے پہاڑ تلے دب کر بھی اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اس سے مدد مانگنے میں مصروف ہیں حیرت انگیز بات یہ ہے کہ وہاں کے بچے بھی تباھی دیکھ کر اپنے گھروں کے کھنڈرات پر بیٹھ کر تلاوت قرآن میں مصروف ہیں۔ایسی قوم کبھی شکست نہیں کھاسکتی۔اپنے ہی ٹوٹے گھروں کے ملبے پر بیٹھ کر یہ آیات تلاوت کرنا محض فہم کی پختگی کا ثبوت نہیں بلکہ مضبوط حوصلوں کی بھی دلیل ہے۔ اتنا آسان نہیں ہوتا جن گلیوں اور چوباروں میں انسان نے اپنا بچپن بتایا ہو اسی ملبے پر بیٹھ کر صبر و استقامت کی باتیں کرنا۔ اس بچے کے پیارے لہجے میں صبر و استقامت کے مفہوم والی یہ آیات اگر کوئی سمجھ پائے تو ہزاروں دروس سے بھاری ہیں۔افسوس ہم نے عملی طور پر ارض شام و فلسطین کے اپنے ان بھائیوں کو تنہا کر رکھا ہے ، وگرنہ یہ بہت پیارے لوگ تھے۔اور ہم تمہیں کچھ خوف اور بھوک اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کے نقصان سے ضرور آز مائیں گے، اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دو۔وہ لوگ کہ جب انہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو کہتے ہیں ہم تو اللہ کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔یہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے مہربانیاں ہیں اور رحمت، اور یہی لوگ کامیاب ہیں۔اسرائیل کی جانب سے مسلسل فلسطینیوں کی نسل کشی اور جنگی جرائم کا سلسلہ جاری ہے۔گزشتہ روز اسرائیل نے غزہ میں قیامت ڈھا دی۔ اسرائیلی طیاروں نے غزہ میں ایک ہسپتال پر بمباری کی جہاں فلسطینی پناہ مہاجر پناہ گزین تھے ہسپتال پر ہونے والے تازہ حملے میں 1000سے زائد فلسطینی شہید600سے زائد زخمی ہوگئے۔شہید ہونےوالوں میںہسپتال کا طبی عملہ، مریض اور پناہ لیے ہوئے عام شہری بھی شامل ہیں متعدد زخمیوں کی حالت تشویشناک ہے اور اموات میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔ اس سے قبل بھی اسرائیل کی جانب سے ہسپتالوں اور اسکولوں کو نشانہ بنایا جاچکا ہے۔سالوں سے ناکہ بندی کا شکار غزہ میں پہلے ہی صحت کی سہولیات کم ہیں اور حالیہ جنگ اور سخت ترین ناکہ بندی نے مریضوں کی مشکلات میں مزید اضافہ کردیا ہے، سپتالوں میں ادویات کی شدید قلت ہے اور بجلی نہ ہونے کے باعث متعدد اسپتالوں میں آپریشن تھیٹر غیر فعال ہوچکے ہیں۔ماہر تعلیم پروفیسر محمد باقر خاکوانی کہتے ہیں کہ اسرائیل سے 4 ممالک کی سرحدیں ملتی ہیں اردن، آبادی 63 لاکھ۔ شام آبادی 2 کروڑ 24 لاکھ، لبنان آبادی 44 لاکھ مصرآبادی 8 کروڑ 45 لاکھ اور غزہ سے صرف مصر کی 12 کلومیٹر کی سرحد ملتی ہےوہی مصر جہاں جنرل سیسی کی حکومت ہے جس کے قابض ہوتے ہی ہمارے مقدس اور محترم سعودیہ عرب نے انہیں اربوں ڈالرز کی امداد کی تھی اور اسرائیل کی کل آبادی 82 لاکھ ہے جو صرف پاکستان شہر کراچی کی آبادی کا 37 فی صد حصہ بنتی ہے۔ اسرائیل کے پڑوسی ممالک کے مسلمانوں کی 11 کروڑ 76 لاکھ ہے جس کی نسبت اسرائیل کی آبادی 7 فیصد بنتی ہے ۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ 100 مسلمانوں کے حصے میں 7 یہودی آتے ہیں۔اس کے باوجود ہم مسلمان اتنے کمزور ہو چکے ہیں کہ صرف بد دعاو¿ں اور مذمت سے ہی کام چلا رہے ہیںاگر 313 کے جیسا ایمان نہ ہو تو 57 ممالک کا اتحاد بھی کچھ نہیں کرسکتا۔