عرفات وہ مقام ہے جہاں حضرت آدم علیہ السلام اور بی بی حوا ؑ ملے تھے اور عرفات کے معنی پہچان ہے۔9ذوالحجہ 10ہجری یعنی 6 مارچ 632 ءکو سرور کائنات صلی اللہ علیہ واَلہ وسلم نے جبلِ عرفات کے مقام پر خطاب کیا اور یہ خطاب اسلامی تعلیمات کا نچوڑ ہے۔ یہ 10ہجری کو نبی کریم صلی اللہ علیہ واَلہ وسلم کا پہلا اور آخری حج تھا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ واَلہ وسلم نے زندگی میں صرف ایک حج کیالہذ ا مسلمانوں کو بھی ایک حج لازمی کرنا چاہیے، جن کے پاس زیادہ مرتبہ حج کرنے کی استطاعت ہے، ان کو چاہیے کہ وہ انہی رقوم سے کسی اور مسلمان کو حج پر بھیج دیں یا انسانیت کی بھلائی کےلئے کوئی کام کریں جو ان کے لئے صدقہ جاریہ ہو۔حضورکریم صلی اللہ علیہ واَلہ وسلم کے اس خطاب کو خطبہ حج الوداع بھی کہتے ہیں کیونکہ یہ سرور کونین صلی اللہ علیہ واَلہ وسلم کا آخری حج تھا اور مسلمانوں سے آخری اجتماعی ملاقات اور خطاب بھی تھا۔اس موقع پر کم وبیش سواایک لاکھ صحابہ کرام موجود تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واَلہ وسلم کا خطبہ حج الوداع اسلام کے سیاسی ، سماجی اور تمدنی اصولوں کا جامع مرقع ہے۔حضورکریم صلی اللہ علیہ واَلہ وسلم نے اپنے خطاب میں مساواتِ انسانی کا تصور اس طرح پیش کیا کہ لوگو! اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ” اے انسانو!ہم نے تم سب کو ایک ہی مرد و عورت سے پیدا کیا اور تمہیں گروہوںاور قبیلوں میں بانٹ دیا تاکہ تم الگ الگ پہنچانے جاسکو،تم میں سے عزت و احترام والا خدا کی نظر وں میں وہی ہے جو خدا سے زیادہ ڈرنے والا ہے۔” اس کے مطابق نہ کسی عربی کو عجمی پر اور نہ کسی عجمی کو عربی پر، نہ کالے کو گورے پر اور نہ کسی گورے کو کالے پربرتری ہے اور نہ کوئی کسی سے افضل ہے، البتہ بزرگی اور فضیلت کا معیار صرف تقویٰ ہے۔سب انسان آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے بنائے گئے،اب فضلیت وبرتری کے تمام دعوے، خون و مال کے سارے مطالبے اور سارے انتقام میرے پاﺅں تلے روندے جاچکے ہیں ۔خود احتسابی کے بارے میںحضور کریم صلی اللہ علیہ واَلہ وسلم نے فرمایا کہ قریش کے لوگو!ایسا نہ ہوکہ اللہ کے حضور تم اس طرح آﺅ کہ تمہاری گردنوں پر تو دنیا کا بوجھ ہو اور دوسرے لوگ سامان آخرت لیکر پہنچیں اور اگر ایسا ہوا تو میں اللہ کے سامنے تمہارے کچھ کام نہ آسکوں گا۔ زیست کے حق کے بارے میں فرمایا کہ لوگو!تمہارے خون و مال اور عزتیں ہمیشہ ایک دوسرے پر قطعاً حرام کردی گئی ہیں ۔ان چیز وں کی اہمیت ایسی ہی ہے جیسے اس دن ، اس ماہ اور اس شہر کی ہے۔تم سب خدا کے حضور پیش ہونگے اور وہ تم سے تمہارے اعمال کے بارے پوچھیں گے۔اگر کسی کے پاس امانت رکھوائی جائے تو وہ اس بات کا پابند ہے کہ امانت رکھوانے والے کو امانت پہنچا دے۔معاشرے کے افراد کے بارے میں فرمایا کہ لوگو!ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور سارے مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ واَلہ وسلم نے خادموں کے حقوق کے بارے میں فرمایاکہ اپنے غلاموں کا خیال رکھو، ہاں غلاموں کا خیال رکھو،انہیں وہی کھلاﺅ جو خود کھاتے ہو،ایسا ہی پہناﺅ جو خود پہنتے ہو۔ حضور کریم صلی اللہ علیہ واَلہ وسلم نے معاشی استحصال سے تحفظ کے حق کے بارے ارشاد فرمایا کہ اب دور جاہلیت کا سود کوئی حیثیت نہیں رکھتا ، پہلا سود جسے میں چھوڑتا ہوں ، عباس بن عبدالمطلب کے خاندان کا سود ہے ،اب یہ ختم ہوگیا۔تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ واَلہ وسلم نے وراثت کے حق کے بارے میں فرمایا : لوگو! اللہ تعالیٰ نے ہر حق دار کو اس کا حق خود دے دیا ،اب کوئی کسی وارث کے حق کےلئے وصیت نہ کرے۔ ملکیت کے حق کے بارے میں سرورکونین صلی اللہ علیہ واَلہ وسلم نے فرمایا کہ کسی کےلئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی سے کچھ لے ،سوائے اس کے جس پر اس کا بھائی راضی ہو اور خوشی خوشی دے۔خود پر اور ایک دوسرے پر زیادتی نہ کرو۔آپ صلی اللہ علیہ واَلہ وسلم نے قرض کی وصولی کے حق کے بارے فرمایا کہ قرض قابل ادائیگی ہے ، مستعارلی ہوئی چیز واپس کرنی چاہیے ،تحفے کا بدلہ دینا چاہیے اور جو کوئی کسی کا ضامن بنے ،وہ تاوان ادا کرے ۔ آپ صلی اللہ علیہ واَلہ وسلم نے معاشرتی حق کے بارے میں فرمایا کہ جو کوئی اپنا نسب بدلے گا یا کوئی غلام اپنے آقا کے مقابلے میں کسی اور کو اپنا آقا ظاہر کرے گا تو اس پر خدا کی لعنت ہوگی ۔ نومولود کے نسب کے تحفظ کے حق کے بارے میں فرمایا کہ بچہ اس کی طرف منسوب کیا جائے گا جس کے بستر پر وہ پیدا ہوا،جس پر حرام کاری ثابت ہو ،اس کی سزا پتھر ہے اور ان کا حساب و کتاب خدا کے ہاں ہوگا۔ خاوند اور بیوی کے باہمی حقوق کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ واَلہ وسلم نے فرمایاکہ عورت کےلئے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے شوہر کا مال اس کی اجازت کے بغیر کسی کو دے۔ دیکھوتمہارے اوپر تمہاری عورتوں کے کچھ حقوق ہیں۔اسی طرح ان پر تمہارے حقوق واجب ہیں ۔عورتوں پر تمہارا یہ حق ہے کہ وہ اپنے پاس کسی ایسے شخص کو نہ بلائیں جسے تم پسند نہیں کرتے اور وہ کوئی خیانت نہ کریں،کوئی کام کھلی بے حیائی کا نہ کریں اور اگر وہ ایسا کریں تو خدا کی جانب سے اجازت ہے کہ تم ان کے بستر الگ کردو اور تم انہیں معمولی سزا دو اور اگر وہ باز آجائیں تو انہیں اچھی طرح کھلاﺅ اور پہناﺅ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ واَلہ وسلم نے خواتین کے حقوق کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ عورتوں سے بہتر سلوک کرو ۔ چنانچہ ان کے بارے میں خدا کا لحاظ رکھو کہ تم نے انہیں خدا کے نام پر حاصل کیا اور اسی کے نام پر وہ تمہارے لیے حلال ہوئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ واَلہ وسلم نے فرمایا کہ خبردار! اب مجرم خود ہی اپنے جرم کا ذمہ دار ہوگا۔اب نہ باپ کے بدلے بیٹا پکڑا جائے گا اور نہ بیٹے کا بدلہ باپ سے لیا جائے گا۔ اعتدال اور میانہ روی کی ہدایت کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ واَلہ وسلم نے فرمایا کہ لوگو! میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گااور تمہارے بعد کوئی امت نہیں ہوگی۔میں تمہارے درمیان ایسی چیز چھوڑ رہا ہوںکہ اگر تم اس پر قائم رہے تو کھبی گمراہ نہ ہونگے اور وہ اللہ کی کتاب اور میری سنت ہے۔ہاں دیکھو!دینی معاملات میں غُلو سے بچنا کہ تم سے پہلے لوگ انہی باتوں کی وجہ سے ہلاک کردیے گئے۔قارئین کرام!نبی کریم صلی اللہ علیہ واَلہ وسلم سے محبت ایمان کی شرط ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ واَلہ وسلم سے محبت کا تقاضا ہے کہ ہمارے گفتار اور اعمال سے عیاں ہو کہ ہم صلی اللہ علیہ واَلہ وسلم سے محبت کرتے ہیں۔حضور صلی اللہ علیہ واَلہ وسلم نے 6مارچ632ءبمطابق 9 ذوالحجہ 10ہجری کو انسانی جان ، مال ، عزت و آبرو ،ملکیت ، عزت نفس ،منصب کے تحفظ کا حق، اولاد کاتحفظ ، امانت کی ادائیگی ، قرض کی واپسی ، جائیدادکے تحفظ کا حق،سود کے خاتمے ، پُرامن زندگی اور بقائے باہمی کا حق ، انسانی جان کا تحفظ، قصاص و دیت ، غلاموں کے حقوق ، عورتوں کے حقوق، قانونی مساوات کا حق ، نسلی تفاخر اور طبقاتی تقسیم کے خاتمے کا اعلان کیا ۔اس سے قبل اسی طرح انسانی حقوق کا منشورکسی نے پیش نہیں کیا اور نہ ہی ایسے قوانین اورواضح ہداہات کہیں موجود تھیں یعنی حضور کریم صلی اللہ علیہ واَلہ وسلم نے خطہ حجتہ الوداع میںانسانی حقوق کا اولین منشورپیش کیا جس سے قیامت تک انسان مستفید ہونگے،انشاءاللہ العزیز۔