ساری دنیا میں بڑے بڑے محققین یہ بات مانتے ہیں کہ دنیا کے اندر موجود مذہبوں میں اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس کی تعلیمات منفرد، اس کی گرفت نہایت مضبوط، اس کی انسانیت نوازی ممتاز، اس کا عدل قابل تقلید ، اس کی فکراور اس کا نظریہ بالکل صاف وشفاف،اس کی ہر بات حقائق وصداقت کی عکاسی کرنے والی اور اس کا پورا نظام نہایت متوازن ہے جس میں کہیںجھول نہیں اور اس میں نہ بے جا شدت ہے اور نہ بگاڑ وخرابی پیدا کرنے والی نرمی۔ اسلامی نظریہ ہی دنیا کے سارے نظریوں پر غالب ہے، اس کے اندر روحانیت بھی ہے اور مادیت بھی، اس کے اندر سچائی ہے جس میں ظاہری ملمع سازی نہیں۔ اسلام ہی انسانیت کا نجات دہندہ دین ہے۔ ماضی میں بھی دین اسلام کے انبیاءؑ نے فرائین و نمرودوں کے مظالم سے انسانیت کونجات دلائی اوراب بھی حالیہ انسانیت سوزمظالم سے فرزندان توحیدسے ہی قبیلہ بنی آدم کوباد نسیم میسرآئے گی ۔ابن خلدون نے ریاست کی تین اقسام بتائی ہیں ، خلافت ، ملوکیت اور مطلق العنان بادشاہت ہرمذہب کے پروہتوں نے اصل تعلیمات کوبدل ڈالا اور مذہبی اشرافیہ نے اپنے لیے مراعات تراش لیں اورعوام کوقربانی کابکراسمجھا۔ انہوں نے ہندو مت ، عیسائیت اور زرتشت مجوسیوں کی کتب سے تحریفات کی بہت سی مثالیں پیش کیں جن کے مطابق مذہبی وڈیروں نے سارے استحقاق اپنے لئے سمیٹے ہوئے تھے ۔ انسانی تہذیب کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنا خود انسان ہے۔ کسی بھی تہذیب کا تعلق کسی خاص خطہ ارضی یا کسی خاص نسلِ انسانی سے نہیں ہوتا؛ بلکہ وہ دنیا کی تمام نسلوں کو محیط ہوتی ہے؛ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں ظہور پذیر ہونےوالی ہر قوم تہذیب وتمدن کے باب میں کچھ نہ کچھ صفحات رقم کرتی ہے، گو بعض تہذیبیں اپنی ٹھوس بنیادوں کی بناءپر دیگر تہذیبوں سے ممتاز ہوجاتی ہیں اور واقعہ یہ ہے کہ ہر وہ تہذیب جس کا پیغام عالم گیر ہو،جس کا خمیر انسانیت نوازی پر اٹھا ہو، جس کی ہدایات وتوجیہات اخلاقی قدروں کی پاسداری کرنے والی ہوں اور جس کے اصول وضوابط حقیقت پسندی پر مبنی ہوں؛ تاریخ میں ایسی تہذیب کو بقائے دوام حاصل ہوتا ہے، اور ہر زمانے میں اسے قدر کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے ۔ اسلام کے ظہور کے وقت عالمی منظر نامے کو گھٹا ٹوپ اندھیروں نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا ۔ تہذیبی اور ثقافتی انحطاط ابنِ آدم کا مقدر بن چکا تھا۔ مجلسی زندگی شائستگی اور سنجیدگی کے اوصاف حمیدہ سے یکسر محروم ہو چکی تھی۔ مصطفوی انقلاب کا سورج طلوع ہوا تو تہذیبی ، ثقافتی اور مجلسی سطح پر بھی انقلاب آفریں تہذیب کا آغاز ہوا کیونکہ صدیوں کی انسانی تہذیبی آرزو اب تعبیر آشنا ہو رہی تھی ۔ آنےوالے زمانے میں مسلمانوں نے بھی دعوت کے کام کو آگے بڑھایا اور دنیا کے دور دراز گوشوں میں ہدایت آسمانی کے نور کو پھیلایا اور پوری دنیا میں دعوت کا یہ کام انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر مطلوبہ نتائج حاصل کرنے لگا۔ دنیا کے کچلے ہوئے انسانوں کےلئے اسلامی تعلیمات میں بڑی کشش تھی، وہ جوق در جوق دائرہ اسلام میں داخل ہونے لگے، مسلمان جہاں گئے اپنی توانا ثقافتی روایات اپنے ساتھ لے کر گئے۔ جہاں بھی تہذیبوں کا آمنا سامنا ہوا، اسلامی تہذیب اپنی تخلیقی توانائیوں کی بدولت قدیم تہذیبوں پر نہ صرف غالب رہی بلکہ واحد عالمی تہذیب کے طور پر سامنے آئی۔اسلام کی اس سچائی اور عظمت شان کی وجہ یہ ہے کہ اس کا پیغام اور اس کا انداز ِفکر انسانوں تک دنیا کے مفکر ین وعقلاءکے واسطہ سے ،دنیا کے قانون دانوں اور حقوق کی آواز بلند کرنے والے انسانوں کے ذریعہ یا فلاسفہ وخیالی تانے بانے جوڑنے والوں یا سیاسی قائدین ورہنماﺅں کے ذریعہ یا سماجی کارکنوں اور تجربات سے گزرنے والے ماہر نفسیات کی جانب سے نہیں پہنچا بلکہ نبیوں اور رسولوں کے واسطہ سے پہنچا ہے جن کے پاس اللہ تعالیٰ کی جانب سے وحی آتی تھی۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ « بیشک آپ کو اللہ حکیم وعلیم کی طرف سے قرآن سکھایا جارہا ہے۔ “ (النمل6) آج امت کی زبوں حالی کی سب سے بڑی اور بنیادی وجہ اشرافیہ کی غفلت، نادانی، عیاشی اور ملت فراموشی ہی ہے۔ جہاں تک متوسط و نادار طبقے کا تعلق ہے تو یہ بے چارے کسی طرح دو وقت کی روٹی کما کر باعزت زندگی گزارنے کی کوشش کر رہے ہیں اور حتیٰ الامکان اپنے معاملات کو اسلامی نہج پر ڈھالنے کا خیال بھی رکھتے ہیں۔ انہیں نہ تو بڑے بڑے مذہبی فلسفوں سے غرض ہے نہ دین کے مقابلے میں دولت کا گھمنڈ، نہ ہی سیاست کے نام پر دین و ملت کی سودا گری کا ڈھنگ۔ اسلام کا سب سے بہتر گروہ عام مسلمان ہیں ،یعنی مسلمان عوام۔ وہ اسلام سے متعلق بحیثیت دین اور فلسفہ کے بہت کم جانتے ہیں اور ان کی بہت سی چیزیں اسلام سے مطابقت نہیں رکھتیں، لیکن وہ ایک قابلِ شناخت اسلامی زندگی گزارتے ہیں ،جس کا سبب ان کا اسلام پر پختہ یقین ہے۔
کالم
اسلام کی سچائی اور عظمت
- by Daily Pakistan
- جون 25, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 1154 Views
- 1 سال ago