مہذب اور پرامن معاشروں کی بنیاد انسانی احترام، قانون کی حکمرانی اور شہری تحفظ پر قائم ہوتی ہے۔ جہاں انسانیت کا چراغ روشن رہتا ہے وہاں اسلحہ اور غنڈہ گردی کی تاریکی کو پنپنے کی گنجائش نہیں ملتی۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتا جب تک اُس کی گلیاں خوف سے آزاد، اور اس کے شہری اعتماد کے ساتھ اپنے معمولات زندگی انجام نہ دے رہے ہوں۔ اسلحہ دراصل طاقت کے غلط مظاہرے کا ذریعہ بن کر کمزور طبقات کا استحصال کرتا ہے، جبکہ غنڈہ گردی سماجی ڈھانچے میں دراڑیں ڈال کر انصاف کے نظام کو کمزور کر دیتی ہے ۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں اسلحہ کا بڑھتا ہوا رجحان نہ صرف جرائم کو تقویت دے رہا ہے بلکہ نوجوان نسل کے ذہنوں میں طاقت کا غلط تصور بھی پیدا کر رہا ہے۔ ایسے ماحول میں انسانیت دم توڑنے لگتی ہے، برداشت کا مادہ ختم ہو جاتا ہے اور ظلم و جبر کے راستے ہموار ہونے لگتے ہیں۔ معاشرہ حقیقی معنوں میں ترقی اور تحفظ چاہتا ہے تو لازمی ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اسلحہ کلچر کے خلاف موثر اقدامات کریں، اور عوام بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے ایسے عناصر سے لاتعلقی اختیار کریں۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں مکالمہ بندوق کی آواز سے بلند ہو اور انصاف دھمکی سے بالاتر ہو، یقیناً مثالی اور قابلِ تقلید معاشرہ کہلاتا ہے۔اسلحہ سے پاک ماحول نہ صرف پُرامن معاشرے کی علامت ہے بلکہ یہ شہریوں کے ذہنی سکون، معاشرتی ہم آہنگی اور معاشی ترقی کے بنیادی عناصر میں شامل ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کی جانب سے صوبے میں غیر قانونی اسلحے کے خاتمے کیلئے جو جارحانہ اور دوٹوک پالیسی سامنے آئی ہے، وہ قابل تحسین ہونے کے ساتھ پاکستانی معاشرے کے حساس ترین مسئلے کو جڑ سے اکھاڑپھینکنے کی کوشش ہے۔ پنجاب کی تاریخ دشمنیوں، ہوائی فائرنگ، ہتھیاروں کی نمائش اور طاقت کے غلط استعمال جیسے مسائل سے دوچار رہی ہے۔ یہ وہ عوامل ہیں جنہوں نے نسلوں تک خوف کا ماحول پیدا کیا اور معمول کی زندگی میں عدم تحفظ کی فضا کو پروان چڑھایا۔پُرسکون معاشرے کیلئے ضروری ہے کہ ریاست کی رٹ مضبوط ہو اور ہر شہری کو قانون کے سامنے برابر سمجھا جائے۔ حکومت کی جانب سے غیر قانونی اسلحہ جمع کروانے کیلئے دی گئی 15 روزہ مہلت ایک واضح پیغام ہے کہ اب کسی کو بھی اسلحہ کلچر کیلئے کوئی جواز پیش کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ایسے اقدامات عام آدمی میں اعتماد بحال کرتے ہیں، جب ریاست کمزور دکھائی دے تو جرائم پیشہ عناصر مضبوط ہوتے ہیں اور معاشرہ بدامنی کی طرف مائل ہوتا ہے۔اسلحے سے پاک ماحول کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ لوگوں کے دلوں سے خوف ختم ہوتا ہے۔اسلحہ کی موجودگی میں گلی محلوں میں معمولی رنجشیں بھی طوفان میں بدلنے کا سبب بن جاتی ہے۔ ہوائی فائرنگ کی آوازیں نہ صرف بچوں اور خواتین میں خوف پیدا کرتی تھیں بلکہ یہ رویے غنڈہ گردی کو فروغ دیتے ہیں۔ ایسے عناصر کے خلاف سخت کریک ڈاؤن جاری رہا اور سکیورٹی ادارے قانون کی یکساں عملداری یقینی بناتے رہے تو آنے والا دور نوجوان نسل کیلئے زیادہ محفوظ اور مثبت ہو سکتا ہے۔مریم نواز شریف کا جرائم پیشہ عناصر کے خلاف سخت رویہ اس امر کی گواہی دیتا ہے کہ حکومت سیاسی مصلحتوں کے بجائے عوام کے مفاد میں فیصلے کر رہی ہے۔ پنجاب میں دشمنیوں کی بنیادیں پرانی خاندانی رنجشوں کی شکل میں مضبوط ہو چکی ہیں۔ حکومت کی کوشش ہے کہ ان دشمنیوں کو صلح میں بدلا جائے تاکہ خون خرابہ اور نسل در نسل کشیدگی کا سلسلہ ہمیشہ کیلئے ختم ہو۔ ایسے فیصلے نہ صرف جانوں کی حفاظت کا ذریعہ بنتے ہیں بلکہ معاشرے میں برداشت، مفاہمت اور بھائی چارے کے فروغ کا راستہ بھی ہموار کرتے ہیں۔اسلحہ کلچر کے خاتمے سے معاشرتی رویوں میں نرمی پیدا ہوتی ہے۔ طاقت کے بل بوتے پر فیصلے کرنے کا کلچر ختم ہوتا ہے۔ جب طاقت کا مرکز ہتھیار نہ ہو بلکہ قانون ہو تو لوگ منطقی گفتگو اور انصاف پر اعتماد کرتے ہیں۔ یہی وہ اصول ہیں جن پر جدید اور مہذب معاشرے کھڑے ہوتے ہیں۔ اسلحہ کے زور پر اثر و رسوخ قائم رکھنے والے عناصر ہمیشہ کمزور طبقات کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ پرسکون معاشرے میں کاروباری سرگرمیاں بھی تیزی سے بڑھتی ہیں۔ سرمایہ کار صرف اسی جگہ سرمایہ لگاتے ہیں جہاں امن ہو۔ پولیس اور حکومت کے اقدامات کے ثمرات معاشی ترقی کی صورت میں بھی سامنے آ سکتے ہیں،کیونکہ جرم سے پاک ماحول میں لوگ کاروبار بڑھاتے ہیں، سرمایہ کاری بڑھتی ہے اور روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ اسی طرح تعلیمی اداروں کا ماحول بھی محفوظ ہو جاتا ہے،کیونکہ اکثر اسکولوں اور کالجوں کے باہر اسلحہ بردار عناصر کی موجودگی طلبہ میں خوف اور ذہنی دباؤ کا باعث بنتی ہے۔وزیر اعلیٰ پنجاب کے سخت رویے سے ایک اور مثبت پہلو سامنے آیا ہے کہ جرائم پیشہ عناصر اور اسلحہ کلچر سے فائدہ اٹھانے والے گروہ دفاعی پوزیشن پر آجائیں گے۔ جرائم پیشہ عناصراس بات سے باخبر ہو چکے ہیں کہ اب حکومت نرم دل، معذرت خواہانہ پالیسی یا ثالثی کے وعدوں پر انحصار نہیں کرے گی، بلکہ قانون پوری سختی سے اپنا راستہ بنائے گا۔ ایسے اقدامات سے نہ صرف فوری نتائج سامنے آئیں گے بلکہ طویل المدتی طور پر ایک مستحکم اور پُرامن معاشرہ قائم یاجائے گا۔اسلحہ سے پاک پنجاب کا خواب اس وقت حقیقت بن سکتا ہے جب ریاست اپنی پالیسیوں پر غیر متزلزل رہتے ہوئے سیاسی دباؤ کو خاطر میں نہ لائے۔ ایسے معاشرے میں ہر فرد بلا خوف و خطر اپنی روزمرہ زندگی گزار سکے گا۔بچے سکون سے کھیلیں گے، کاروباری افراد اعتماد کے ساتھ سرمایہ کاری کریں گے اور نوجوان اپنی قوت تعمیر و ترقی میں صرف کریں گے۔ یہ ویژن اسی قوت سے جاری رہا تو پنجاب نہ صرف پاکستان بلکہ خطے کے دیگرملکوںکیلئے بھی ایک روشن مثال بن جائے گا۔

