میرے پاس دو اسلحہ لائسنس تھے۔ ایک وہ جو میری بے لوث خدمات کے اعتراف میں سن 80 کی دہائی میں اسوقت کے مشہور و معروف ڈپٹی کمشنر میانوالی میجر ریٹائرڈ ضیا الحق نے بغیر کسی اضافی فیس چارج کئے میرے نام جاری کرنے کا حکم دیا تھا، دوسرا جب میری پوسٹنگ ضلعی عدلیہ راولپنڈی میں تھی، وہاں سے بھی میں نے ایک لائسنس جاری کروایا تھا۔ یہ لائسنس ایک بارہ بور گن اور دوسرا تیس بور پسٹل کے تھے۔ عشروں، بروقت میں انکی تجدید کرواتا رہا اور جو بھی رینیوئل فیس بنتی اکٹھی دو تین سال کی کروا دیتا۔ لاکھوں روپے خزانہ سرکار میں یقینا جمع کروائے ہوں گے لیکن زندگی بھر ہر دو ہتھیاروں میں سے کسی ایک کے استعمال کی بھی نوبت یا ضرورت ہی پڑی ماسوائے ایک دفعہ جب ایک بڑے سائز کے سانپ پر فائر کیے تھے جب وہ گھروں کے اندر آ چکا تھابلکہ اگر یہ بھی کہہ دوں کہ ایک ہتھیار جب سے خریدا جوں کا توں ہی پڑا ہے تو بے جا نہ ہو گا کیونکہ اس سے یقینا ایک کارتوس تک آج تک نہیں چلایا۔ شکار کا مجھے ویسے ہی شوق نہیں اوپر سے اتنے برے حالات جبکہ گزشتہ عشروں سے لااینڈ آرڈر کی صورت حال انتہائی سنگین چلی آ رہی ہے کبھی بھی اسلحہ ساتھ لے کر چلنا میں نے مناسب ہی نہ سمجھا۔ ہاں ایک ذاتی ذمہ داری کے طور پر کسی نہ کسی طرح ان ہتھیاروں کو الماریوں اپنے گھر کے دیگر حصوں میں سنبھالتا رہا تاکہ کوئی ان دیکھا سانحہ نہ ہو جائے لیکن ہمیشہ پوری سالانہ فیس کی ادائیگی کرنا کبھی نہ بھولا۔ بلکہ تجدید کی تواریخ اپنی ڈائری میں نوٹ کر کے رکھتا اور اس پر ہمیشہ عمل پیرا رہا، لیکن مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ موجودہ پنجاب گورنمنٹ کی اسلحہ لائسنس کی بے تکی بلکہ انوکھی پالیسی کے بعد جب اچانک اسلحہ کے حصول اور اسکی سالانہ فیسوں میں غیر معمولی اضافہ کر دیا گیا ہے۔ یعنی جس لائسنس کی محض ایک ہزار روپے سالانہ فیس تھی اسے اچانک پانچ ہزار کر دیا گیا اور سیدھے سادے ڈاکخانہ سسٹم کے اسے آو¿ٹ سورس کر کے سارا نظام اب ٹھیکیداروں کے حوالے کر دیا گیا ہے جو بالکل ناجائز سروس چارجزکے نام پر فی لائسنس ستائیس سو روپے اضافی بھتہ وصول کرتے ہیں، یعنی فی لائسنس ساڑھے سات ہزار سالانہ ،جبکہ ڈاکخانہ فالتو ایک پیسہ بھی نہیں لیتا تھا۔ اور محض ایک ہزار کی ادائیگی پر ایک سال کی تجدید باآسانی ہو جاتی۔ لہذا اس بے تکی اور غیر منطقی تبدیلی نے بالآخر مجھ جیسے سفید پوش شہری کو از خود نہتا ہونے پر مجبور کر دیا ہے۔ ہو سکتا ہے میں ان ہتھیاروں کے لائسنز کی تجدید کروانے کی مالی حیثیت رکھتا ہوں گا لیکن بطور احتجاج اس ناانصافی پر گورنمنٹ آف پنجاب کو میں نے اس دفعہ چٹھی لکھ کر مطلعِ کر دیا ہے کہ میں اس ناجائر اور بلاجواز اضافے پر آج کے بعد اپنے اسلحہ لائسنز کی تجدید نہیں کروا رہا، انہیں برائے مہربانی کینسل کر دیا جائے اور امید کرتا ہوں کہ پنجاب کے ایک ذمہ دار شہری ہونے کے ناطے یہ گورنمنٹ میری ذات، فیملی اور میری جائیداد کو مکمل تحفظ فراہم کرتی رہے گی جو کہ میرا قانونی اور آئینی حق ہے۔ چھٹی کی کاپیاں متعلقہ حکام کو بھی بھجوا دی گئی ہیں، لیکن آج تین چار ماہ ہونے کو ہیں،جواب ندارد؟ فائل یا چٹھی یا تو گم ہو چکی ہو گی یا زیادہ سے ذیادہ کسی بابو کے ٹیبل کے کسی کونے کھدرے میں کسی نئے نقطے کسی انوکھے اعتراض لگانے پر پڑی ہو گی۔ بحرحال دیکھتے ہیں اس پر ایکشن کیا ہوتا ہے؟ اسلحہ یا ہتھیاروں کے چلے جانے کا مجھے قطعی افسوس نہیں، میں ذاتی طور پر ایک نرم دل یا کہہ لیں بزدل انسان ہوں۔انسان، بندہ یا کسی اور زندہ چیز پر فائر تو دور کی بات میں کپڑوں پر چڑھی چیونٹی کو بھی آرام سے اتار دیتا ہوں بجائے اسے بری طرح مسلنے کے۔ میں نے زندگی بھر اس اسلحے کے غرور یہ بھی طے کر لیا تھا کہ خدانخواستہ اگر کبھی کسی پر گولی چلانی ہی پڑی تو صرف گٹھنوں سے نیچے نیچے، لیکن شکر خدا کا، پنجاب گورنمنٹ کی لاجواب مہربانی پر میں اس امتحان سے بھی بچ گیا۔ ہاں اگر کبھی بدقسمتی سے اب کوئی بھی درندہ یا کوئی پاگل مہم جو اب مجھ پر چڑھ بھی دوڑا تو اس ڈاکو صاحب کی اب یہ اپنی پسند ناپسند ہو گی کہ آپ جناب میرا کہاں کا نشانہ لیتے ہیں، ظاہر ہے اسے اس نہتے سے اب کیا خوف ہو گا نہ میرے پاس کسی قسم کے خطرناک ہتھیار کا دھڑکا۔ ویسے بھی آج کل بھائی لوگوںبندوق برداروںکا ہی راج ہے، جب چاہیں جہاں چاہیںکسی کا کسی وقت شغلاًیا ضرورتاً نشانہ لے بھی سکتے اور بنا بھی سکتے ہیں۔ قارئین کرام گورنمنٹ آف پنجاب میری چھٹی پر کیا عمل کرتی ہے یا کیا ری ایکشن دکھاتی ہے اسکا تو مجھے انتظار ہی ہے لیکن جیسے اوپر لکھا ہے کہ ایک لائسنس کے چلے جانے کا مجھے ہمیشہ دلی افسوس رہے گا جو مجھے میانوالی کے اسوقت کے ڈی سی نے میری کچھ خدمات کے اعتراف میں جاری کیا تھا جبکہ حصول اسلحہ لائسنس انتہائی آسان ہونے کے نہایت ہی کٹھن ہوتا تھا۔ اسکی تفصیلات کچھ یوں ہیں کہ میجر ریٹائرڈ ضیا الحق ڈپٹی کمشنر میانوالی تعینات تھے۔ اوپر بھی جنرل ضیا الحق کی حکومت تھی۔میانوالی ضلع پرانی دشمنیوں اور انتقامی قتل و غارتگری میں بھی جانا پہچانا جاتا تھا اورہر آدمی ہتھیار رکھتا تھا۔ ہتھیار رکھنا بلکہ یہ کہنا مناسب ہو گا کہ ہر شہری کی ضرورت تھی۔ان دنوں اسلحہ لائسنس روزانہ کی بنیاد پر جاری ہوتے لیکن ڈپٹی کمشنر جو ایک نہایت ہی سماجی خیالات رکھنے والے ایک منفرد آفیسر تھے میانوالی شہر کو انہوں نے اپنے مخصوص احکامات کے تحت چار چاند لگا دئیے تھے، جگہ جگہ روشنیاں اور فوارے چلتے رہتے اور میانوالی کے اسوقت کے لوگ انکی خدمات کو کبھی بھی نہ بھول سکیں گے۔ ان دنوں جو بھی لائسنس کا طلبگار ہوتا، ڈی سی اسے خود سنتے، پھر پوچھتے ۔ درخواست گزار نے پبلک کیلئے کبھی کوءخدمت یا کوئی اچھوتا قدم اٹھایا ہے؟ یوں آپ کسی کو ضلع بھر کے دور دراز اسکولوں میں پنکھے لگانے، پینے کے پانی کے انتظامات کرانے یا اگر کوئی مالی طور پر کچھ بھی کرنیکے قابل نہ ہوتا تو اسے ایک بوتل خون کے عطیئے کاکہتے اور تب جا کر اسلحہ لائسنس جاری ہوتا۔ گویا اسلحے کے حصول کی کم از کم خدمت ایک بوتل خون جو مستحق مریضوں کو مفت لگایا جاتا تھا۔ سرکاری فیس اسکے علاوہ تھی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے ان دنوں ایک ضلعی دستاویز جسکا نام غالباً ڈسٹرکٹ وار بک تھا اسکی کمپوزنگ میں مشکلات پیش آ رہیں تھیں۔ پورے ضلع میں کوئی ایک بھی موجود نہ تھا جو ایک درمیانے درجے کی ضغیم کتاب بالکل ایک پتلے کاغذ کے پنے پر کمپوز کر سکے جسے بعد میں پرنٹنگ پریس میں چربہ سازی کر کے چھپوایا جا سکے۔ ڈی سی صاحب کے پی ایس ملک خدا بخش میرے پاس آئے۔ مدعا بیان کیا، جسے بالآخر میں نے وہ کر دکھایا جو انہیں درکار تھا۔ جب معاوضہ کا اصرار کیا تو میرے انکار پر ضلعی انتظامیہ نے فیصلہ کیا کہ میری مفت خدمات کے اعتراف میں مجھے ایک بلا معاوضہ اسلحہ لائسنس جاری کیا جائے۔ ڈی سی نے مجھے خود بلا کر یہ اسلحہ لائسنس جاری کروایا، جو اب اسی گورنمنٹ کی نااہل اور نکمی پالیسیوں کی وجہ سے میں سرنڈر کرنے پر مجبور ہوں جسکا جیسے اوپر خدشہ ظاہر کر چکا ہوں مجھے ہمیشہ دلی افسوس رہے گا۔