ایک جانب غیر جانبدار معاشی حلقوں نے اس امر کو حیرت انگیز حد تک خوش آئند قرار دیا ہے کہ پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے 100 انڈیکس نے نئی تاریخ رقم کر ایک لاکھ پوائنٹس کی سطح عبور کرلی ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں کاروبار کے آغاز پر ہی تیزی دیکھنے میں آئی اور 100 انڈیکس نے بلند ترین سطح ایک لاکھ 540 پوائنٹس کو چھوا اورکاروبار کے اختتام پر 100 انڈیکس مجموعی طور پر 813 پوائنٹس اضافے سے ایک لاکھ 82 پوائنٹس پر بند ہوا۔یاد رہے کہ پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے 100 انڈیکس نے 17 ماہ میں 40 ہزار پوائنٹس سے ایک لاکھ پوائنٹس کا تاریخی سنگ میل عبور کیا ہے۔معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ بلاشبہ یہ بہت بڑا معاشی کارنامہ ہے۔کیوں کہ 17 ماہ پہلے جب لوگ پاکستان کے دیوالیہ ہونے کی باتیں کر رہے تھے، پاکستان کو بنانا ری پبلک اور ایک فیل ملک قرار دے رہے تھے، اس ملک کی مارکیٹ نے 150 فیصد کا ریٹرن دیا ہے جو پاکستان کی تاریخ بلکہ دنیا بھرکی اسٹاک مارکیٹ کی تاریخ کی واحد مثال ہے کہ ایک ملک دیوالیہ ہونے کے دہانے سے اتنا اچھا ریکور کر گئی ہے ۔ دوسری طرف مبصرین کے مطابق درحقیقت پاکستان کے ازلی مخالفین گذشتہ 77 برس سے وطن عزیز کے خلاف منظم مہم چھیڑے ہوئے ہیں اور اس کے پس پردہ نہ صرف بھارت اور اسرائیل کے حکومتی طبقات ہے بلکہ امریکہ اور یورپ کے کچھ حلقے بھی اس مکروہ مہم میں حصہ بقدر جثہ ڈال رہے ہیں۔ عالمی برادری کے خاصے بڑے حلقے میں بھی اس حقیقت کا ادراک سامنے آ رہا ہے کہ پاک فوج، عوام اور آئی ایس آئی دہشتگردی کے خاتمے کےلئے لازوال قربانیاں دے رہے ہیں۔ اسی عالمی اعتراف کا نتیجہ ہے کہ کئی انسان دوست حلقوں کی جانب سے گاہے بگاہے پاک فوج اور آئی ایس آئی کی بھرپور تعریف کی جاتی ہے۔ ظاہر ہے یہ بات پاکستان کے مخالفین کو کسی طور ہضم نہیں ہو سکتی، اس لئے انھوں نے پلٹ کر وار کرنے کی کوشش کی ہے اور اپنی سفارتی پسپائی کو فتح میں تبدیل کرنے کی ناکام سعی کی جا رہی ہے۔ اسی تناظر میں کبھی پاک مخالف شخصیتوں کو مہرہ بنا کر ہرزہ سرائی کرائی جاتی ہے اور کبھی کچھ نام نہاد ’تجزیہ نگاروں‘ کے ذریعے ایسی نکتہ آفرینیاں کرائی جاتی ہیں کہ الامان الحفیظ۔ مبصرین نے اس صورتحال کا جائزہ لیتے کہا کہ گذشتہ کچھ عرصے سے وطن عزیز میں یہ طرز عمل خاصا عام ہو گیا ہے کہ ایک بڑا حلقہ پاکستان ، اِس کی حکومت اور اداروں پر بے جا تنقید کو ہی نام نہاد لبرل ازم کی اصل علامت ماننے لگ گیا ہے۔ پاکستان کے خلاف بے بنیاد الزام تراشیوں کی روش اگرچہ مغربی اور بھارتی میڈیا کا دیرینہ مشغلہ رہا ہے مگر وطن عزیز کے کچھ حلقے بھی دانستہ یا غیر دانستہ طور پر اس میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں اس سلسلے میں کچھ زیادہ ہی شدت آ گئی ہے اور افواج پاکستان و آئی ایس آئی کے خلاف ایسے ایسے افسانے تراشے جا رہے ہیں جن کا نہ کوئی سر ہے نہ ہی پیر۔ سوشل میڈیا صارفین کا ایک طبقہ سیاسی جماعتوں سے اپنی وابستگیوں میں وہ سُرخ لکیر بھی عبور کرنے میں بھی جھجھک محسوس نہیں کرتا جو بطور ذمہ دار شہری ہم سب کےلئے مقدم ہونی چاہیے۔ اس تمام منظرنامے کا یہ پہلو اور بھی تکلیف دہ ہے کہ تقریباً تمام دنیا بھارت میں بڑھتی ہندو انتہا پسندی کیخلاف آواز بلند کر رہی ہے مگر ہمارے میڈیا میں اس کا تذکرہ کم کم ہی نظر آتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل امریکی ارب پتی کاروباری شخصیت ” جارج سوروس“ نے بھارت میں مسلمانوں کیخلاف بڑھتے مظالم اور زعفرانی انتہا پسندی پر مودی سرکار کو آڑے ہاتھوں لیا تھا۔ انھوں نے میونخ سیکورٹی کونسل میں اپنے خطاب کے دوران کہا تھا کہ بھارت آئینی طور پر ایک جمہوری ریاست ہے مگر وہاں برسراقتدار جماعت بی جے پی اور نریندر مودی ہر گز جمہوری اقدار کے حامل نہیں، مودی ایک بڑے لیڈر اسی وجہ سے بنے کیونکہ انھوں نے مسلمانوں پر غیر انسانی مظالم ڈھائے۔ بھارت میں مودی کے وفادار میڈیا میں امریکی کاروباری شخصیت کے اس بیان پر ہنگامہ برپا ہے۔ یاد رہے کہ جارج سورس نے مزید کہا کہ مودی اور اڈانی کا گٹھ جوڑ بھارت کو لے ڈوبے گا، بھارت انتہائی تیزی سے ہندو راشٹر بننے کی جانب گامزن ہے ، دنیا کو اس جانب اپنا دھیان مرکوز کرنا ہو گا۔حالانکہ اس بات سے سبھی بخوبی آگاہ ہیں کہ دہشتگردی کے ہاتھوں سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو ہوا ہے ، یہ بھی کوئی راز کی بات نہیں کہ پاکستان میں افسروں اور جوانوں کی شہادت کا تناسب دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ افواج پاکستان کے سینئر افسران سمیت 7 ہزار سے زائد آرمی اہلکار اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کر چکے ہیں۔ کیا امریکہ، بھارت، اسرائیل یا کوئی بھی دوسری ریاست اس طرح کی کوئی قربانیاں رقم کر سکی ہے؟۔ ان تمام قربانیوں کے باوجود اگر کوئی بیرونی طاقتوں کے ایما پر افواج پاکستان خصوصاً آئی ایس آئی کو ہدف تنقید بنائے تو عالمی برادری خصوصاً امریکہ، برطانیہ اور دیگر حکومتوں کا فریضہ ہے کہ وہ آگے بڑھ کر ایسے شرپسند عناصر کی لغویات کی فوری طور پر تردید کریں اور عالمی ذرائع ابلاغ ایسے الزامات کو سنجیدگی سے لینے کی بجائے اس طرح کے طبقات کی ذہنی حالت کا محاسبہ کریں اور یہ بھی پتہ لگائیں کہ اس کے محرکات کیا ہیں؟ اس طرح کے عمل سے دہشتگرد اور منفی عناصر کو تقویت ملتی ہے ۔وطن عزیز کے سبھی حلقوں خصوصاً حضرات و خواتین کی بھی ذمہ داری ہے کہ ملکی اور غیر ملکی میڈیا و تحقیقی اداروں کے ذریعے ایسی بے بنیاد الزام تراشیوں کا خاطر خواہ ڈھنگ سے جواب دیں اور بڑے ناموں سے مرعوب ہونے کے بجائے دلیل اور ”لوجک“ کو اہمیت دیں۔ کچھ بڑے نام غالباً اپنے طرز عمل کی وجہ سے ”نام بڑا اور درشن چھوٹے“ کے زمرے میں آتے ہیں اور الحمداللہ یہ امر بھی طے ہے کہ وطن عزیز خدائے بزرگ و برتر کی خاص عنایت سے ہی وجود میں آیا تھا اور اپنی تمام تر کوتائیوں کے باوجود پاک قوم اور قومی سلامتی کے ادارے تا ابد سلامت رہیں گے ۔ انشاءاللہ