کالم

اس دنیا کے آٹھ ارب باسی

ishrat moeen

آپ نے یہ جملہ زندگی میں کئی بار سنا ہوگا کہ دنیا تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ دنیا کے آگے بڑھنے والے عوامل اور محرکات میں سب سے زیادہ عمل دخل دنیا کی آبادی کا ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ اتنی تیزی سے بڑھ رہی ہے کہ دنیا بھر کے سائنسدان اور محققین انسان کے محفوظ مستقبل کے بارے میں فکر مند ہوگئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر یہ آبادی اسی طرح تیزی سے بڑھتی رہی تو اس زمین پر انسانی وجود غذائی قلت کا تو شکار ہوگا ہی لیکن ساتھ ہی ساتھ آب و ہوا کی تبدیلی اور ماحولیات کے تحفظ کے حوالے سے زمین کا اعتدال و توازن بھی اس طرح بگاڑ دے گا کہ یہ دنیا ایک روز فنا ہوجائے گی۔ گذشتہ دنوں ایک ڈیجٹل قلمکار فراز علی حیدری نے اس جانب توجہ مبذول کروائی کہ ایک اندازے کے مطابق ہر روز دنیا کی آبادی میں تقریبا 2لاکھ افراد کا اضافہ ہورہا ہے۔اس بات کی کھوج میں جب میں یہ مضمون لکھ رہی ہوں تو سوچ رہی ہوں کہ بہت ممکن ہے کہ جب آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہوں اس وقت دنیا کی آبادی آٹھ ارب سے کئی ہزار یا لاکھ آگے بڑھ گئی ہو۔
تحقیق کے مطابق انیسویں صدی کے آغاز یعنی اٹھارہ سو چار عیسوی میں دنیا کی آبادی صرف ایک ارب تھی۔ بیسویں صدی کی تیسری دہائی یعنی انیس سو ستائس میں دنیا کی یہ آبادی دو ارب ہوگئی۔ اس بات سے اندازہ لگائیے کہ دنیا کی آبادی کو دوگنا ہونے میں ایک صدی سے زائد عرصہ لگا۔ پھر اگلے پچاس سال سے بھی کم عرصے میں یہ آبادی اس سے بھی دوگنی ہو گئی یعنی انیس سو چوہتر میں دنیا کی آبادی چار ارب تک جا پہنچی۔ اب دوبارہ پچاس سال سے بھی کم عرصے میں یعنی دو ہزار بائیس میں آج دنیا کی آبادی آٹھ ارب ہونے جا رہی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ آبادی میں اس تیزی سے اضافے کی کئی وجوہات ہیں۔ جن میں سرِ فہرست وجہ جدید سائنسی طریقوں سے خوراک کی پیداوار اور بیماریوں سے بچا کے لئے جدید طبی سہولیات ہیں۔گذشتہ ادوار میں غذائی قلت اور آلودہ پانی پینے کی وجہ سے یا موسم کی شدت برداشت نہ کرسکتے پر انسان جلد بیماریوں کا شکار ہوجاتا تھا اور دوا و علاج کی عدم دستیابی اسے جلد اجل کے حوالے کر دیتی تھی۔
غذائی قلت اور خوراک کی غیر منصفانہ تقسیم اس آبادی کو کنٹرول رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی تھی۔ گوشت کھانا ایک عیاشی تھی جو صرف امرا کو میسر تھی اگرچہ کچھ لوگ اپنے گھروں میں مرغیاں اور دیگر جانور پالتے تھے لیکن زیادہ تر ان جانوروں سے ملنے والی مصنوعات پر ہی گزر بسر کا سامان تھا۔
آج کے متوسط طبقے کے افراد اگر اپنے ماضی کو یاد کریں تو میری اس بات سے اتفاق کریں گے کہ گوشت ہمارے گھروں میں بہت کم تعداد میں سبزی یا دال کی ملاوٹ کے ساتھ ایک یا دو دن ہی پکا کرتا تھا ۔ البتہ شادی یا دعوت میں گوشت کے پکوان پیش کرنا مہمان کو اعزاز دینے کے مترادف مانا جاتا تھا۔
اسی طرح آج کی بہ نسبت پچھلے زمانوں میں سبزیوں پھلوں اور اناج کو محفوظ کرنے اور بعدمیں استعمال کرنے کے طریقے محدود تھے۔ یعنی فرج اور ریفریجریٹر کے استعمال کی وجہ سے غذا کو محفوظ کرنا بھی آسان ہوا اور دیگر زرائع کاشتکاری اور کیڑوں سے بچا اور کیمیکل کھاد کے زریعے سبزی اور اناج بھی وافر مقدار میں اگائی جانے لگی جس طرح غیر طبعی انداز میں مرغیوں اور دیگر جانوروں کی افزائش گوشت، انڈے اور دودھ اور دودھ سے بنی اشیا کو حاصل کرنے کے لیے کی جانے لگیں۔
اسی طرح ہر چھوٹی بڑی بیماری سے لڑنے کے لیے بہترین اور موثر ادویات، تکنیکی آلات اور علاج کے طریقہ کار نے انسانی زندگی کی عمر بڑھائی۔ اس کے علاوہ پیدائش کے حوالے سے بھی صحت مند بچے کی پیدائش و پرورش اور صحت مند ماں کے لیے بہترین معلومات بہم پہنچائی گئیں۔ پہلے زمانے میں اگرچہ ایک عورت دس سے زائد بچے جنم دیتی تھی لیکن ناقص معلومات، خوراک کی کمی، طبی وسائل کی کمی اور پرورش و نگہداشت کی لا علمی کے تحت نہ زیادہ بچے جی پاتے تھے اور نہ ہی ماں کی زچگی کے دوران جان بچانے کے موثر طریقے سے آشنائی تھی۔ میڈیکل سائنس نے انسانی زندگی پر ایک جانب یہ کرم بھی کیا ہے لیکن ساتھ ہی دوسری جانب آج ترقی یافتہ مغربی ممالک میں انسانی زندگی میں عمر کا بڑھتا تناسب یا بزرگ افراد کی زیادہ تعداد حکومت و اداروں پر بھی بوجھ بن گئی ہے۔ شرح اموات کی کمی نے بھی دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی پر اپنا اثر ڈالا ہے۔
آج دنیا کی انسانوں کی آبادی کی اوسط عمر بہتر سال سے زیادہ ہے،انیس سو چالیس تک یہ محض چالیس سال تھی۔ آبادی کے بڑھنے کی شرح دیکھی جائے تو یہ ان ممالک میں زیادہ ہے جو ترقی پذیر ہیں یا جو کھیتی باڑی والے معاشرے سے نکل کر جدید صنعتی معاشرے کی طرف جا رہے ہیں یا جا چکے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق اگلی صدی کے آغاز تک دنیا کی آبادی گیارہ ارب سے تجاوز کر جائے گی۔
ہمارے سائنسدان اور محقیقین اس سوال کا جواب تلاش کر رہے ہیں کہ کیا زمین اس قدر انسانی آبادی کو سنبھال پائے گی؟ کیا ہمارے پاس اس قدر وسائل ہیں کہ ہم اگلی صدی تک گیارہ ارب انسانوں کو خوراک مہیا کر سکیں۔ اسکا فیصلہ آنے والی چند دہائیوں میں انسانی رویے، عادات اور ماحول کے ساتھ انسان کے "کھِلواڑ” پرمنحصر ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نے اپنے تخمینہ کے مطابق مستقبل کے لیے غذا جمع کرنا شروع کردی ہے۔ آج جدید تکنیک اور مادی ترقی نے انسان کو بھوک سے نمٹنے کے زرائع تو بتا دیئے ہیں لیکن دوسری جانب مختلف کیمیائی اشیا کی تیاری نے وہ وائرس بھی پیدا کرنا شروع کر دئیے ہیں جو انسانی زندگی کو پلک جھپکتے ہی لقمہ اجل بنا رہے ہیں یا تحفظ اور بقائے انساں کے لیے بنائے جانے والے ہتھیاروں نے اسباب جنگ تیار کرکے انسان کو ایک بار پھر موت کے سہل راستے کا نشان دکھلا دیا ہے۔
اس کے باوجود زمین پر انسانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی پانی، غذا، اور امن کی تقسیم کے مسئلے سے دوچار ہے۔ ڈاکٹر حفیظ الحسن کے دیئے گئے مندرجہ ذیل لنک میں آپ دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کا اندازہ لگا سکتے ہیں لیکن اس دنیا کو تباہ کرنے والے دیگر عوامل کا اندازہ لگانا اب بھی انسانی احاطہ بصیرت میں مکمل طور پر واضح نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے