وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں تنخواہ دار طبقے پر بوجھ کم کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اللہ کا شکر ہے معیشت کی بنیاد بن گئی اب ہمیں پائیدار ترقی کی جانب جانا ہے اوورسیز پاکستانیوں کی ناراضی کی باتوں میں حقیقت نہیں ملک میں ریکارڈ ترسیلات زر آ رہی ہیں ٹیکس اتھارٹی میں اصلاحات لا رہے ہیں تاکہ لوگ ٹیکس پسند کریں مینو فیکچرنگ انڈسٹری اور سیلری کلاس طبقے پر بوجھ پڑا ہے تمام شعبوں کو معیشت میں اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا عالمی مالیاتی ادارے(آئی ایم ایف)نے بھی گورننس اور کرپشن کے تشخیصی جائزے کے لئے پاکستان کے اقدامات کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کی سنجیدگی اور عزم قابل تعریف ہے تعاون کے فروغ کے لئے پر امید ہیں اس بارے کوئی دو رائے نہیں کہ ملکی معیشت کٹھن حالات سے نکل کر استحکام کی جانب گامزن ہے دو’اڑھائی برسوں کے دوران ملک کی بد ترین معاشی صورت حال کو دیکھتے ہوئے عوام مایوسی کا شکار تھے لیکن حکومت اور ریاستی اداروں کی مسلسل کاوشوں سے اس وقت ملکی معیشت مجموعی طور پر ایک امید افزا صورت حال پیش کر رہی ہے۔ کرنٹ اکاﺅنٹ اور زر مبادلہ کی مارکیٹ کے پر سکون حالات کے نتیجے میں زرمبادلہ کے ذخائر بہتر ہوئے ہیں اسی طری افراط زر کی شرح مئی 2023میں 38 فیصد تھی جو آج 4 فیصد کے لگ بھگ ہے پالیسی ریٹ جون 2023 میں 22 فیصد کی بلند ترین سطح پر تھا جو آج بتدریج کم 12 فیصد پر آچکا ہے ترسیلات زر میں قابل ذکر اضافہ ہوا برآمدات کا حجم بڑھ گیا ہے بیرونی سرمایہ کاری میں بھی رواں مالی سال کے سات ماہ کے دوران 56 فیصد اضافہ ہوا عالمی ریٹنگ ایجنسی (فچ) نے اپنی رپورٹ میں امید ظاہر کی ہے کہ پاکستان کو فوری طور پر ادائیگیوں کے کسی ایسے بحران کا سامنا نہیں جس سے نمٹنا مشکل ہو الغرض تلخ معاشی حقائق کو شریں معاشی صورت حال سے تبدیل کرنے کے لئے جاری کوششیں کامیابی کے آس پاس منڈلا رہی ہیں معیشت کی بنیادیں بننے کے بعد اب ملک کا بڑا مسئلہ معاشی نظام کو درست خطوط پر استوار کرنے اور ٹھوس معاشی پالیسیاں بنانے کا ہے مضبوط اور جامع ترقی کے حصول کےلئے ڈھانچہ جاتی اصلاحات میں تیزی ضروری ہے پاکستان کے پاس ایسے متعدد وسائل موجودہ ہیں جن پر سرمایہ کاری کی جائے تو ملک خوشحال ہوسکتا ہے قرض کے پروگراموں سے ادائیگیوں کا توازن کسی قدر قائم ہوا مگر اب بھی معاشی استحکام کی منزل خاصی دور ہے معاشی استحکام کےلئے قومی پیدواری صلاحیت کو بڑھانے اور دولت پیدا کرنے کی ضرورت ہے معاشی اشاریوں پر نظر ڈالی جائے تو دو تین سال کی نسبت اس وقت معاشی طور پر ہم بہتر پوزیشن میں ہیں تو بہتر یہی ہوگا کہ دولت کے پیدواری امکانات پر بھرپور توجہ دی جائے ہم ملک میں موجود قدرت کے انمول خزانوں کو صحیح منصوبہ بندی اور افرادی قوت کے درست اور بر وقت استعمال کے ذریعے نہ صرف پاکستان کو تیز ترین معاشی وسماجی ترقی کی نئی راہوں پر گامزن کرسکتے ہیں پاکستان میں ٹیکس اور سروس فراہمی کا ڈھانچہ گزشتہ چند برس سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے ایف بی آر کا رجعت پسند ٹیکس کے طریقوں پر انحصار، بنیادی طور پر بالواسطہ ٹیکس نے معاشی عدم مساوات کو بڑھا اور کاروبار کی ترقی کو رو ک دیا ہے یکے بعد دیگر یبر سر اقتدار آنے والی حکومتیں ادائیگی کی اہلیت کے اصول کے ساتھ منصفانہ ٹیکس نظام کو اپنانے میں ناکام رہی ہیں ٹیکس ریونیو کے اہداف ودہولڈنگ ٹیکس اور بڑھے ہوئے نرخوں کے ذریعے پورے کئے جاتے ہیں جو موجودہ ٹیکس دہندگان پر بوجھ ڈالتے اور تعمیل کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں اس سے کاروبار کرنے کی لاگت اور افراط زر میں کے ساتھ ساتھ دولت کی عدم مساوات میں بھی اضافہ ہوتا ہے اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ ساختی خامیاں بنیادی ڈھانچے اور تربیت یافتہ انسانی وسائل کی کمی نے ٹیکس کے مستقل فرق میں نمایاں کردار ادا کیا ہے بد عنوانی اور نااہلی نے اس مسئلے کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے جس کی وجہ سے مالیاتی اہداف حاصل کرنا مشکل ہو گیا ہے ٹیکس پالیسی میں مساوات اور شفافیت پاکستان کے ریونیو شارٹ فال کے مسئلے کو حل کرنے کی بنیاد ہے نا اہلیوں کو روکنے اور معیشت کو تقویت دینے کے لئے انتظامی اصلاحات ضروری ہوچکی ہیں یہ امر خوش آئند ہے کہ حکومت ٹیکس اتھارٹی میں اصلاحات کےلئے کام کر رہی ہے مگر اس کی رفتار انتہائی سست ہے قانونی سازی کے ذریعے ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنے اور کرپشن کے نئے راستے کھولنے کے بجائے ٹیکس کے طریقہ کار کو آسان بنانے شرحوں کو کم کرنے اور غیر رسمی معیشت کو دستاویزی بنانے کےلئے اقدامات کئے جائیں جی ڈی پی میں ایک بڑا حصہ دار زراعت کا شعبہ ٹیکس نہیں دیتا جبکہ غیر رسمی معیشت اقتصادی سرگرمیوں کا ایک اہم حصہ ہے اس سے نمٹنے کےلئے ڈیجیٹائزیشن بہتر ٹیکس انتظامیہ اور باضابطہ مراعات کی ضرورت ہے مالیاتی بد انتظامی سے نمٹنا اور ٹیکسوں کے پروگریسو میکانزم کے ساتھ صوبوں کو با اختیار بنانا پائیدار معاشی بحالی کی راہ ہموار کر سکتا ہے ان تبدیلیوں کے بغیر پاکستان کو اپنے قرضوں اور معاشی جمود کے چکر کو برقرار رکھنے کا خطرہ ہے ہمارا قرض خواہی کا گراف جس تیزی کے ساتھ بڑھتا جارہا ہے یہ معاشی استحکام کی منزل سے دوری کا اشارہ ہے اور قرض داروں کی ادائیگیوں اور نئے قرضوں کی سخت شرائط کے معاشی اور سماجی اثرات اپنی جگہ ہیں ان حالات میں قومی معاملات کی اصلاح کے لئے جامع اقدامات ناگزیر ہوچکے ہیں قرضوں پر انحصار کم کرنے کےلئے ملکی معیشت کو مستحکم کرنا انتہائی ضروری ہے فی زمانہ معاشی استحکام صنعتی فروغ کے بغیر ممکن نہیں اس لئے صنعتی شعبے کی ترقی کو اہم قومی مفاد سمجھ کر چلنا ہوگا پاکستان کی نوجوان آبادی نہ صرف پاکستان بلکہ خطے کے تجارتی شراکت داروں کےلئے بے پناہ ترقی کا ذریعہ بن سکتی ہے وقت آگیا ہے کہ پاکستان اس نوجوان افرادی قوت کو بروئے کار لائے آج کے نوجوان پاکستان کے لیے عالمی تجارت کے دروازے کھولنے اور اسے عالمی معاشی قوت بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں پاکستان کی معیشت کو درپیش مسائل کی بڑی وجہ عدم استحکام بھی ہے معاشی ترقی کے اقدامات کو نتیجہ خیز بنانے کےلئے سیاسی استحکام اور تمام اداروں کے درمیا مکالمے کی ضرورت ہے۔