کالم

اصل ہیروکون؟

صحافت ایک پُر کٹھن اور دشوارگزارپیشہ سمجھاجاتا ہے شائد اس لئے کہ اس میں مشکلات سامنے پڑی ہوتی ہیں اور ہر آن تکالیف وپریشانیوں کا سامنا ہوتا ہے ۔حق اور سچ کا پرچار یقینا آسان کام نہیں ہے بہت ہی پُر کٹھن ،مشکل راہ ہے ۔جھوٹے کے ساتھ سبھی اور سچے کے دشمن ہزار ہوتے ہیں۔سچ سامنے لانا آسان نہیں، ایک جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔ایک بہت بڑا کام اور عظیم کارنامہ ہے۔کبھی صحافت میں سچ بولنے والوں کی مانگ ہوتی تھی اور اب جھوٹ کا ہی ہر طرف پرچار اور بات ہے گویا اب معاملہ کچھ یوں ہے کہ صحافت اب ایک گورکھ دھندہ بنی ہوئی ہے پتہ ہی نہیں چلتا کہ کون رہنما اور کون دھوکہ دینے والا ۔اہل علم و دانش ،سرمایہ صحافت افراد کھڈے لائن لگے ہوئے ہیں اور فراڈیے اور بہروپئے رہنمائے صحافت کا روپ دھارے ہوئے ہیں ۔ صحافت میں چند ایک افراد صحافت اور اُس کی آڑمیں صحافتی ادارہ بنائے،کتاب اشاعت کا اجازت نامہ لیے یاپائے اپنا بیوپار ، کتاب اور ایوارڈ فراڈ کاروبار شروع کئے ہوئے ہیں۔کیا کمال فن اور پھن کا جادو چلائے معززلکھاریوں کی آنکھوں میں ہمدردی اور تعاون کے نام پر مسلسل دھول جھونکے ایوارڈ ،شیلڈ ،تعریفی اسناد ، کتاب فراڈ میں تحریر لگواﺅ ڈرامہ پیش کئے ہوئے ہیںاور ساتھ ساتھ اپنی جیبوں کاسائز بھی کمال ہوشیاری سے بڑھائے ہوئے ہیں ۔لکھاری کو پھانسنا اور پیسہ ہتھیانہ کوئی ان سے سیکھے کہ کیا کمال مہارت سے یہ کھیل سجائے ہوئے ہیں۔ کیا عجب بات ہے کہ کل کلاں جن کو یہ بھی پتہ نہیں ہوتا تھا کہ اپنا اخبار میں کالم کس فونٹ میں بھیجنا ہے وہ آج ”مہان“ بنے لکھاریوں کے ”ناخدا“بنے ہوئے ہیںاور جو افراد ایڈیٹر صاحبان اِن لکھاریوں کو بنانے ،تیار کرنے اور اس مقام پرلانے والے ہیں اُن کا کسی کو پتہ ہی نہیں ہے،گم کئے بھولے ہوئے ہیں۔ کمال بات ہے کہ ایڈیٹروں کے نام اپنے کالم لگوانے کےلئے پبلش پلیز سرلکھنے والے مداری آ ج جادوگر بنے ہوئے ہیںاور کالم پبلش کرنے والے اصل ہیرو ایڈیٹرز کا کہیں ذکر بھی نہیں ہے جن ایڈیٹروں کے طفیل یہ مختلف تنظیمات کے کرتا دھرتابنے بیٹھے ہیں ،انہیں بھلائے ،یکسرنظر اندازکئے پتا نہیں کیا بنے پھرتے ہیںاور خودجو بنے بیٹھے ہیں کہ وہ حقیقت میں نہیں ہیں۔ کیا خوب صحافت کی دھجیاں بکھیرے ہوئے ہیں ۔ایوارڈ شو سے لیکر کتاب شو تک سجائے بیٹھے ہیں اس کے میزبان بھی خود اور مہمان بھی آپ ہی ہیں ۔ اندھابانٹے ریوڑیاں مڑ مڑ اپنیاں نوں ۔ےہ ایوارڈ اور کتاب تماشہ بھی کیسا ہے کہ اپنے واقف اور گاہک افراد پر ہی اثر کرتا ہے دوسروں پر برسنے سے اس پر بجلیاں گرتی ہیں ۔ بیشتر تنظیموں میں ایوارڈ اورکتاب معاملہ ایسا ہے کہ تین کتابیں بھیجنے سے ہی ایوارڈ ملتا ہے ،بغیر تین نسخے بھیجے کہیں ٹریفک جام میں پھنس جاتا ہے سب سے بڑی اور اہم بات یہ کیسے ”اعلیٰ“ اور” نفیس “ایوارڈ ہیں کہ اخبارات کے ایڈیٹروں اور اچھے نامور لکھاریوں سے گھبراتے ہیں اور نئے نئے ساتھی اور کتابی افراد سے ہی چین پاتے ہیں۔کیا عجب ایوارڈ اور کتاب ڈرامہ ہے کہ موسٹ سینئر افراد سے کنی کتراتا ہے اور ”اِک ایوارڈ اور“ جیسے بے کار افراد پر ہی گر جاتا ہے دراصل بات کچھ اس طرح ہے کہ یہ کھمبیوں کی طرح اگتی ادبی تنظیموں اور ایوارڈ حقائق ”خود سے خود میں ہی سماجا“ معاملہ اور تومجھے ایوارڈ دے اور میں تجھے ایوارڈ دوں کہانی ہے ۔ان خود ساختہ تنظیمات کے خود ساختہ کرتا دھرتاﺅں کی شان دیکھئے کہ معاملہ اورکچھ بھی نہیں ہے ،کچھ پیسوں اور محض صرف لگی دیہاڑی کا سوال ہے ۔ہوس زرکیلئے تمام تر صحافتی اصول و ضوابط کاکریا کرم کئے مسلسل ذلت و شرمندگی کی حد تک ذلیل ہوئے پڑے ہیںمگر موجودہ حال عقل و فہم پر مہر لگی جیسا ہے خلق خدا کے بین اور دھائیاں سنتے ہی نہیں ہیں۔ اپنے آپ پر صحافت کا ٹیگ لگائے مسلسل بازاروں میں آوارہ، مٹر گشت کرتے ،کبھی کسی در کبھی کسی در محض صرف ایک کپ چائے کیلئے تماش بینوں ،کامیڈین ،گلوکاروں ،فلم سٹارافراد کے گرداس گیت کی طرح۔ ذرا ساجھوم لوں میں ۔ارے نا رے نارے نا۔ذرا ساگھوم لوں میں ۔ارے نارے نارے نا۔آ،تمہیں چوم لوں میں ۔ ارے نارے نارے نا بابا نا ۔ میں چلی بن کے ہوا۔ربا میرے مینوں بچا ۔ ایسے لوگ اور افراد آپ کو مبارک ،اہل علم ودانش رہے ایسے افراد سے ۔ افسوس اگر یہ صحافت ہے تو ایسی صحافت پر اللہ ہی حافظ ، ہم کہہ سکتے ہیں کہ صحافت کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے۔
صحافت ایک پُر کٹھن اور دشوارگزارپیشہ سمجھاجاتا ہے شائد اس لئے کہ اس میں مشکلات سامنے پڑی ہوتی ہیں اور ہر آن تکالیف وپریشانیوں کا سامنا ہوتا ہے ۔حق اور سچ کا پرچار یقینا آسان کام نہیں ہے بہت ہی پُر کٹھن ،مشکل راہ ہے ۔جھوٹے کے ساتھ سبھی اور سچے کے دشمن ہزار ہوتے ہیں۔سچ سامنے لانا آسان نہیں، ایک جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔ایک بہت بڑا کام اور عظیم کارنامہ ہے۔کبھی صحافت میں سچ بولنے والوں کی مانگ ہوتی تھی اور اب جھوٹ کا ہی ہر طرف پرچار اور بات ہے گویا اب معاملہ کچھ یوں ہے کہ صحافت اب ایک گورکھ دھندہ بنی ہوئی ہے پتہ ہی نہیں چلتا کہ کون رہنما اور کون دھوکہ دینے والا ۔اہل علم و دانش ،سرمایہ صحافت افراد کھڈے لائن لگے ہوئے ہیں اور فراڈیے اور بہروپئے رہنمائے صحافت کا روپ دھارے ہوئے ہیں ۔ صحافت میں چند ایک افراد صحافت اور اُس کی آڑمیں صحافتی ادارہ بنائے،کتاب اشاعت کا اجازت نامہ لیے یاپائے اپنا بیوپار ، کتاب اور ایوارڈ فراڈ کاروبار شروع کئے ہوئے ہیں۔کیا کمال فن اور پھن کا جادو چلائے معززلکھاریوں کی آنکھوں میں ہمدردی اور تعاون کے نام پر مسلسل دھول جھونکے ایوارڈ ،شیلڈ ،تعریفی اسناد ، کتاب فراڈ میں تحریر لگواﺅ ڈرامہ پیش کئے ہوئے ہیںاور ساتھ ساتھ اپنی جیبوں کاسائز بھی کمال ہوشیاری سے بڑھائے ہوئے ہیں ۔لکھاری کو پھانسنا اور پیسہ ہتھیانہ کوئی ان سے سیکھے کہ کیا کمال مہارت سے یہ کھیل سجائے ہوئے ہیں۔ کیا عجب بات ہے کہ کل کلاں جن کو یہ بھی پتہ نہیں ہوتا تھا کہ اپنا اخبار میں کالم کس فونٹ میں بھیجنا ہے وہ آج ”مہان“ بنے لکھاریوں کے ”ناخدا“بنے ہوئے ہیںاور جو افراد ایڈیٹر صاحبان اِن لکھاریوں کو بنانے ،تیار کرنے اور اس مقام پرلانے والے ہیں اُن کا کسی کو پتہ ہی نہیں ہے،گم کئے بھولے ہوئے ہیں۔ کمال بات ہے کہ ایڈیٹروں کے نام اپنے کالم لگوانے کےلئے پبلش پلیز سرلکھنے والے مداری آ ج جادوگر بنے ہوئے ہیںاور کالم پبلش کرنے والے اصل ہیرو ایڈیٹرز کا کہیں ذکر بھی نہیں ہے جن ایڈیٹروں کے طفیل یہ مختلف تنظیمات کے کرتا دھرتابنے بیٹھے ہیں ،انہیں بھلائے ،یکسرنظر اندازکئے پتا نہیں کیا بنے پھرتے ہیںاور خودجو بنے بیٹھے ہیں کہ وہ حقیقت میں نہیں ہیں۔ کیا خوب صحافت کی دھجیاں بکھیرے ہوئے ہیں ۔ایوارڈ شو سے لیکر کتاب شو تک سجائے بیٹھے ہیں اس کے میزبان بھی خود اور مہمان بھی آپ ہی ہیں ۔ اندھابانٹے ریوڑیاں مڑ مڑ اپنیاں نوں ۔ےہ ایوارڈ اور کتاب تماشہ بھی کیسا ہے کہ اپنے واقف اور گاہک افراد پر ہی اثر کرتا ہے دوسروں پر برسنے سے اس پر بجلیاں گرتی ہیں ۔ بیشتر تنظیموں میں ایوارڈ اورکتاب معاملہ ایسا ہے کہ تین کتابیں بھیجنے سے ہی ایوارڈ ملتا ہے ،بغیر تین نسخے بھیجے کہیں ٹریفک جام میں پھنس جاتا ہے سب سے بڑی اور اہم بات یہ کیسے ”اعلیٰ“ اور” نفیس “ایوارڈ ہیں کہ اخبارات کے ایڈیٹروں اور اچھے نامور لکھاریوں سے گھبراتے ہیں اور نئے نئے ساتھی اور کتابی افراد سے ہی چین پاتے ہیں۔کیا عجب ایوارڈ اور کتاب ڈرامہ ہے کہ موسٹ سینئر افراد سے کنی کتراتا ہے اور ”اِک ایوارڈ اور“ جیسے بے کار افراد پر ہی گر جاتا ہے دراصل بات کچھ اس طرح ہے کہ یہ کھمبیوں کی طرح اگتی ادبی تنظیموں اور ایوارڈ حقائق ”خود سے خود میں ہی سماجا“ معاملہ اور تومجھے ایوارڈ دے اور میں تجھے ایوارڈ دوں کہانی ہے ۔ان خود ساختہ تنظیمات کے خود ساختہ کرتا دھرتاﺅں کی شان دیکھئے کہ معاملہ اورکچھ بھی نہیں ہے ،کچھ پیسوں اور محض صرف لگی دیہاڑی کا سوال ہے ۔ہوس زرکیلئے تمام تر صحافتی اصول و ضوابط کاکریا کرم کئے مسلسل ذلت و شرمندگی کی حد تک ذلیل ہوئے پڑے ہیںمگر موجودہ حال عقل و فہم پر مہر لگی جیسا ہے خلق خدا کے بین اور دھائیاں سنتے ہی نہیں ہیں۔ اپنے آپ پر صحافت کا ٹیگ لگائے مسلسل بازاروں میں آوارہ، مٹر گشت کرتے ،کبھی کسی در کبھی کسی در محض صرف ایک کپ چائے کیلئے تماش بینوں ،کامیڈین ،گلوکاروں ،فلم سٹارافراد کے گرداس گیت کی طرح۔ ذرا ساجھوم لوں میں ۔ارے نا رے نارے نا۔ذرا ساگھوم لوں میں ۔ارے نارے نارے نا۔آ،تمہیں چوم لوں میں ۔ ارے نارے نارے نا بابا نا ۔ میں چلی بن کے ہوا۔ربا میرے مینوں بچا ۔ ایسے لوگ اور افراد آپ کو مبارک ،اہل علم ودانش رہے ایسے افراد سے ۔ افسوس اگر یہ صحافت ہے تو ایسی صحافت پر اللہ ہی حافظ ، ہم کہہ سکتے ہیں کہ صحافت کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے