افسوس کی بات ہے ہرجگہ مسلمان ہی ظلم وزیادتی، خوف ودہشت، قتل و فساد، جبر و تشدد اورذلت وپستی کے شکار کیوں ہیں اور ہر طرح کی بے جا پابندیاں صرف مسلمانوں کا ہی کیوں مقدر ہیں کہیں پر داڑھی رکھنے پر پابندی ، کہیں اذان پر پابندی، کہیں پر تعمیر مسجد و مدرسہ پر پابندی، کہیں پر حجاب پر پابندی، کہیں پر اسلامی ادارہ پر پابندی،کہیں پر اسلامی فنکشن پر پابندی تو کہیں پر اسلامی قانون واسلامی شعائر پر پابندی پائی جاتی ہے گویا ہم اپنی پستی کی وجہ سے چہار دانگ عالم میں مظلوم ومقہور ہیں۔ مگر ستم بالائے ستم ان حالات سے نمٹنے کےلئے مسلمانوں کی طرف سے کوئی عالمی اقدام نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ آج سے چند سالوں پہلے ہماری اپنی الگ پہچان، اپنا الگ رعب ودبدبہ، اپنی الگ شان و شوکت ، اپنی الگ بے مثال زندگی اور اپنا الگ خاص اسلامی طرہ امتیاز تھا۔کس قدر روشن اور تابناک تھا ہمارا ماضی؟ کس قدر عروج پر ہم تھے؟ کیا ہی شان وشوکت تھی؟ کیا عظمت وسطوت تھی؟ سب چلی گئی۔اب چاروں طرف اندھیرا ہی اندھیرا، پستی ہی پستی، ناکامی ہی ناکامی، افسوس ہی افسوس، فریاد ہی فریاد۔ آخر کیا وجہ ہے کہ آج ذلت وپستی کے قعرگمنامی میں ہیں؟ وہ کون سے اسباب و عوامل ہیں جن کی وجہ سے آج ہم اس صورتحال سے دوچار ہیں مگر آج کی مادیت پرستی میں ہمارے پاس وقت کہاںہے کہ تھوڑی دیر کےلئے رک کران اسباب پر غور و فکر کریں ہمارے پاس تو قرآن اور سنت کی شکل میں وہ ضابطہ حیات موجود ہے جس کو اپنا کر ہم دونوں جہانوں کی لازوال کامیابیاں حاصل کرسکتے ہیں اگر ہم ساری ملت اسلامیہ کا جائزہ لیں تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ہر طرح کے وسائل سے سرفراز کررکھا رہا ہے مگر مسلکی اختلاف نے ہمیں ٹکڑوں میں تقسیم کردیا بلکہ یہ کہیں جسم مسلم کو کاٹ کاٹ کر الگ کردیا۔ ہمارا سر الگ اور دھڑ الگ ہے۔دشمنوں کے ہتھکنڈوں نے اتنا نقصان نہیں پہنچایا جس قدر مسلک پرستی نے دین اسلام اور قوت مسلم کوپہنچا۔ ایک دوسرے کو کافر قراردینا، ایک دوسرے مسلمان سے شادی بیاہ، لین دین اور قطع تعلق کرنا، ایک دوسرے کو نیچااور غلط ثابت کرنے کےلئے تلوارونیزے اٹھانا بلکہ کافروں سے بدتر سلوک کرناآپس میں اس قدر شدید ہے کہ یہودیت ونصرانیت کی دشمنی ماندپڑگئی۔ جب مسلمانوں میں متعدد فرقے پیدا ہوجائیں اور ہرفرقے کا مقصد اپنے خاص مسلک کی ترویج واشاعت اور دوسرے مسلک پر کیچڑ اچھالنا ، اس کی توہین کرنا ہوتوپھر مسلمانوں میں خیر و بھلائی، اتحاداتفاق، اخوت ومحبت اور عظمت وسطوت کہاں سے ہوگی؟مسلک پرستی کی بیماری نے ہماری صفوں میں دراڑ پیدا کردیا، بھائی کو بھائی سے الگ کردیا، آپس میں ایک دوسرے کو دشمن بنادیا، مسلم قوم کی عظمت کو تارتار اور رعب ودبدبہ کو پارہ پارہ کردیا اورقوت دین اسلام کو پاش پاش کرکے رکھ دیا اس حوالے سے ایک حدیث سنتے جائے ترجمہ: قریب ہے کہ دیگر قومیں تم پر ایسے ہی ٹوٹ پڑیں جیسے کھانے والے پیالوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں، تو ایک کہنے والے نے کہا:کیا ہم اس وقت تعداد میں کم ہوں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:نہیں، بلکہ تم اس وقت بہت ہو گے ، لیکن تم سیلاب کی جھاگ کے مانند ہوگے، اللہ تعالیٰ تمہارے دشمن کے سینوں سے تمہارا خوف نکال دے گا، اور تمہارے دلوں میں ”وہن” ڈال دے گا، تو ایک کہنے والے نے کہا: اللہ کے رسول! وہن کیا چیز ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:یہ دنیا کی محبت اور موت کا ڈرہے، مصر،لبنان، عراق، فلسطین،لیبیااور برما وغیرہ کے حالات سے اندازہ ہوتا ہے کہ نبی ﷺ کا مذکورہ فرمان صادق آرہا ہے۔ ایسا نہیں ہیں کہ ہم کمزور ہیں یا ہماری تعداد کم ہے بلکہ ہمارے اندر دنیا کی محبت پیدا ہوگئی جس نے دین سے غافل کردیا، کثرت کے باوجود ہماری طاقت ختم ہوگئی اور ہم ریزہ ریزہ ہوگئے ۔ اگر ہم پھر سے اپنی عظمت رفتہ بحال کرنا چاہتے ہیں اور ذلت ورسوائی ختم کرنا چاہتے تو اپنی کمزوریوں کی اصلاح کرنی پڑے گی اور ساتھ ساتھ دشمنوں سے نمٹنے، ان کے ظلم کا خاتمہ کرنے، ان پر اپنا رعب ودبدبہ قائم کرنے کےلئے کچھ اہم کام کرنے ہیں ۔ سب سے پہلے ہمیں اپنے حالات کا گہرائی سے جائزہ لینا ہوگا اور جن کمزوریوں کی وجہ سے نقصان اٹھارہے ہیں انہیں دور کرنا ہوگاکیونکہ اللہ کا فرمان ہے ترجمہ: تمہیں جو کچھ مصیبتیں پہنچی ہیں وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کے کرتوت کا بدلہ ہے اور وہ تو بہت سی باتوں سے درگزر فرمادیتا ہے۔اس لئے اپنے اعمال کا جائزہ لےکر غلطی کی اصلاح کرنی ہے۔ آج ہماری مایوسی، آلام، مظالم، قتل وخون، ہرپریشانی کا سبب دین سے بیزاری اور لاتعلقی ہے۔یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے اور ظاہر ہے کہ آپ تمام حضرات کو اس کا مکمل احساس و ادراک ہے کہ اس وقت پورا عالم اسلام دشمن کا بہت بڑا نشانہ بنا ہوا ہے۔تاریخ اسلام پر نظر ڈالی جائے تو اتنی بڑی تعداد مسلمانوں کی تاریخ میں کبھی نہیں تھی آج جتنی ہے ۔