اداریہ کالم

افغانستان میںپاکستانی سفارتکارپرقاتلانہ حملہ

idaria

ملت افغانستان پر پاکستانی قوم کے بہت سارے احسانات ہیں مگر پاکستان نے آج تک اپنے ان پڑوسی بھائیوں پرایک احسان بھی نہیں جتلایا مگر نہایت دکھ کے ساتھ لکھناپڑتا ہے کہ ہرآڑے وقت میں افغان حکومت نے پاکستان کی پیٹھ میں خنجرگھونپنے کی کوشش کی ہے ۔1979ءمیں جب روسی افواج نے افغانستان پرجبراً قبضہ کرلیا تو اس وقت پاکستان نے پینتیس لاکھ سے زائد اپنے افغان بھائیوں کو پاکستان میں خوش آمدید کہااور انہیں پناہ دی۔ تاریخ میں ہجرت مدینہ کے بعداسے دوسری بڑی ہجرت کہاجاتا ہے مگر افغان حکومت نے آج تک اس احسان کو تسلیم نہیں کیا اور وہ پاکستان مخالف قوتوں کے ہاتھ میں کھیلتاچلاآرہاہے ۔گزشتہ روز افغانستان کے دارالحکومت میں پاکستانی ناظم الامور پر مسلح شخص نے قاتلانہ حملہ کیا جس میں سیکیورٹی گارڈ شدید زخمی ہوگیا جبکہ پاکستان نے واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے افغانستان کی عبوری حکومت سے تحقیقات اور ملوث افراد کو سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔اطلاعات کے مطابق کابل میں پاکستانی سفارتی حکام پر فائرنگ اس وقت کی گئی جب ناظم الامور چہل قدمی کررہے تھے۔فائرنگ کے نتیجے میں سیکیورٹی گارڈ کے سینے میں تین گولیاں لگیں جسے طبی امداد کے لیے اسپتال منتقل کیا بعدازاں پشاور ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔پاکستانی ناظم الامور عبید نظامانی فائرنگ کے واقعے میں محفوظ رہے۔ طالبان کی ابتدائی تحقیقات کے مطابق گولیاں قریبی عمارت سے چلائی گئیں۔ پاکستانی سفارتخانے میں تعطیل کی وجہ سے رش نہیں تھا۔اس حوالے سے دفتر خارجہ کی جانب سے اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ کابل میں پاکستانی سفارت خانے پر حملے میں ناظم الامور عبید الرحمان نظامانی کو نشانہ بنایا گیا، اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے کابل میں پاکستانی ناظم الامور محفوظ رہے، کابل حملے میں پاکستانی سکیورٹی گارڈ سپاہی اسرار محمد شدید زخمی ہوا۔پاکستان نے ناظم الامور اور کابل میں سفارت خانے پر حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیاہے کہ افغانستان کی عبوری حکومت فوری طور پر کابل حملے کی مکمل تحقیقات کرے، کابل حملے کے مجرموں کو پکڑا جائے، ان کا محاسبہ کیا جائے، افغانستان میں پاکستانی سفارتی عملے اور شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔انہوں نے وضاحت کی کہ کابل میں سفارت خانے کو بند کرنے یا سفارت کاروں کو واپس بلانے کا کوئی منصوبہ نہیں، پاکستان افغانستان میں عبوری حکومت کے ساتھ رابطے میں ہے، افغانستان میں پاکستانی سفارتی عملے اور مشنز کی حفاظت کے لیے اقدامات میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ افغان ناظم الامور کو دفتر خارجہ میں طلب کیا گیا، فائرنگ کے واقعہ پر شدید احتجاج کیا گیا، واقعے کی فوری تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا۔ پاکستان کے سفارتی مشنز اور اہلکاروں کی حفاظت اور تحفظ افغان عبوری حکومت کی ذمہ داری ہے، کابل میں پاکستانی سفارت خانے پر حملہ انتہائی سنگین سکیورٹی کوتاہی ہے، پاکستانی سفارت خانے پر حملے کے مرتکب افراد کو فوری طور پر پکڑ کر انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ پاکستانی سفارت خانے کے احاطے کی سکیورٹی کی سنگین خلاف ورزی کی تحقیقات شروع کی جائیں، سفارتی احاطے، افسران اور اہلکاروں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے تمام ضروری اقدامات کیے جائیں، کابل، جلال آباد، قندھار، ہرات اور مزار شریف میں پاکستانی قونصل خانوں کی سکیورٹی بڑھائی جائے، افغان ناظم الامور نے حملے کو انتہائی افسوس ناک قرار دیا، حملہ پاکستان اور افغانستان کے مشترکہ دشمنوں نے کیا، پاکستانی سفارت خانے پر حملے کی افغان قیادت نے اعلیٰ سطح پر سخت ترین الفاظ میں مذمت کی ہے۔دوسری جانب صدر، وزیراعظم ،وزیرخارجہ نے کابل میں پاکستانی ناظم الامور پر قاتلانہ حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے گھناو¿نے فعل میں ملوث افراد کو فوری انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا ہے۔ پاکستان دہشت گردی کی تمام اقسام اور صورتوں کی مذمت کرتا ہے اور اس کے خاتمے کیلئے پُرعزم ہے، دہشتگردی ایک مشترکہ خطرہ ہے، موثر طور پر مقابلہ کرنے کیلئے مشترکہ کاوشوں کی ضرورت ہے۔بہادر سکیورٹی گارڈ کو سلام ہے جس نے اپنی جان پر کھیل کر انکی بچانے کےلئے گولی کھائی۔ پاکستانی ناظم الامور عبید الرحمن نظامانی نے اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے ادا کی، سفارتی عملے کی حفاظت اور تحفظ حکومت پاکستان کی اولین ترجیح رہے گی۔افغانستان کے اندرجتنے بھی سفارتی مشن کام کررہے ہیں ان کی حفاظت ویانامعاہدے کے مطابق حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے مگر یہ حکومت اپنی ذمہ داری نبھانے میں ناکام ہوئی اور پاکستان کے ایک سینئرسفارتکار پراس کی سرزمین پر قاتلانہ حملہ کیاگیا ہمارامطالبہ ہے کہ افغان حکومت جلدازلد اس حملے میں ملوث ذمہ دارافرادکوگرفتارکرکے انہیں کیفرکردارتک پہنچائے۔
عمران خان کی پیشکش ،حکومت مثبت جواب دے
عمران خان نے روایتی طورپرایک بارپھراپنی کہی ہوئی بات پریوٹرن لے لیالانگ مارچ کے اختتامی مرحلے میں انہوں نے صوبائی اسمبلیوں سے استعفے دینے کااعلان کیاتھاجو بعد میں اسمبلیوں کی تحلیل کے فیصلے میں بدل دیامگر کل جمعہ بھی گزرگیااورعمران خان نے حکومت کو مذاکرات کی مشروط پیشکش کرتے ہوئے مطالبہ کیاکہ الیکشن کی تاریخ کااعلان کیاجائے ورنہ وہ اسمبلیاںتحلیل کرنے پرمجبور ہوجائیں گے ۔گزشتہ روزپاکستان تحریک انصافکے چیئرمین عمران خان نے حکومت کو مذاکرات کی پیشکش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارے ساتھ بیٹھ کر عام انتخابات کی تاریخ دی جائے ورنہ اسمبلیاں توڑ دیں گے، سیاسی استحکام کے لئے فوری الیکشن کی طرف جانا ہوگا، ہم نے بہت کوشش کی مگر یہ انتخابات کا نام نہیں لیتے۔پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میںپی ٹی آئی چیئرمین کامزید کہنا تھا کہ حکومت کی ایک ہی کوشش ہے کسی طرح مجھے نااہل یا جیل میں ڈالنا ہے اس کے علاوہ ان کا کوئی روڈ میپ نہیں۔ ہم نے بہت کوشش کی مگر یہ عام انتخابات کا نام نہیں لیتے، سیاسی استحکام کےلئے فوری الیکشن کی طرف جانا ہوگا، یہ الیکشن کا نام نہیں لیتے، ڈرے ہوئے ہیں، قرضوں کی قسطیں تب واپس کریں گے جب آمدنی بڑھے گی، پاکستان کا مسئلہ قرضوں کی قسطیں ادا کرنی ہے، اگر آمدن نہیں بڑھے گی تو قسطیں کیسے ادا کریں گے۔مسلم لیگ(ق)پوری طرح ہمارے ساتھ کھڑی ہے، پرویز الٰہی نے مجھ پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا ہے۔قارئین اس بات کے گواہ ہیں کہ عمران خان نے جب احتجاجی تحریک شروع کی تو ہم ان سطورکے ذریعے حکومت اورعمران خان دونوں سے یہ درخواست کرتے چلے آئے ہیں کہ وہ سیاست میں انتشارکوہوانہ دیں اورمذاکرات کے ذریعے کوئی راستہ ڈھونڈیں کیونکہ ملک اس وقت معاشی بحران میں مبتلا ہے اوراحتجاجی سیاست کامتحمل نہیں ہوسکتا اس لئے مذاکرات کاراستہ اپنائیں۔گوکہ عمران خان نے طاقت اورعوامی حمایت کے پیش نظر حکومت کودباﺅمیںلانے کی کوشش کی مگر اس میں وہ کامیاب نہ ہوسکے جس پر پہلی بارانہوں نے حکومت کو مذاکرات کی پیشکش کی ہے۔یہ پیشکش خوش آئند ہے کیونکہ مسائل مذاکرات کے ذریعے ہی حل کئے جاسکتے ہیں۔
گلگت بلتستان کوآئی ٹی حب بنانے کاخوش آئندفیصلہ
آغا خان یونیورسٹی کے گلوبل چیف انفارمیشن آفیسر شوکت جن کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے نے وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان خالد خورشید کے اعزاز میں عشائیہ کا انعقاد کیا۔ اس موقع پر وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان خالد خورشید کی سربراہی میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے حوالے سے چیف منسٹر ڈیجیٹل کونسل نوٹیفائی کیا گیا تاکہ گلگت بلتستان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے کو فروغ دیا جاسکے۔آغا خان یونیورسٹی کے گلوبل چیف اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے سے تعلق رکھنے والے نامور شخصیات نے گلگت بلتستان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے فروغ کیلئے ہر ممکن تعاون کایقین دلایا۔وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان خالد خورشید نے اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ حکومت گلگت بلتستان انفارمیشن ٹیکنالوجی کے فروغ کیلئے خصوصی اقدامات کررہی ہے۔صوبے میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے محکمے کا قیام عمل میں لایا گیا ہے، تمام اضلاع میں سوفٹ ویئر ٹیکنالوجی پارکس قائم کئے جارہے ہیں، پہلی مرتبہ آئی ٹی سیکٹر پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے۔انفارمیشن ٹیکنالوجی اس وقت کی اہم ضرورت ہے اوراس میں دنیاکامقابلہ کرنے کے لئے ہمیں جدت اپنانا ہوگی ۔ وزیراعلیٰ گلگت بلتستان کایہ اعلان خوش آئند ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے