اب یہ تو بالکل نامناسب بات ہے کہ افغانستان کی قرون اولی ماڈل کی طالب علمانہ حکومت کے ہر فعل کی مخالفت ہی کی جائے، اگر وہ اپنے ملک میں کوئی اچھا اور دوسروں کے لیے قابل تقلید کام کرتے ہیں یا کسی ایسے نادر قانون کو متعارف کراتے ہیں ،جس پر عمل پیرا ہو کر دوسرے ممالک بھی فایدہ اٹھا سکیں ،تو ایسے اقدامات اور ایسی قانون سازی کی کھل کر تعریف اور حمایت کی جانی چاہیئے۔یہ درست ہے کہ حال ہی میں افغانستان کی نادان حکومت اپنی محسن ہمسایہ ریاست پاکستان پر زمینی حملہ کرنے کی گستاخی کر چکی ہے اور رائج الوقت دستور یا طریقہ کار کے مطابق "منہ توڑ” جواب بھی وصول کر چکی ہے۔اسلامی اخوت میں بندھے دو ہمسایہ ممالک کی آپس کی جنگ کی خاص بات یہ ہوا کرتی ہے کہ دونوں ملک اپنی اپنی جیت پر نازاں ہو کر بھنگڑے بھی ڈالتے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ افغانستان کو دوسروں کے دیئے گئے ہتھیاروں سے با معاوضہ جنگیں لڑنے کا وسیع تجربہ حاصل ہے ۔لیکن ایسے تجربے کی بنیاد پر اپنے اساتذہ اور تربیت کندگان کے ساتھ الجھ بیٹھنا ہمیشہ خسارے کا سودا ہوا کرتا ہے ۔اس بار بھی یہی کچھ ہوا ۔پاکستان کے سخت جواب اور فضائیہ کے موثر استعمال نے افغانستان کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔خیال یہ تھا کہ اب افغان انتہا پسند کچھ عرصہ باریک آواز میں بات چیت کیا کریں گے ، لیکن ایسا ہوا نہیں ،الٹا افغانستان کی طرف سے بے سود حملے جاری ہیں۔اس کا ایک مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ شاید پرانا سویٹر ادھیڑ کر نئی جرسی کا سوچا رہا ہے۔؟ خیر یہ چوہے بلی والا کھیل تو چلتا رہے گا ۔اور شاید اگلے بیس تیس سال مزید یہ ممالک بلوغت اور فراست کے بغیر دور دراز واقع طاقتوں کی فلاح و بہبود اور برتری کیلئے ملازمتیں اختیار کرتے رہیں گے ،تاآنکہ، ان ممالک کی عامتہ الناس بغاوت اور جدوجہد کے راستے اپنی تقدیر کے فیصلے خود کرنے کی منزل تک پہنچ جائے ۔جب تک یہ سب کچھ نہیں ہوتا۔عامتہ الناس کو اسی خلفشار اور اسی انتشار میں سے راحت کے سامان تلاش کرنے پڑیں گے ۔ایسے ہی "سامان” میں افغانستان کی طالب علمانہ حکومت کے امیر المومنین ملا ہیب اللہ اخوندزادہ کا منظور کردہ ایک نیا قانون بھی شامل ہے۔کیا ہی اچھا ہو؛ اگر اس قانون کو پاکستان کی خوابیدہ بلکہ منجمد پارلیمنٹ بھی منظور کر کے آئین کا حصہ بنا لے ۔اس نئے قانون کے تحت افغانستان کی حکومت نے پورے ملک میں ہر طرح کی رومانی شاعری پر پابندی عائد کر دی ہے۔اس قانون کا عنوان ” مشاعروں کو منظم کرنے کا قانون” ہے ۔ افغانستان کی وزارت قانون کے مطابق یہ قانون تیرہ دفعات پر مشتمل ہے ۔ان دفعات میں دو بڑے امور سے متعلق رہنمائی کی گئی ہے ؛ اول یہ کہ مشاعرے کن شرائط کے ساتھ منعقد کئے جا سکتے ہیں۔اور دوم یہ کہ شاعری میں کس قسم کے موضوعات اور کس طرح کے مواد کو پیش کرنے کی اجازت ہو گی۔ اس قانون کی سب سے مثبت بات یہ ہے کہ اس قانون کے ذریعے معاشرے میں بے لگام اور بے حجام پھرنے والے شاعروں یا شاعر ہونے کا دعوی کرنے والوں کو "اچھے بچے” بنانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ مشاعروں کو منظم کرنے اور شاعروں کو مہذب بنانے کے قانون پر عمل درآمد کروانے کی ذمہ دار افغانستان کی وزارت اطلاعات و ثقافت ہو گی۔ یہ وزارت مشاعروں کی ریکارڈنگ کروا کر ان کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی بھی تشکیل دے گی ۔اس کمیٹی میں طالب علموں کی حکومت کی وزارت امر بالمعرف و نہی عن المنکر اور علما کونسل کے اراکین شامل ہوں گے۔اس کمیٹی کا اسم گرامی جائزہ کمیٹی ہوا کرے گا ۔ افغانستان کی وزارت اطلاعات و ثقافت کو چاہیئے کہ اس کمیٹی کے بنیادی مقاصد ،نیت اور معیار و مقدار کو سامنے رکھتے ہوئے "اکادمی ادبیات افغانستان ” نام کے ایک ادارے کے قیام پر غور کرے۔یہ ادارہ وزارت اطلاعات و ثقافت ،وزارت امر بالمعرف و نہی عن المنکر اور علما کونسل کے مشترکہ اہداف کی عمدہ طریقے سے نگہبانی کر سکتا ہے۔اس سلسلے میں پاکستان اپنے متحارب و متشدد ہمسائے افغانستان کی ہر طرح سے مدد اور اعانت کرنے کیلئے تیار ہے ۔پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کی حد سے زیادہ مدد و اعانت کی ہے ۔اگر اخوت کی بنیاد پر افغانستان ضرورت محسوس کرے،توحکومت پاکستان ازراہ اخوت و شفقت و مروت اکادمی ادبیات پاکستان کو کل ساز و سامان و سازمان سمیت افغانستان منتقل کر سکتی ہے ۔ویسے بھی شنید ہے کہ موجودہ حکومت پاکستان کے ادبی ، علمی اور ثقافتی اداروں کو بند کرنے کا سوچ رہی ہے ۔حکومت کی اس سوچ پر اندرون ملک ترسیل نفرین اجتماعی کا عمل بھی جاری و ساری ہے۔ایسے میں اکادمی ادبیات پاکستان کو افغانستان منتقل کرنے سے ملک کی ادبی نہ سہی، نام نہاد دینی قوتوں کو خوش کیا جا سکتا ہے ۔ افغانستان میں متعارف کروائے گئے نئے قانون کے مطابق ملک میں لڑکیوں اور لڑکوں کے مابین دوستانہ تعلقات ، معاملات محبت یا اشارات آرزو پر مبنی اشعار کہنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس قانون میں یہ بات تو واضح کر دی گئی ہے کہ شعرا خواتین و حضرات کی طرف سے ایسی کوئی درخواست سرکاری طور پر منظور نہیں کی جایا کرے گی،جس میں لڑکے لڑکیوں کے ساتھ اور اسی طرح لڑکیاں لڑکوں کے ساتھ دوستی اور مہر و وفا کے موضوعات پر مبنی شاعری کرنے کی اجازت طلب کی گئی ہو ۔البتہ یہ نیا قانون اس بات کی وضاحت نہیں کرتا کہ؛ مرد شعرا اپنی شاعری میں دیگر مردوں کے ساتھ دوستی اور مہر و محبت کا اعلان و اقرار کر سکتے ہیں یا نہیں ۔کیا پتہ اس طرح کی شاعری کو شعرا کرام کے اپنے ذوق و شوق کے حوالے کر دیا گیا ہو؟۔اس نئے قانون میں شعرائے افغانستان کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنی شاعری میں شرعی موضوعات ، اسلامی اخلاقیات اور تزکیہ نفس جیسے موضوعات پر توجہ دیا کریں ۔ افغانستان کے اس نئے قانون کو اس میں شامل احکامات، تجاویز اور ہدایات کے حوالے "ہدایت نامہ شعرائے افغانستان عرف بہشتی ریوڑ”قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس نئے قانون کی عرفیت کو "بہشتی ریوڑ” اس لیے کہا گیا ہے کہ یہ قانون افغان شعرا کرام کو جہنم میں جانے سے بچاتے ہوے سیدھا بہشت کی راہ دکھا سکتا ہے۔ یہ قانون شاعری میں نامناسب خواہشات و جذبات کے بیان کو ممنوع قرار دیتا ہے۔ قیاس چاہتا ہے کہ خواہشات و جذبات کے مناسب یا نامناسب ہونے کا تعین کرنے کیلئے نیکوکار ، تجربہ کار اور کاریگر علمائے کرام سے رجوع کرنا پڑے گا۔یہی علمائے کرام اپنے ذوق علمی و ذاتی کے مطابق خواہشات و جذبات کے صحیح یا غلط ہونے کا تعین کر دیا کریں گے ۔ یہ قانون شاعری میں دنیاوی محبت کے اظہار پر بھی پابندی لگاتا ہے۔اس قانون میں آخرت سے محبت اور حیات بعد الموت کی طرف توجہ دلانے والی شاعری کی حوصلہ افزائی نظر آتی ہے۔ اس قانون کی سب سے دلچسپ شق کے مطابق مملکت افغانستان میں غیر اسلامی نظریات کا ذکر کرنے یا کسی طرح کا حوالہ دینے پر بھی مکمل پابندی ہو گی ۔اس قانون میں احتیاطا ان غیر اسلامی نظریات کی نشاندہی بھی کر دی گئی ہے کہ جن کے ذکر یا کسی بھی طرح کے حوالے سے شعرا و ادبا کو مکمل اجتناب کرنا ہوگا۔ان غیر اسلامی نظریات میں جمہوریت ، قوم پرستی، فیمینزم،کیمونزم اور دہریت کو شامل کیا گیا ہے ۔شعرا و ادبا جیسے شرپسند عناصر سے اس قانون پر عمل درآمد کروانے کی ذمہ داری وزارت اطلاعات و ثقافت کی ہو گی۔ اس وزارت کے صوبائی دفاتر اپنے صوبے میں ہونے والے مشاعروں کی مکمل نگرانی اور ریکارڈنگ کیا کریں گے ۔بعدازاں ان ریکارڈ شدہ مشاعروں کو وزارت اطلاعات و ثقافت ، وزارت امر بالمعرف و نہی عن المنکر کے نمائیندے اور علمائے کرام مل کر سماعت کر کے اشعار کے صحیح یا غلط ہونے کا تعین کیا کریں گے۔قانون کے مطابق اچھی اور دی گئی ہدایات کی روشنی میں کی گئی شاعری اور نثر نگاری پر وزارت اطلاعات و ثقافت کی طرف سے شعرا و ادبا کو معقول انعامات بھی دیئے جائیں گے ۔جبکہ اس قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شاعری کرنے یا نثر لکھنے والوں کو ان کی شرارت کے مطابق اور شریعت کی رو سے سخت سزا بھی دی جائے گی۔یہاں یہ یاد رہے کہ اس قانون میں شاعروں کے علاوہ مشاعروں کے منتظمین کو بھی شریعت کے مطابق سخت سزائیں دی جایا کریں گے۔اس قانون میں لگے ہاتھوں افغانستان کے سپریم لیڈر ملا ہبتہ اللہ اخوندزادہ کے جملہ احکامات،ہر طرح کے فیصلوں اور جاری کردہ ہدایات پر تنقید کرنے پر بھی مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے ۔ شاید علم و شعور کی کمی مانع ہے یا ٹیکنالوجی سے ناواقفیت آڑے آ رہی ہے ،ورنہ اس قانون میں سپریم لیڈر کے احکامات یا فیصلوں پر تنقید کو روکنے کیلئے خصوصی نکات اور ہدایات شامل کرنے کی بجائے سمندر میں رہائش پذیر ڈولفن مچھلیوں سے رجوع کر کے افغانستان کے انٹرنیٹ کی کفالت کرنے والی زیر سمندر تاروں کو تیز دانتوں والی ڈولفن مچھلیوں سے کٹوایا جا سکتا تھا کہ ؛ بانس کاٹ دینے سے بانسری کی مدھر آواز کا خدشہ اور خطرہ باقی نہیں رہتا۔ آج کل خطے میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔