کالم

افغانستان میں کارروائی کاعندیہ

وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ عزم استحکام آپریشن کے تحت افغانستان میں بھی کارروائی کر سکتے ہیں ضرورت محسوس ہوئی تو ٹی ٹی پی کو سرحد پار نشانہ بنائیں گے پاکستان کی سالمیت سے بڑی کوئی بات نہیں افغانستان سرزمین سے ہماری سرزمین پر دہشت گردی بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے’ افغانستان ہمسائیگی کا حق ادا کر رہا ہے نہ ہم مذہب ہونے کا’ آپریشن میں امریکہ کی مدد نہیں لیں گے آپریشن کو اپنے وسائل اور استعداد سے انجام دیں گے اب افغانستان کے بارڈر کو انٹر نیشنل بارڈر کے طور پر ٹریٹ کیا جائےگا افغانستان سے آنے والی تمام ٹریفک کو پاسپورٹ اور و یزے کے بعد ہی داخلے کی اجازت ہوگی وطن عزیز کو درپیش سیکورٹی خطرات کا سرحد پار کے حالات سے ہمیشہ بہت گہرا تعلق رہا ہے ماضی میں بھی یہ سرحد کے حالات ہی تھے جنہوں نے پاکستان کو دہشت گردی کے خوفناک صورت حال سے دوچار کیا اور پھر اس سے نکلنے کے لئے ایک طویل جدوجہد کرنا پڑی 2021 کے وسط میں کابل میں آنے والی تبدیلی کے اثرات ایک بار پھر پاکستان کے سیکورٹی منظر نامے کو متاثر کر رہے ہیں افغانستان میں طالبان حکومت قائم ہوجانے کے بعد پاکستان میں ایک مخصوص لابی عوام کو یہ تاثر دے رہی تھی کہ اب افغانستان میں امن قائم ہوجائے گا اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستان اور خطے کے دیگر ممالک میں بھی صورت حال بہتر ہوجائے گی ایسا ممکن نہیں ہوسکا پاکستان کے لئے پہلے سے بھی زیادہ مشکلات پیدا ہورہی ہیں افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان میں دہشتگردی کی وارداتوں میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا ہے اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ دہشت گردوں کو افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں دستیاب ہیں ٹی ٹی پی افغانستان میں پناہ گاہوں کے ساتھ ساتھ جدید ترین ہتھیار حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوگئی ہے اس تنظیم کے دہشت گردوں کے پاس افغانستان میں امریکی فوج کے چھوڑے گئے ہتھیاروں کی موجودگی کے شواہد اس امر کا یقینی ثبوت ہیں کہ افغانستان کی طالبان حکومت اپنی سرزمین پر ٹی ٹی پی کو روکنے میں اب تک کامیاب نہیں ہوسکی بلکہ اگر موجودہ سنگین صورت حال میں یہ کہا جائے کہ وہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے خلاف کارروائی کرنا ہی نہیں چاہتی تو غلط نہ ہوگا ملک میں تسلسل کے ساتھ دہشت گردی کی وارداتیں یہ ظاہر کر رہی ہیں کہ افغانستان دہشت گرد گروہوں کا لانچنگ پیڈ ہے گو افغانستان کی طالبان حکومت یہ دعوی کرتی ہے کہ وہ دوحہ مذاکرات میں کئے گئے اپنے اس عہد پر قائم ہے کہ افغانستان کی سرزمین کسی بھی دوسرے ملک میں دہشت گردی کے لئے استعمال نہیں کرنے دی جائے گی لیکن زمینی حقائق اس کے بالکل بر عکس ہیں پاکستان میں عسکریت پسندوں کے دوبارہ سراٹھانے میں کئی عوامل کار فرما ہیں ان عوامل میں سے ایک بڑا عنصر طالبان کی مسلسل حمایت اور افغان پالیسی ہے جس کی وجہ سے طالبان دوبارہ اقتدار میں آنے میں کامیاب ہوئے افغانستان کے اندر طالبان کی اقتدار میں واپسی نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان ودیگر دہشت گرد تنظیموں کو ایک نئی زندگی دے دی ہے کالعدم تحریک طالبان نے ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھا رکھے ہیں اور کوئی ریاست اپنے دشمنوں اور باغیوں کو بر داشت نہیں کرسکتی پاکستان کے سیکورٹی اداروں اور شہری آبادی کو نشانہ بنایا جارہا ہے افغان حکومت کو اس بابت بار بارمطلع بھی کیا جارہا ہے مگر کوئی خاطر خواہ نتیجہ سامنے نہیں آرہا دہشت گردوں کے خلاف جنگ کے دوران پاکستان کی معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے ہمارے سینکروں فوجی افسر وجوان’ پولیس افسر اور سپاہی ‘ایف سی کے افسر وسپاہی اور بے گناہ شہری شہید ہوچکے ہیں اور شہادتوں کا یہ سلسلہ تاحال جاری ہے اس کے باوجود جن کی خاطر پاکستان یہ زخم سہے تھے وہ آج ہمارے ممنون ہونے کے بجائے ہمیں ہی نقصان پہنچانے کے درپے ہیں پاکستانی انٹیلی جنس اداروں کے ایک آپریشن میں ٹی ٹی پی شوری کے دفاعی کمیشن کے ممبر کی گرفتاری کے بعد سامنے آنے والے انکشافات سے پاکستان میں یکا یک دہشتگردی کے واقعات میں اضافے کی وجہ کھل کر سامنے آگئی ہے گرفتار ہونے والے دہشت گرد نصر اللہ عرف مولوی منصور نے اعتراف کیا ہے کہ ٹی ٹی پی کے تمام کمانڈرز کھلے عام افغانستان میں گھوم پھر رہے ہیں اور ان کی پشت پناہی بھارتی خفیہ ایجنسی (را) کر رہی ہے ٹی ٹی پی کے سارے نظام خصوصا مالی نظام کے پیچھے بھارت ہے افغان حکومت ٹی ٹی پی کو نہ صرف مالی مدد بلکہ ان کی تربیت اور افرادی قوت بھی فراہم کر رہی ہے پاکستان نے افغانوں کا مقدمہ ہر فورم پر لڑا ہے لاکھوں افغان باشندے اب تک پاکستان میں مقیم ہیں لیکن افغانستان کی ہر حکومت نے پاکستان کی مخالفت کی ہے اور اب افغانستان سے ہی دہشت گرد پاکستان پر حملے کر رہے ہیںاور افغان حکومت ان کی بھرپور سرپرستی کر رہی ہے افغان حکومت کو بھی یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دہشت گردی دونوں ممالک کا مشترکہ مسئلہ ہے جس سے مل کر ہی نمٹا جاسکتا ہے طالبان حکومت کو امن وامان کی صورت حال اور اپنی معیشت کو سنبھالنے کے لئے قدم قدم پر پاکستان کے تعاون کی ضرورت ہے پاکستان افغانستان مضبوط تعلقات کی گیند طالبان حکومت کی کورٹ میں ہے وہ پاکستان کیلئے اپنی خیر خواہی اور خلوص کا یقین دلادیں اور اس پر عمل بھی کریں تو پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے کے تعاون سے مستحکم اور دہشت گردی سے پاک ہوسکتے ہیں طالبان حکومت کو اعتماد سازی کیلئے افغانستان میں پاکستان کے مفادات کےخلاف کام کرنے والے دہشتگردوں کو پاکستان کے حوالے کرنا سرحد سے پاکستان کے اندر دہشت گردوں کو گھسنے سے روکنا اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی حمایت اور مدد کو ترک کرنا ہوگا تیس سال سے لاکھوں افغانی پاکستانی وسائل پر بوجھ بنے ہوئے ہیں لیکن پھر بھی ہم نے اف تک نہیں کی’ ہر پاکستانی کا لہو قیمتی ہے اگر کوئی پیار ومحبت کو کمزوری سمجھ رہا ہو تو پھر اس کی غلط فہمی دور ضرور کردینی چا ہیے اب یہ بہت ضروری ہوچکا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri