اداریہ کالم

افغان حکومت ہوش کے ناخن لے

یہ بات پوری دنیا جانتی ہے کہ افغانستان دنیا بھرمیں بین الاقوامی دہشتگردوں کی پناہ گاہ بناہوا ہے وہاں پرمحفوظ پناہ گاہیں میسر ہیں اورافغان حکومت ان کے خلاف کوئی بھی کارروائی نہیں کرتی ،دہشتگردی کی نیت سے وہاں بیٹھے دہشتگرد پاکستان ،ایران اورترکمانستان میں داخل ہوکراپنی مذموم کارروائیاں کرتے ہیں مگر اب پاکستا ن نے دشمن کے ٹھکانوںپرگھس کروار کرنے کاجوسلسلہ شروع کیاہے وہ لائق تحسین ہے اورہماری ملکی سلامتی کےلئے بیحدضروری ہے کیونکہ اس سے پہلے ایران کے اندر ان دہشتگردوں کے خلاف ٹارگٹ آپریشن کیاگیا اوران کی پناہ گاہیں تباہ کی گئیں اوراب افغانستان کے اندر یہ کارروائی کی گئی ہے جس میں ایک بدنام زمانہ گروپ جوکئی سالوں سے دہشتگردانہ کارروائیاں کرتے چلاآرہاتھا کے ٹھکانے ختم کئے ہیں ایسا کرناملکی سالمیت کےلئے بیحد مفید اوربیحد ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں تھا، اب دہشتگردوں کے دل میں کچھ خوف پیدا ہوگا اور افغان حکومت کوبھی اپنے گریبان میں جھانکناچاہیے جب وہ مذاکرات کی میزپرآتے ہیں تو دہشتگردوں کی پناہ گاہوں اور ان کی سرپرستی سے یکسرانکارکرتے ہیں مگر اس کے باوجو د پناہ گاہیں بھی وہیں موجو د اوردہشتگردی کی کارروائیاں بھی جاری وساری ہیں یہ ایک دوغلی پالیسی ہے ۔اقوام متحدہ ،امریکہ اوردیگرممالک کواس حوالے سے سخت نوٹس لیناچاہیے تاکہ مستقبل قریب میں ایسی کوئی کارروائی نہ ہونے پائے۔اخباری اطلاعات کے مطابق پاکستان نے افغانستان میں دہشت گردوں کے خلاف فضائی کارروائی کی تصدیق کردی جس میں حافظ گل بہادر گروپ اور کالعدم تحریک طالبان کو نشانہ بنایا گیا ہے اور افغان سرزمین پر موجود ٹھکانے تباہ کیے گئے۔دفتر خارجہ کے مطابق پاکستان نے افغانستان میں موجود دہشتگردوں کیخلاف خفیہ اطلاعات پر آپریشن کیا جس میں کالعدم ٹی ٹی پی اور حافظ گل بہادر کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ پاکستان نے افغانستان کے اندر سرحدی علاقوں میں انٹیلی جنس کی بنیاد پر فضائی کارروائیاں کیں۔کارروائی کا ہدف حافظ گل بہادر گروپ سے تعلق رکھنے والے دہشت گرد تھے۔ گل بہادر گروپ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مل کر پاکستان کے اندر متعدد دہشت گرد حملوں کا ذمہ دار ہے، جس کے نتیجے میں سیکڑوں شہری اور قانون نافذ کرنےوالے اہلکاروں کی شہادتیں ہوئی ہیں۔شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی کی سیکیورٹی چیک پوسٹ پر 16 مارچ کو ہونےوالے حملے میں بھی حافظ گل بہادر گروپ ملوث ہیں، جس میں دو اعلیٰ افسران سمیت 7 پاکستانی فوجی شہید ہوئے تھے۔ گزشتہ دو سالوں کے دوران، پاکستان نے متعدد بار افغانستان کے اندر ٹی ٹی پی سمیت دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی پر عبوری افغان حکومت کو اپنے سنگین تحفظات سے آگاہ کیا، یہ دہشت گرد پاکستان کی سلامتی کے لیے شدید خطرہ ہیں، اور پاکستانی حدود میں دہشت گردانہ حملوں کےلئے مسلسل افغان سرزمین کا استعمال کرتے رہے ہیں۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے کےلئے ہمیشہ بات چیت اور تعاون کو ترجیح دی ہے اور افغان حکام پر بارہا زور دیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنانے کےلئے ٹھوس اور موثر کارروائی کریں کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کےلئے استعمال نہ ہو پائے مگر کوئی نتائج سامنے نہیں آسکے۔ پاکستان افغانستان کااحترام کرتا ہے تاہم افغانستان میں اقتدار میں رہنے والوں میں سے کچھ عناصر ٹی ٹی پی کی سرپرستی کر رہے ہیں اور انہیں پاکستان کے خلاف پراکسی کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ گزشتہ کئی دہائیوں میں افغانستان کے عوام کےلئے پاکستان کی طرف سے دی جانے والی حمایت کو نظر انداز کیا ہے، ٹی ٹی پی جیسے دہشت گرد گروہ علاقائی امن اور سلامتی کے لیے اجتماعی خطرہ ہیں، پاکستان ٹی ٹی پی کی طرف سے لاحق خطرے سے نمٹنے میں افغان حکام کو درپیش چیلنج کا بخوبی ادراک رکھتاہے۔اس لیے پاکستان دہشت گردی کے خلاف مشترکہ حل تلاش کرنے اور کسی بھی دہشت گرد تنظیم کو افغانستان کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کو سبوتاژ کرنے سے روکنے کےلئے کام جاری رکھے گا۔واضح رہے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں افغان سرزمین کا مسلسل استعمال کیا جا رہا ہے، جبکہ افواج پاکستان گزشتہ 2 دہائیوں سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں۔ یہ بات عیاں ہو چکی ہے کہ پاکستان میں ہونےوالی دہشت گردی کی حالیہ لہر کو افغانستان سے مکمل حمایت و مدد حاصل ہے، پاکستان میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات میں افغانستان سے آئے دہشت گردوں کے ملوث ہونے کے واضح شواہد موجودہیں ۔ 12جولائی 2023کو ژوب گیریژن پر ہونےوالے حملے میں بھی افغانستان سے آئے دہشت گردوں کے ملوث ہونے کے واضح ثبوت ملے ہیں۔ اس کے علاوہ 6ستمبر 2023کو جدید ترین امریکی ہتھیاروں سے لیس ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں نے چترال میں 2فوجی چیک پوسٹوں پر حملہ کیا۔علاوہ ازیں 4نومبر2023 کو میانوالی ائربیس حملے کی منصوبہ بندی بھی افغانستان میں پناہ لیے ہوئے دہشت گردوں کی جانب سے کی گئی ، 12دسمبر2023 کو ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے درابن میں ہونے والے دہشت گردی کے حملے میں بھی افغانستان سے آئے دہشت گردوں کی جانب سے نائٹ ویژن گوگلز اور غیر ملکی اسلحہ استعمال کیا گیاجس میں کئی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں ،15دسمبر2023 کو ٹانک میں ہونےوالے دہشت گردی کے واقعے میں بھی افغانستان میں پناہ لیے ہوئے ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کے ملوث ہونے کے واضح ثبوت موجود ہیں ، 30 جنوری 2023 کو پشاور پولیس لائنز میں کی مسجد میں بھی دھماکے سے کئی قیمتی جانوں کانقصان ہوا تھا۔ اس حملے میں بھی افغانستان سے آئے دہشت گردوں کے ملوث ہونے کے واضح ثبوت موجود ہیں ۔دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے دوران شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی میں 16مارچ 2024 کو دہشت گردوں کی جانب سے حملے کے دوران قیمتی جانوں کے نقصان کے تانے بانے بھی افغانستان میں پناہ لیے دہشت گردوں سے جا ملتے ہیں ۔
بجلی مزیدمہنگی ہونے کاامکان
ابھی آئی ایم ایف سے مذاکرات پایہ تکمیل تک نہیں پہنچے اورنہ ہی مذکرات کی کامیابی کاعندیہ ظاہرکیاگیا ہے مذاکرات کاایک اوردورہوناباقی ہے مگر بجلی پہلے ہی مہنگی کردی گئی ہے اورفی یونٹ پانچ روپے اضافے کی درخواست نیپراکوجمع کرائی گئی ہے ۔سمجھ نہیں آتی کہ حکومت بجلی ،گیس اورپٹرول کے نام پر عوام کی کھال کب تک اتارے گی یہی وجہ ہے کہ عوام سرکاری اداروں سے مایوس ہوتے جارہے ہیں ۔نہ سرکاری ہسپتالوں میں علاج ومعالجہ صحیح نہ سرکاری تعلیمی سکولوں میں تعلیم درست ،یعنی سرکاری ادارے اپنی غلط پالیسیوں کے باعث عوام کے اندراپنی افادیت اوراہمیت کھوبیٹھے ہیں یہی حال اب بجلی کابھی ہے ۔بڑھتی ہوئی بجلی کے ریٹ اورمہنگائی کے باعث عوام کے گھروں پر سولر سسٹم لگانے کابندوبست کررکھا ہے غریب عوام سے لیکرمتوسط طبقے کے لوگ گھروں کے اندرسولرپینل لگانے پرمجبو رہیںجبکہ حکومتی اہلکاروہاں بھی ہاتھ رنگنے میںمصروف ہیں۔دوہزارروپے میں فروخت ہونے والاسولرپینل اس وقت اٹھارہ سے بیس ہزار روپے تک پہنچ چکاہے ۔سمجھ نہیں آرہی کہ حکومت اپنے غریب عوام سے کیاچاہتی ہے۔کہیں ایسانہ ہوکہ بجلی ،گیس اورپٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے تنگ آکرعوام سڑکوں پر آکرانقلاب کانعرہ نہ لگادے اگرایساہوگیاتویہ ایک بہت بڑاالمیہ ہوگااس سے پہلے نومئی والے دن ہم یہ چیزدیکھ چکے ہیں۔اطلاعات کے مطابق ایک ماہ کیلئے بجلی 5 روپے فی یونٹ مہنگی ہونے کا امکان ہے، سنٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی نے بجلی مہنگی کرنے کی درخواست نیپرا میں جمع کرادی۔اضافہ فروری کے فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں مانگا گیا ہے، نیپرا 28مارچ کو سی پی پی اے کی درخواست کی سماعت کریگی۔ درخواست منظور ہونے پر صارفین پر 40ارب روپے سے زائد بوجھ پڑے گا۔یکم جولائی سے بجلی مزید مہنگی ہوگی، حکومت کی آئی ایم ایف کو یقین دہانی سی پی پی اے کی درخواست میں کہا گیا ہے کہ فروری میں 6 ارب 87کروڑ 60 لاکھ یونٹ بجلی فروخت ہوئی، اس دوران پانی سے 24.77 فیصد، مقامی کوئلے سے 13.94فیصد، درآمدی کوئلے سے 1.89فیصد بجلی پیدا کی گئی۔ فروری میں مقامی گیس سے 11.04اور درآمدی ایل این جی سے 20.33فیصد اور جوہری ایندھن سے 23.29فیصد بجلی پیدا کی گئی۔درخواست منظوری پر اضافے کا اطلاق کے الیکٹرک صارفین پر نہیں ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri