کالم

افغان سرزمین کا پاکستان کیخلاف استعمال الزام نہیں

پاکستان اور افغانستان کے درمیان عارضی جنگ بندی ہوئی ہے اور بھی صرف 48گھنٹے کیلئے۔یہ بات کتنی تکلیف دہ ہے کہ جس ملک کی لاکھوں عوام کو چالیس سال سے زائد عرصہ تک اپنی سرزمین پر سر چھپانے کی جگہ دی اور جس حکمران جتھے کو دوبارہ اقتدار تک لانے کی راہ ہموار کی،اسی ملک کا عاقبت نا اندیش اور نمک حرام حکمران ٹولہ پاکستان کو ہی آنکھیں دکھا کر مودی اور اور نئی دہلی کے ایجنٹ ہونے کاخود ہی ثبوت دے رہا ہے۔ افغانستان کی سرزمیں پاکستان کے خلاف کھلے عام استعمال ہو رہی ہے، اس بارے دنیا اچھی طرح آگاہ ہے۔پاکستان نے طالبان حکومت سے یہی ایک تعاون چاہ ہے،جس کا جواب منفی میں دیا جا رہا ہے۔ افغان سرزمین کے پاکستان کے خلاف استعمال کا معاملہ دونوں ممالک کے درمیان طویل عرصے سے کشیدگی کی بڑی وجہ بنا ہوا ہے،اور سرحدی جھڑپوں میں حالیہ اضافے کے کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے۔پاکستان کا اصرار ہے کہ افغانستان کی سرزمین پر قائم ٹی ٹی پی کے محفوظ ٹھکانے پاکستان کے اندر دہشت گردانہ حملوں کیلئے استعمال ہو رہے ہیں۔ پاکستان کی یہ شکایت بنیادی سبب ہے کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی کیخلاف کارروائی سے کیوں گریزاں ہیں۔
اسلام آباد کی جانب سے ایک بار پھر کابل پر زور دیا گیا ہے کہ وہ دہشت گرد گروہوں کو اپنی سرزمین پاکستان کیخلاف استعمال کرنے سے روکے لیکن افغانستان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد پر حالیہ عسکری جھڑپیں اور اس سے پیدا ہونے والی کشیدگی ایک گہرے سیاسی و سلامتی بحران کی علامت ہیں۔ یہ تصادم فروری میں پیش آنے والے اس واقعے کے بعد سے شدت اختیار کر گیا ہے، جب افغان طالبان کی جانب سے پاکستانی سرحدی چوکیوں پر مبینہ حملوں کے نتیجے میں دونوں اطراف سے جانی نقصان کی اطلاعات سامنے آئی تھیں۔ افغانستان میں چھپی تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے پاکستان کے اندر بار بار دہشت گردانہ حملوں اور سرحد پر افغان طالبان کی جارحیت میں اضافے کے بعد، کابل حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی کشیدگی نہ تو اچانک ہے اور نہ ہی بے بنیاد۔تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ یہ افغانستان کی سرزمین سے شروع ہونے والی سرحد پار دہشت گردی کے سالوں کے براہ راست نتائج ہیں۔ جب 2021میں طالبان نے کابل پر کنٹرول حاصل کیا، تو پوری دنیا نے اپنے سفارتخانے بند کر دیے جبکہ پاکستان نے اپنا مشن کھلا رکھا اور انخلا کے مشکل دورانیے میں لوگوں کے محفوظ راستے کو بھی یقینی بنایا۔ اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی فورمز پر انخلا کے بعد ہونے والی ہر بحث میں، پاکستان نے افغان عوام کی مدد کیلئے ان کے9 ارب ڈالر کے منجمد اثاثوں کو جاری کرنے کی اپیلیں بھی کیں،تاکہ افغانستان اپنے پیروں پہ کھڑا ہو سکے۔ پاکستان نے ہر علاقائی پلیٹ فارم جیسے معاشی تعاون کی تنظیم (ECO) کا استعمال کرتے ہوئے افغان عوام کے حق میں امدادی اقدامات کی بھر پوروکالت بھی کی۔
پاکستان ہر مشکل وقت میں افغانستان میں امن اور استحکام کیلئے کھڑا ہوا، لیکن بدلے میں افغانستان ٹی ٹی پی کی مسلح آماجگاہ بنا کر پاکستان ہی خلاف استعمال ہونے لگا ہے۔ بار بار اشتعال انگیزیوں کے باوجود، پاکستان نے مذہبی، قبائلی اور سرکاری چینلز کے ذریعے پرامن کوششیں جاری رکھیں۔ جولائی 2022میں، محترم مفتی تقی عثمانی کی قیادت میں علما کے 8 رکنی وفد نے طالبان اور ٹی ٹی پی کو پاکستان کے اندر حملے بند کرنے پر قائل کرنے کیلئے کابل کا دورہ کیا۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد، امن اور رواداری کا یہی پیغام لے کر 17 اراکین پر مشتمل ایک قبائلی جرگہ بھی کابل گیا۔جبکہ دوسری طرف افغان طالبان کے وزیر خارجہ کا نئی دہلی کا دورہ اور انڈیا کیساتھ بحال ہوتے سفارتی تعلقات نے پاکستان میں اس خدشے کو ہوا دی ہے کہ افغان سرزمین کو انڈیا کے توسط سے پاکستان کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے اور درست خیال ہے کہ 2021 میں طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد پاکستان نے یہ توقع کی تھی کہ نئی افغان حکومت ٹی ٹی پی کے معاملے پر پاکستان کے تحفظات کا از خود خیال رکھے گی۔ جب ایسا نہیں ہوا تو پاکستان کا مایوس ہونا اور اس کا ردعمل ظاہر کرنا قدرتی تھا۔ ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ اگر ٹی ٹی پی کے حملے جاری رہے تو پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی تصادم کے مزید واقعات رونما ہو سکتے ہیں۔ کیوں کہ پہلے دونوں ملکوں کے درمیان معمولی جھڑپیں ہوتی تھیں لیکن اب باقاعدہ جنگ جیسی صورتحال ہے جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ مبصرین کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کے شدید فقدان نے اس بحران کو جنم دیا ہے۔ افغان طالبان مسلسل دباؤ کے باعث انڈیا کے قریب ہو رہے ہیں، جسے پاکستان اپنے لیے ایک چیلنج سمجھتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان موجودہ کشیدگی ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جسکی جڑیں دہشت گردی کے تواتر کے ساتھ ہونے والے واقعات ہیں جن کا پاکستان کو سامنا ہے۔صورتحال انتہائی نازک ہے اور اس کے مزید بگڑنے کے خطرناک امکانات ہیں۔ اس بحران کے حل کے لیے نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان براہ راست مذاکرات کی ضرورت ہے بلکہ علاقائی سطح پر ثالثی کی کوششیں بھی کارگر ثابت ہو سکتی ہیں۔سعودی عرب اور قطر جیسے ممالک نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے دونوں فریقوں سے تحمل سے کام لینے کی اپیل کی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے