کالم

افغان طالبان کے گمراہ کن بیانات

افغان طالبان کے ترجمان کی جانب سے پاکستان مخالف اور گمراہ کن بیانات کے بعد وزیر دفاع خواجہ آصف نے نہایت سخت ردعمل دیتے ہوئے واضح پیغام دیا ہے کہ پاکستان کی ریاست، قوم، سیاسی اور عسکری قیادت ایک صفحے پر ہیں۔ خواجہ آصف نے اپنے سوشل میڈیا اکانٹ ایکس پر ایک جامع پوسٹ میں کہا کہ افغان ترجمان کے بدنیتی پر مبنی الزامات کا بھرپور جواب دیا جائے گا کیونکہ یہ بیانات حقائق سے کوسوں دور ہیں اور صرف الزام تراشی کے ذریعے اپنی ناکامیوں کو چھپانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ وزیر دفاع نے کہا کہ پاکستان کی افغان پالیسی مکمل طور پر قومی مفاد میں ہے اور اس کے بنیادی مقاصد علاقائی امن، استحکام اور باہمی احترام کے اصولوں پر مبنی ہیں۔ ان کے مطابق پاکستان کی سکیورٹی پالیسیوں پر نہ صرف ادارہ جاتی ہم آہنگی موجود ہے بلکہ پوری قوم کا اس پر اتفاق رائے بھی حاصل ہے۔ خواجہ آصف نے دوٹوک انداز میں کہا کہ پاکستان اور بالخصوص خیبر پختونخوا کے عوام افغان طالبان کی سرپرستی میں جاری بھارتی پراکسیوں کی دہشتگردی سے بخوبی واقف ہیں اس میں کسی قسم کا ابہام نہیں۔ یہ بیان اس امر کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ پاکستان کے اندر دہشت گردی کے بیشتر واقعات سرحد پار موجود دہشت گرد نیٹ ورکس سے جڑے ہوئے ہیں، جنہیں افغانستان کی سرزمین سے مدد ملتی ہے۔ وزیر دفاع نے کہا کہ افغان طالبان اگر واقعی پڑوسی ممالک کے ساتھ امن و بھائی چارے کے خواہاں ہیں تو انہیں اپنی سرزمین کسی کے خلاف استعمال ہونے سے روکنی ہوگی۔خواجہ آصف نے افغان طالبان کی حکومت کو غیر نمائندہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ شدید اندرونی دھڑے بندی بدانتظامی اور انتشار کا شکار ہے۔ ان کے مطابق افغان عوام آج بھی سیاسی، سماجی اور معاشی استحکام سے محروم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغان طالبان خواتین، بچوں اور اقلیتوں پر مسلسل جبر کر رہے ہیں۔ اظہار رائے، تعلیم اور نمائندگی کے حقوق سلب کیے جا چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ خواتین کی تعلیم پر پابندیاں، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک اس بات کا ثبوت ہے کہ طالبان حکومت اپنے وعدوں سے منحرف ہو چکی ہے۔ وزیر دفاع نے یاد دلایا کہ طالبان نے 2021میں اقتدار سنبھالتے وقت عالمی برادری سے وعدہ کیا تھا کہ وہ انسانی حقوق، شمولیت اور دہشت گردی کے خاتمے کیلئے عملی اقدامات کرینگے ۔ مگر چار برس گزرنے کے باوجود افغان طالبان اپنے کسی وعدے پر پورا نہیں اترے۔ انہوں نے کہا کہ آج بھی افغانستان میں دہشت گرد تنظیموں کے محفوظ ٹھکانے موجود ہیں جو نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ خواجہ آصف نے طالبان حکومت پر الزام عائد کیا کہ وہ اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے جوش خطابت، بیانیہ سازی اور بیرونی ایجنڈوں پر عمل کر رہی ہے۔ ان کے مطابق طالبان دراصل بیرونی عناصر کی پراکسی کے طور پر کردار ادا کر رہے ہیں تاکہ خطے میں عدم استحکام پیدا ہو اور پاکستان کی ترقی و امن کو نقصان پہنچے۔ یہ اشارہ واضح طور پر بھارت کی جانب تھا جس پر پاکستان بارہا الزام لگا چکا ہے کہ وہ افغانستان کے راستے دہشت گرد گروہوں کی مدد کرتا ہے تاکہ پاکستان میں بدامنی پھیلائی جا سکے۔ وزیر دفاع نے اس موقع پر پاکستان کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ ریاست اپنے شہریوں کے تحفظ کیلئے ہر ممکن قدم اٹھائے گی۔ پاکستان اپنے شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانے اور خوارج کی گمراہ سوچ کو ناکام بنانے کیلئے سرحد پار دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن اقدامات جاری رکھے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ قومی سلامتی پر کسی بھی قسم کا سمجھوتہ ممکن نہیں۔خواجہ آصف نے افغان ترجمان کے بیانات کو جھوٹا پروپیگنڈا قرار دیتے ہوئے کہا کہ جھوٹے بیانات سے حقائق تبدیل نہیں ہو سکتے اعتماد کی بنیاد صرف عملی اقدامات سے قائم ہوتی ہے۔ ان کے مطابق اگر افغان طالبان واقعی پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانا چاہتے ہیں تو انہیں زمینی حقیقتوں کو تسلیم کرنا ہوگا اور اپنے عمل سے امن کی نیت کو ثابت کرنا ہوگا ۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کے استحکام کیلئے مثبت کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان نے لاکھوں افغان مہاجرین کو پناہ دی ان کی میزبانی کی اور عالمی برادری کے ساتھ ملکر افغانستان کی تعمیر نو میں حصہ لیا۔ اس کے باوجود پاکستان کے خلاف غیر ذمہ دارانہ بیانات افسوسناک اور غیر منصفانہ ہیں۔ خواجہ آصف کا بیان دراصل ایک واضح پیغام ہے کہ پاکستان اب نرم پالیسی کے بجائے عملی ردعمل کے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ افغان حکومت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ دہشت گردی یا پراکسی وار کے ذریعے پاکستان کو دبایا نہیں جا سکتا۔ پاکستان کی دفاعی صلاحیت، قومی یکجہتی اور ادارہ جاتی ہم آہنگی اسے ہر چیلنج سے نمٹنے کے قابل بناتی ہے۔ آخر میں وزیر دفاع نے ایک بار پھر واضح کیا کہ پاکستان کی افغان پالیسی کسی دبا، مفاد یا خوف پر مبنی نہیں بلکہ مکمل طور پر قومی مفاد، علاقائی امن اور بین الاقوامی اصولوں کے تحت تشکیل دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نہ تو کسی کے ایجنڈے پر چلے گا اور نہ کسی کی پراکسی بنے گا۔ ان کا مقف دراصل پاکستان کے اس مستقل اصولی مقف کا تسلسل ہے کہ دہشت گردی، مداخلت اور جھوٹے بیانیوں کے خلاف پاکستان کا جواب ہمیشہ عملی اقدامات ہوں گے نہ کہ بیانات وزیر دفاع کے الفاظ میں جھوٹے بیانات سے حقائق نہیں بدلیں گے عملی اقدامات ہی اعتماد کی بنیاد ہیں۔ یہ بیان صرف ایک سیاسی ردعمل نہیں بلکہ ایک پالیسی اعلان بھی ہے کہ پاکستان اب خطے میں امن کا خواہاںہے مگر کمزوری نہیں دکھائے گا۔ افغانستان کے ساتھ تعلقات برابری، احترام اور عملی تعاون کی بنیاد پر ہی آگے بڑھ سکتے ہیں الزام تراشی اور پراکسی پالیسیوں سے نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے