کالم

اقبال ؒنے مسلم امہ کو ترقی و منازل کی نئی راہیں فراہم کیں

علامہ اقبالؒ نے اپنی شاعری میں قرآن و حدیث سے مستعار دینی، اخلاقی، سیاسی، معاشی، اور اقتصادی اصول و ضوابط سے اہل اسلام کےلئے ترقی ومنازل کی نئی راہیں فراہم کیں، اسی وجہ سے وہ ”حکیم الامت“ اور ”شاعر مشرق“ کے خطابات سے جانے اور مانے گئے۔
علامہ اقبالؒ کی جہد مسلسل اور تفکر نے امت مسلمہ، بالخصوص مسلمانان بر صغیر پاک و ہند کو ایک نئی نظریاتی حیات سے نوازا۔ انھوں نے اپنی ہمہ گیر شاعری میں نصح و خیرخواہی، تشبیہات، استعارات، تمثیلات، واقعہ نگاری، خاکہ نگاری وغیرہ جو اصناف استعمال کی ہیں، ان سے امت مسلمہ کے لیے ان کے جذبات و احساسات کا بہ خوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ان کی شاعری میں امت کی انفرادی اور من حیث الامت اجتماعی ذمہ داری کو بڑے دردمندانہ احساس میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
قلم کاروان اسلام آبادعالمی مجلس بیداری فکر اقبالؒ کی فکری نشست میں جناب اکرم الوری نے”تیری نسبت براہیمی ہے معمارجہاں توہے”کے موضوع پر تقسیم ہندسے اپنی تقریرکاآغازکیااور کہاکہ علامہؒ کااصل کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے ہندوستانی مسلمانوں میں پیغمبرانہ حکمت پیداکرنے کی کوشش کی ہے اور علوم وحی و علوم حسی میں فرق سمجھایاہے۔ اس وقت امت مسلمہ کو تعمیرجہاں کامرحلہ کادرپیش ہے جہاں تخریبی قوتیں مدمقابل ہیں اورانہوں نے اخلاقی ، سماجی ، نظریاتی،معاشی اورمعاشرتی گویاہرلحاظ سے اس جہان و تباہ و بربادکرکے رکھ دیا ہے ۔ فاضل مقررنے نے علامہؒ کے خطبات کے حوالے سے بتایاکہ تقریراورتکرارباہم متضادہوتے ہیں چنانچہ اسلام کی ساخت میں اصول حرکت کے لیے اجتہاد کے عمل کوضروری سمجھاگیاہے۔علامہؒ کے خطبات سے فاضل مقررنے فرد،معاشرہ اورریاست پر گفتگو کرتے ہوئے امت مسلمہ کی نئی قیادت کی فراہمی پرزوردیااورایک عالمی بیانیے کی فراہمی کوبھی ازحدضروری قراردیاتاکہ دنیابھرکے لوگ اس نئی مسلمان قیادت پراعتمادکریں۔شر کاءکا کہنا تھا کہ موجودہ سیاسی نظام کی اصلاح سے ہم عالمی قیادت کی فراہمی کافریضہ سرانجام دے سکتے ہیں۔ قومی پارلیمان صرف قانون سازی کرے اور تعمیراتی و ترقیاتی امور بلدیاتی قیادت کے ذمے ہوں۔ اس طرح قوم کے اصل محسنین اوربانیان پاکستان کو دانستہ پردہ اجہال میں دھکیلاجارہاہے جوکہ ہمارے مسلسل زوال کی ایک بہت بڑی وجہ ہے۔ صرف ایک سیاسی جماعت ایسی ہے جواصل مشاہیرومحسنان قوم کو اپنے ساتھ لے کرچل رہی ہے جب کہ ساری سیاسی قیادت انہیں فراموش کرچکی ہے۔ بزرگوں کااحترام ہماری روایات میں سے ہے اور ان کے موقف کو اہمیت اوروزن دیناچاہیے۔ اپنے مشاہیرکی طرف آنے کے لیے ضروری ہے کہ اقبالؒیات کوایک لازمی مضمون کی حیثیت سے پڑھایاجائے تاکہ آنے والی نسل کوقیام پاکستان، تحریک پاکستان،نظریہ پاکستان،بانیان پاکستان اور مقاصدپاکستان ذہن نشین ہو سکیں۔ تدریس اقبالؒیات سے معاشرے میں پھیلی ہوئی عام مایوسی بھی اپنے انجام کوپہنچے گی اور خودآگاہی کے درس خوش آئندسے ہماری اجتماعی خودی کی تعمیر کاسفر بھی شروع ہوگا اور قوم کی درآمدی قیادت سے بھی جان خلاصی ہوجائے گی۔
علامہؒ امت مسلمہ کو اپنے دینی، سیاسی، انفرادی اور اجتماعی معاملات میں اپنے اصل منبع اور مرجع کی طرف رجوع کرنے اور ان سے تائید و نصرت طلب کرنے کے لیے نصیحت کرتے ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کے ایک ارشاد کی منظوم ترجمانی کرتے ہوئے فرماتے ہیں
ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے؟ رہروِ منزل ہی نہیں
بلا شبہ، اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت شامل حال ہوتی ہے، مگر اس کی یہ سنت انھی لوگوں کے لیے کار فرما ہوتی ہے جو اس کی راہ پر چلتے اور اس کے احکام پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اپنے آپ کو اس کے قابل بناتے ہیں۔ امت مسلمہ کی بیداری کے لیے اصل منبع اور ماخذ قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ ہے، علامہ اقبالؒ نے بھی اس کے لیے اصل سرچشمہ اور مرجع قرآن مجید ہی کو قرار دیا ہے۔ انھوں اپنے اس موقف کو اپنے درج ذیل شعر میں اس طرح بیان فرمایا ہے
قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلمان
اللہ کرے تجھ کو عطا جدت کردار
اس کے ساتھ ساتھ علامہ اقبالؒ امت مسلمہ کو بیداری کا درس دیتے ہوئے ان کی تقلیدی روش پر سرزنش بھی کرتے ہیں
اقبالؒؒؒ بلاشبہ ایسے ہی شاعر ہیں جن پہ اللہ کا خاص کرم ہوتا ہے۔ اقبالؒؒؒ کی زندگی کا خاصہ قر آن فہمی اور عشقِ قرآن بھی تھا، اس لئے کہ وہ جانتے تھے کہ قرآن کو محض اساطیر الاولین خیال نہ کر لیا جائے بلکہ اس میں موجود 750 آیات جو قرآن کا آٹھواں حصہ بنتا ہے ، آیاتِ معاملاتِ عمرانی کو اپنی زیست کا عملی اوڑھنا بچھونا بنا کر دنیا کے سامنے ایک مثالِ عمل پیش کرنی چاہئے۔وہ اس بات سے بھی خوب آشنائی رکھتے تھے کہ قرآن وہ کتاب ہے جو کتابِ صلوة کے ساتھ ساتھ کتابِ اعمال بھی ہے اور دونوں کو عملاً ماننا ایک مومن کی معراج ہے۔
یقیں محکم‘ عمل پیہم‘ محبت فاتح عالَم
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
یہ شعر پوری زندگی میں کامیابی کے حصول کے لئے کلیدی اہمیت کا حامل ہے کہ زندگی کے امتحانات کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کی سہ نکاتی حکمت عملی اقبالؒؒؒکی ضمانت یا گارنٹی کا درجہ رکھتی ہے۔ ایمان و یقین کامیابی کا پہلا مرحلہ ہے۔ اپنے ایمانی عقائد پر پختہ یقین کہ کامیابی کا راستہ ”توحید‘ رسالت‘ آخرت“ کے سائے میں طے ہوتا ہے۔ یعنی کائنات اللہ وحدہ لا شریک کی ملکیت ہے ہم اس کی دی ہوئی نعمتوں کو اس کی عطا کردہ ہدایات کے مطابق کام میں لائیں۔ کبھی اس کی یاد اوراطاعت سے غافل نہ ہوں۔ حضور رسول مقبول کی اطاعت و محبت عظیم ترین اور عزیز ترین سرمایہ حیات ہے اور اللہ کی مخلوق سے حسب مقام و مرتبہ محبت اورخیر خواہی کا طریقہ اپنائیں اور عفو و درگزر سے کام لینے میں مسرت و سکون محسوس کریں۔ یہ پورا فلسفہ حیات قرآن پاک سے ماخوذ ہے۔ ج±ہدِ مسلسل سے زندگی کو حسن و کمال ملتا اور کامیابیاں نصیب ہوتی ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے