کالم

اقبال فکر و فن

afsar_aman

اس کتاب میں ایم ڈی تاثیر نے اپنے مضمون جو مختلف رسالوں میں اقبال کی موت کے بعد شائع کیے تھے لیے ہیں ۔آج ان پر تبصرہ کرنا ہے ۔ سننے میں آیا ہے کہ ڈاکٹر محمد دین تاثیر ایم ڈی تاثیرکو اپنا نام محمد تاثیر لکھنے کے بجائے ”ایم ڈی تاثیر“ لکھنے پر بضد رہتے تھے۔یہ ایک جانی پہچانی شخصیت ہیں۔ ان پر قادیانی ہونے کا الزام بھی لگتا ہے ۔جو ان کی کارگزاری کی وجہ سے ہی ہوگا ۔ ان کے بیٹے سلمان تاثیر پنجاب کے گورنر رہے ہیں ۔ملعونہ آسیہ کے ساتھ یکجہتی کے لیے جیل جار کر پریس کانفرنس کی تھی اور اسی وجہ سے اپنی انجام کو بھی پہنچے تھے۔ اوران کے بیٹے کو بھی لندن میں قادیانیوں کے مرکز میں دیکھا جا سکتا ہے۔ وہ امریکا کے سابق صدرڈونلڈ ٹرنپ کے پاس ایک قادیانی کو ساتھ لیے پریس کانفرنس میں بھی دیکھے گئے تھے ۔ ایک مضمون میں تاثیر لکھتے ہیں کہ امام جماعت قادیان سے تعلقات بگڑنے کے مراحل بغور دیکھے۔بحر حال ، اقبال، اقبال ہے۔اس کو اپنے پرائے سب چاہتے تھے ۔ کتاب” اقبال کا فکر و فن“ میں تاثیر کے کچھ مضامین شامل کیے گئے ہیں۔ آج ان پر تبصرہ کرنا مقصود ہے۔یہ کتاب ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار اعزازی سیکر ٹری بزم اقبال کلب روڈ لاہور نے مومبر ۴۹۹۱ءمیں شائع کی۔محمد تاثیر ۸۲ فروری ۲۰۹۱ءمیں کو امرتسر کے ایک قصبہ اجنالہ میں پیدا ہوئے۔پھر اپنے خالو نظام الدین کے گھر لاہور آگئے۔ان کے زیر سایہ تعلیم حاصل کی۔محکمہ اطلاہات میں علامہ اقبال کی سفارش پر ملازمت حاصل کی۔۴۲۹۱ءمیں نیرنگ خیال کے جوائنٹ ایڈیٹر بنے۔علامہ اقبال کے ذریعے اسلامیہ کالج میں ملازمت ملی۔۳۳۹۱ ءمیں تاثیر نے ایک سالانہ مجلہ ”کارواں“نکالا۔اقبال کے فکر وفن پر مختلف اوقات میں لکھے گئے تاثیر کے مضمون کتاب ”اقبال فکر وفن“ میں شامل کیے گئے ہیں ۔ تاثیر اپنے ایک مضمون میں اقبال بارے لکھتے ہیں کہ ”اُردو میں شعر نازل ہی نہیں ہوتے“یوں فارسی کو چھوڑ کر اُردو میں کہنا سنگ مرمر کی بجائے گارے کی عمارت بنانا ہے ۔ تمہارے اور دیگرعزیزوں کے اصرار سے اُردو کی طرف میلان ہو رہا ہے۔ یاد رہے کہ اقبال کے چھ شعری مجموعہ فارسی میں ہیں اور چار اُردو میں ہیں ۔ تاثیرایک مضمون میں لکھتے ہیں میاں امیر الدین ، چودھری محمد حسین۔ منشی طاہر دین اور بھتیجے اعجازکو علامہ اقبال نے اپنے بچوں کا گاڑدین بھی مقرر کیا تھا۔لکھتے ہیں کہ دیگر دوستوں کے علاوہ چوہدری نیاز علی کا نام آتا ہے۔ جنہوں نے سید مودودی صاحب کو اپنے ”دارالاسلام“ میں بلایا ۔ لکھتے ہیں مجھے معلوم تھا کہ ڈکٹروں کی رائے میں ان کی زندگی کب کی ختم ہو چکی ہے۔زندہ اور زندگی بخش آج وفات پا گئے۔اقبال کہتے ہیں کہ ایک انحطاط پسند فن کار کسی قوم کےلئے چنگیز اور ہلاکو کی فوجوں سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتا۔ایک رات اقبال جب بستر پر لیٹے ستاروں کی طرف ٹکٹکی باندھے دیکھ رہے تھے۔ اشعار کی آمد ۔یکایک شروع ہو گئے۔ اشعار تھے کہ امڈے چلے آ رہے تھے۔نہ پہلے انہیں علم ہوتا تھا مگر شعر برابر ہوتے رہتے تھے۔”اقبال کا نظریہ شاعری“ میں تاثیرلکھتے ہیںاٹھارویں اور انیسویں صدی میںہندوستان کی شاعری داغلی یا ذاتی شاعری تھی۔سب شاعر اپنے دکھڑے توتے تھے اور اور یہ درد دکھ تمام تر عاشقانہ تھا۔ اقبال نے وسعت بیان کے لیے مناسب ظرف مہیا کیا۔ پھر جب غزل لکھی تو اسے خیال کا پابند کیا نہ کہ خیال کو کو غزل کا پابند کیا۔”اقبال کا شاعرانہ فکر“ میں لکھتے ہیں کہ اقبال محض شاعر نہیں تھے۔آپ ایک فلسفی شاعر تھے۔ایک شعر کہ ۔
گفتار سیاست میں وطن اور ہی کچھ ہے
ارشاد نبوت میں وطن اور ہی کچھ ہے
”اقبال کا سیاسی نظام “کالم میں فرماتے ہیں کہ اس میں باقاعدہ پروگرام اور لائحہ عمل بھی ہے جو وقت کی ضرورت کے مطابق وضع کیا گیا۔”فلسفہ اقبال“ میں رقطراز ہیں ۔اسلام کی ابتدا حضرت آدم کے ظہور سے ہوئی اور اس کی تکمیل سرور کائنات فخر موجودات پیغمبر آخرالزمان حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد میں ہوئی۔ہر دور میں مجدد آتے رہے۔ایک گروہ کا خیال ہے علامہ اقبال اول و آخر شاعرتھے۔ دوسرا عین اس کے الٹ کہتا اقبال شاعر تھے ہی نہیں ۔ اول و آخر حکیم الامت تھے۔کیوں نہیں خود نہیں کہا کہ:۔
شاعری زیں مثنوی مقصود نیست
بت پرستی بت گری مقصود نیت
اس کی تاہید میں اقبال کے کیے اشعار نقل کیے ہیں۔”کلام اقبال“میں فرماتے ہیں نہ جانے یہ اسلامیت کو شاعری کے منافی قرار دینے والے حضرات کیوں بھول جاتے ہیں کہ دنیا بڑے شاعر، صنمیات، عیسائیت اور ہندو مت کے عقائد کو شاعری میں شامل کرتے ہوئے متحصب تھے۔اقبال کی اسلامیت تعصب سے بہت دور ہے۔اقبال کہتا ہے کہ میں تمام انسانوں کو اخوت اور انسانیت کا سبق دیتا ہوں۔”ایک شام“ دریائے نیکر( ہائڈیل برگ) کے کنارے پر نظم کو بھی پیش کیا گیا ۔ ”اقبال ایک آفاقی شاعر“ کے کالم میں لکھتے ہیں ڈاکٹر اقبال فوت ہوچکے ہیں مگر اب ان کا چرچا پہلے بھی زیادہ ہے۔”اقبال اور غزل“ کے عنوان میں فرماتے ہیںدور جدیدمیں غزل کی صلاحیتوں کی نمایندگی اقبال کرتے ہیں۔ جنہوں نے (دیوان مغرب) کے جواب میں (پیام مشرق) تحریر کیا۔”شکوہ جواب شکوہ“ کے ضمن میں رقم طراز ہیں کہ ۷۵۸۱ کی جنگ آزادی کی نکبت اور بد ہالی کا نقشہ( مسدس حالی) میں کھینچا گیا۔ جب کی اقبال نے (شکوہ) لکھا اور اس وقت مسلمانوں کی پسماندگی کی آئینہ دار ہے۔”میرا پیار اور ہے“ میں فرماتے ہیں کہ:۔
شکایت ہے مجھے یارب خداوندان مکتب سے
سبق شاہین بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا
”عشق اور عقل“ کے مضمون میں رقمطرز ہیں اقبال کے کلام میں جا بجا عقل کی فرد مائیکی پر طعن ہیں۔ ان کامشہور شعر ہے:۔
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
”اقبال میں تضاد نہیں“ کے تحت لکھتے ہیں کہ میں ادب کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ تضاد اگر ہے تو اس کار گاہ عالم میں ہمہ انسانی زندگی کے عام مظاہر میں ہے۔ اور یہ اضداد ہی کی کارفرمائی ہے جس سے حقیقت ہر آن شان جلوہ گر ہوتی رہتی ہے ۔ ”شذرات“ کے ضمن مین کہتے ہیں کہ یخما کی طرز کو تمام ایرانی معاصرین سے زیادہ کامیابی سے حضرت علامہ اقبال نے استعال کیا ہے ۔ (زبور عجم)میں بالخصوص ایسا رجذیہ انداز ہے کہ ایک نظم کو بیک مکرر پڑھنا طبیعت میں جوش پیدا کردیتا ہے۔” غالب کا ایک شعر اور علامہ اقبال کی شرع“اقبال ہندوستان نہیں، مشرقی نہیں دنیا کے بڑے بڑے شاعروں کا ہم رتبہ ہیں۔اس کا فلسفہ اور حکمت سب اس کی شاعری کا مواد ہے۔”غالب اور اقبال ۔ ایک شعرکی شرح“ میں بیان کرتے ہیں علامہ اقبال کے کلام میں اُردو کے تین شاعروں کے اثرات نمایاں نظر آتے ہیں ۔ داغ ان کے استاد تھے۔ اقبال نے داغ کا مرثیہ بھی لکھا۔اکبر کا اثر(اکبری اقبال) سے ظاہر ہے۔غالب کے کسی شعر کے سمجھنے میں دقت ہوتی تو علامہ مرحوم کی طرف رجوع کیا اور مشکلات حل ہو گئیں۔”شکم الملک،حضرت اکال الکال“ کے عنوان کی تشریح کرتے ہوئے کہتے ہیں فضائے اعلیٰ میں ایک(قرنا) کی آواز نے یکایک سکوت پیدا کر دیا۔معدہ لاﺅ۔۔معدہ لاﺅ جلد ایک انسانی معدہ لاﺅ۔ہاں اونٹ کا معدہ ہے۔ یہ معادہ لاﺅ اسے دونوں معدے لگا دیے گئے۔مختصر یہ کہ منہ کھلولے ہوئے بعد کے لیے بلبلتے ہوئے آئے۔”عالم گیر“علامہ اقبال کی فارسی نظم کا ترجمہ۔
ناجاری ہے اباں پر سب کی عالمگیر کا
دبدبہ ہر دل پہ ہے اس صاحب شمشیر کا
صاحبو! علامہ شیخ محمد اقبالؒ ایک ہمہ جہت آفاقی شاعر تھے۔ ایسے شاعر صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔اقبال نے ہمارے پیارے ملک مملک اسلامیہ جمہوری پاکستان کا خواب دیکھا تھا ۔ اس میں رنگ بھرنے کےلئے ناراض قائڈ اعظم محمد علی جناحؒ کو لندن سے واپس بلایا اور اللہ کی مدد اور برعظیم کے مسلمانوں کی قربانیوں بانی پاکستان کے جمہوری رویہ سے یہ مثل مدینہ ریاست عمل میں آئی تھی۔ اب یہ ہمارا فرض ہے کہ اسے قومیتوں اور روشن خیالی اور سکیرلرزم سے بچا کر ایک اسلامی ، فلاحی، جہادی اسلامی ریاست بنانا ہے۔ پاکستان امت مسلمہ کا فطری پشتی بان ہے ۔ دنیا میں امن قائم کرنا اس کی ذمہ داری ہے۔ یہ ایک ایٹمی اور میزائل قوت صرف اور صرف امن قائم کرنے کیلئے ہے۔ یہ اسی طرح ممکن ہے کہ ہم مجد وقت سید ابوالاعلی ٰمودودیؒ کے اس قول پر عمل کریں کہ ” قرآن اور سنت کی دعوت پر عمل کرتے ہوئے پوری دنیا پر چھا جاﺅ۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو۔ آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے