نیویارک میں اس وقت اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا 80واں اجلاس جاری ہے اور دنیا کی نظریں اس پر جمی ہوئی ہیں۔ شہر غیر معمولی رش کا منظر پیش کر رہا ہے۔ ایک لاکھ پینتیس ہزار ہوٹلوں میں سے نوے فیصد بک چکے ہیں۔ عام دنوں میں ایک کمرے کا کرایہ تین سو ڈالر ہوتا ہے مگر اجلاس کے دوران یہ بڑھ کر نو سو ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ یہ شہر اس وقت سفارت کاری اور سیاست کا مرکز بن چکا ہے۔یہ اجلاس ایسے وقت میں ہورہا ہے جب دنیا مختلف جنگوں اور انسانی بحرانوں میں گھری ہوئی ہے۔ ایک طرف عالمی رہنما تقریریں کر رہے ہیں تو دوسری طرف دنیا کے مختلف شہروں میں انسانی حقوق کے لئے مظاہرے ہو رہے ہیں۔ یہ منظر صاف دکھاتا ہے کہ عالمی ضمیر بے چین ہے اور اقوام متحدہ سے توقعات رکھنے کے باوجود عملی اقدامات کا فقدان گہرا مایوس کن تاثر دے رہا ہے۔ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی آمد اور تقریر اس اجلاس کی سب سے بڑی ہلچل ثابت ہوئی۔ ان کے سفر کے دوران شہر کی سڑکیں بند کرنا پڑیں۔ فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون ٹریفک میں پھنس گئے اور پیدل چلنے لگے لیکن پولیس نے انہیں روک دیا۔ بالآخر ٹرمپ کی مداخلت پر انہیں راستہ ملا۔ ٹرمپ کو خود بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ایلیویٹر بند ہو گیا تو انہیں سیڑھیاں چڑھنی پڑیں اور تقریر کے وقت ٹیلی پرامپٹر نے کام چھوڑ دیا۔ مگر اس کے باوجود انہوں نے پندرہ منٹ کے بجائے چھپن منٹ خطاب کیا۔ٹرمپ کی تقریر نہایت متنازعہ اور غیر معمولی تھی۔ وہ اپنی بات کسی بوڑھے بابا جی کی طرح بار بار دہراتے رہے ہیں انہوں نے اقوام متحدہ کے ادارے کو ناکام قرار دیا، یورپی اتحادیوں پر کڑی تنقید کی، ماحولیاتی تبدیلی کو فریب کہا، چین اور بھارت پر روس سے تیل خریدنے کے الزام لگائے، لندن کے میئر صادق خان تک کو ہدف بنایا اور فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے والے ممالک کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ اقدام دراصل حماس کو انعام دینے کے مترادف ہے۔ ٹرمپ نے دعوی ٰکیا کہ انہوں نے سات جنگیں ختم کی ہیں اور انہیں سات مرتبہ نوبل امن انعام ملنا چاہیے۔ ان کے اس جابرانہ اور جارحانہ انداز نے امریکہ کو مزید تنہائی کی طرف دھکیل دیا ہے۔ اس اجلاس میں دیگر رہنماؤں کی تقاریر بھی خاصی اہم رہیں۔ اردن کے بادشاہ عبداللہ نے اسرائیل کو خبردار کیا کہ اگر مسجد اقصیٰ کو نقصان پہنچا تو پورا خطہ آگ میں لپٹ سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی اسرائیل کی جانب سے غزہ میں جاری مظالم اور مبینہ نسل کشی پر کڑی تنقید کی۔ فرانس کے صدر میکرون نے ٹرمپ سے کھل کر اختلاف کیا اور ایک متوازن نقطہ نظر پیش کیا۔اور کہا کہ آپ کس طرح کہہ رہے ہیں کہ فلسطین کی آزاد ریاست تسلیم کرنے سے حماس کو فائدہ پہنچے گا ۔پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف کی ٹرمپ سے ملاقات محض چھتیس سیکنڈ پر مشتمل تھی لیکن میڈیا میں اس کی خاصی توجہ حاصل کر گئی۔ یہ منظر دلچسپ تھا کہ شہباز شریف ٹرمپ کا ہاتھ چھوڑنے کو تیار نہ تھے اور جلدی جلدی اپنی بات مکمل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ شہبازشریف کی شاید زندگی کی آخری خواہش تھی کہ ٹرمپ سے ملاقات ہوجائے میری خبر نیویارک سے یہ ہے کہ امریکہ کے صدر پاکستان سعودی دفاعی معاہدے سے خاصے ناراض ہیں وہ اس معاہدے کو نیا بلاک بنانے کے مترادف گردانتے ہیں اور سعودی پاکستان معاہدے کو سہ فریقی سمجھتے ہیں جس میں چین کی عملداری سے تشبیہہ دے رہے ہیں شاید آنیوالے دنوں میں وہ اس کا اظہار کر دیں ۔اس اجلاس کے دوران ایک اور اہم حقیقت یہ بھی نمایاں ہوئی کہ امریکہ اور اسرائیل دنیا میں تنہا ہوتے جا رہے ہیں جبکہ باقی ممالک اور اقوام ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ امریکہ کی جارحانہ جانبرادنہ پالیسیاں ہیں جو نہ صرف اس کے مخالفین بلکہ اتحادیوں کو بھی دور کر رہی ہیں یوکرین کی جنگ بندی اور غزہ کی جنگ بندی کیلئے انہوں نے وعدہ کیا لیکن وہ جنگ بند نہ کرواسکے بلکہ غزہ میں انسانی کشت خون میں وہ گزشتہ آٹھ ماہ میں شریک لگ رہے ہیں ٹرمپ کے دور میں دنیا پر ٹیرف لگانے اور صرف اپنے مفادات دیکھنے کے رویے نے امریکہ کو عالمی سطح پر مزید الگ کر دیا۔ آنیوالے دنوں میں ایسا لگتا ہے کہ بریکس کی طرز پر نئے اتحاد وجود میں آئیں گے۔ طاقت اور معیشت کے نئے مراکز ابھر رہے ہیں اور دنیا مزید منقسم ہونے جا رہی ہے۔ یہ تقسیم محض سفارتی بیانات تک محدود نہیں رہے گی بلکہ اس کے اثرات عالمی امن، معیشت اور طاقت کے توازن پر پڑیں گے۔ اگر امریکہ اور اس کے چند اتحادی اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی نہیں کرتے تو عالمی قیادت ان کے ہاتھ سے پھسل کر نئے اتحادوں کے گرد ترتیب پا سکتی ہے جبکہ عرب ممالک کھلے بندوں قطر اور ایران پر اسرائیلی حملوں کے بعد امریکہ پر عدم اعتماد کرنے کیلئے کھل کر سامنے آسکتی ہے ایسے میں چین روس انڈیا پاکستان عرب اور افریقین ممالک امریکہ سے دوری اختیار کرسکتے ہیں ۔اقوام متحدہ کا یہ اجلاس ہمیں یہ پیغام دے رہا ہے کہ دنیا اب یک قطبی نہیں رہی۔ تقاریر اپنی جگہ، مگر اصل فیصلے وہ اتحاد کرینگے جو نئے عالمی نظام کی بنیاد رکھیں گے ۔