بیت المقدس جو فلسطین میں واقع ہے اسے عیسائیوںاور یہودیوں اورمسلمانوں سے گہرا تعلق ہے۔صلیبی جنگوںکے زمانے میںبیت المقدس مسلمانوں کی حکومت سلطنت ِسلاجقہ کے قبضہ میں تھا۔ اس کے علاوہ سلاجقہ قسطنطنیہ کے دروازوں تک پہنچ گئے تھے۔ اس پرعیسائیوںمیںخوف وہراس پیدا ہوا۔ پاپائے روم نے سن1095ءمیں ایک بھاری مجلس مشاورت بلائی۔ قسطنطنیہ کے قیصر نے بھی اپنا سفیر مددکے لیے بھیجا۔ فرانس کے راہب پطرس نے اپنی آشتیں تقریروں سے عیسائیوں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکایا۔ عیسائیوں نے یہ لڑائیاں مسلمانوں کےخلاف لڑیں۔ عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان یہ صلیبی جنگیں دو سو سال جاری رہیں۔عیسائی سپاہی اپنے کپڑوں پر سرخ صلیب کا نشان لگاتے تھے اس لیے ان کو کروسیڈرزیعنی صلیبی سپاہی اور ان جنگوں کو کروسیڈ یعنی صلیبی جنگیں کہتے ہیں۔سن1096ءمیں پطرس راہب کی سرکردگی میں چالیس ہزار عیسائی یورپ سے ایشیا کی طرف راوانہ ہوئے۔جب یہ ایشیائے کوچک میں پہنچے تو سلجوقی سلطان قلج ارسلان نے ان پر حملہ کرکے ان کو ہلاک کر دیا۔ اس ناکامی کے بعد عیسائیوں نے سات لاکھ فوج کی مدد سے سلجوقی سلطان پر حملہ کر کے اس کے دارالحکومت نیقیہ پر قبضہ کر لیا۔وہاں پرصلیبیوں نے اپنی پہلی ریاست قائم کرلی۔ایک عیسائی لشکر نے شہر انطا کیہ کی طرف بڑھ کر اس پر بھی قبضہ کرلیا۔یہاں پر عیسائیوں نے ایک دوسری صلیبی ریاست نے قائم کی۔پھر صلیبی بیت المقدس کی طرف بڑھے اور سن1099ءمیں بیت المقدس پر قبضہ کر لیا۔ تین دن تک بچوں ، عورتوں اورعام باشندوں کا قتل عام کیا۔ ہزاروں یہودی بھی مارے گئے۔پہلی صلیبی جنگ میں بیت المقدس، انطاکیہ اور اڈیسہ میں عیسائی حکومتیں قائم ہو گئیںاور بیت المقدس پر عیسائی نوے سال تک قابض رہے۔عمادالدین کوسلجوق سلطان نے موصل کا حاکم بنایاتھا۔ اس نے عیسائیوں کے خلاف جارحانہ کاروائی کی۔اس کی وفات کے بعد اس کا بیٹا نورالدین زنگی موصل کا حکمران بنا۔ اس نے ساری عمر عیسائیوں کے خلاف جہاد کیا۔ ان سے انطاکیہ اور آس پاس کے علاقے واپس لے لیے ۔ یورپ کے عیسائیوں کو پتہ چلا تو وہ دوربارہ لشکر کشی کر کے دوسری صلیبی جنگ کےلئے تیار ہوگئے۔ عیسائی نو لاکھ فوج کے ساتھ آگے بڑھے تو سلجوقیوں کے ہاتھوں دمشق میں تباہ و برباد ہو گئے۔ جو بچے وہ سمندر کے راستے یورپ چلے گئے۔ اس طرح دوسری صلیبی جنگ کا خاتمہ ہوا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی مصر کا حکم تھا۔ عیسائیوں کے ساتھ سلطان صلاح الدین کا معاہدہ تھا۔ ایک عیسائی سردار نے مسلمان قافلہ پر حملہ کرکے اس کا مال اسباب لوٹ لیا۔ صلاح الدین نے بیت المقدس کے عیسائی حکمران سے ہرجانہ طلب کیا۔ انکار پر سلطان نے چڑھائی کرکے حطین کے مقام پر عیسائی لشکر کو شکست دی۔ باقی علاقے بھی فتح کر لیے۔ عیسائیوں کے پاس صرف صور،طرابلس، اور عسقلان کے ساحلی مقامات رہ گئے۔سلطان نے اس کے بعد بیت المقدس کا رخ کیااور شہر کا محاصرہ کر لیا۔ عیسائیوں نے ڈر کے مارے شکست منظور کرلی۔ اس پر سلطان نے تمام لوگوں کو عام معافی دے دی۔چالیس دن کے اندر اندر عیسائیوں کو بیت المقدس خالی کرنے کا حکم دیا۔ جب شہر خالی ہو گیا تو پھر سلطان جمعہ کو روز 1187 ءکو شہر کے اندر داخل ہوا۔ بیت لمقدس نوے سال بعددوبارہ مسلمانوں کے قبضے میں آگیا۔جب یورپ کو اس کی خبر ملی تو پورے یورپ کے عیسائی حکمران شاہ انگلستان کے جھنڈے تلے جمع ہوکر آگے بڑھ کر عکہ پر قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد عیسائی عسقلان کی طرف بڑھے مگر سلطان نے انہیں بیت المقدس کی طرف بڑھنے نہیں دیا۔ شاہ انگلستان جلد واپس جانا چاہتا تھا۔ اس لیے فریقین میں اس بات پر صلح ہوئی کہ عیسائی زائرین زیارت کرکے واپس چلے جائیں گے۔ اس طرح تیری صلیبی جنگ اپنے مقصد سے ناکام رہی ۔شاہ انگلستان کے واپس جانے کے بعد سلطان نے شہر کا انتظام مذید درست کیا۔ مدرسے اور شفاخانے قائم کرنے کے بعد دمشق کی طرف روانہ ہوا۔ کچھ عرصہ بعد سن1193 ءمیں وہیں راہی ملک بقاہوا۔سلطان صلاح الدین ایک بڑا نیک سیرت، شجاع، فیاض اور مدبر سلطان تھا۔ اس نے تمام عمر مسلمانوں کو یکجا کر مملکت اسلامیہ کو مضبوط کیا۔ جنگوں میں جو نقصان پہنچا اس کی تلافی کی۔قلعے تعمیر کیے۔ برباد شدہ مساجد اور عمارات کو دوبارہ تعمیر کیا۔ جابجا مدرسے قائم کیے۔ علماءاور صلحاءکا قددان تھا۔سلطان صلاح لدین کے بعد ان کی اولاد، دادا نجم الدین ایوبی کے نام سے ایوبی کہلائے۔پھر صلاح الدین کی اولادعیساﺅں سے لڑتی رہی۔ اگر چہ صلیبیں جنگوں کا سلسلہ جاری رہا مگر عیسائی لشکر اپنی اصلی مقاصد میں کامیاب نہ ہو سکے۔پھر عیسائیوں نے 1948ءمیں فلسطین پر یہود کو ذبردستی قبضہ کرا کر اسراعیلی ناجائز ریاست قائم کر دی۔ اسراعیل نے اس کے باشندوں کو فلسطین سے نکال دیا اور آج تک قابض ہے۔صلیبی جنگیں دو سال سال جاری رہیں۔ یورپ اور ایشیا دونوں براعظموں میں نہایت گہرے اور دور رس نتائج پیدا ہوئے، فریقین کا بے حد جانی نقصان ہوا۔ شام اور فلسطین میں تباہی پھیلی۔ عیسائیوں اور مسلمانوں میں عداوت اور منافرت کا جذبہ زروں پر رہا۔ جس کے اثرات اب تک باقی ہیں۔جب نائین الیون کاخود ساختہ واقع ہوا تو امریکا کے صدر جو ایک مذہبی جنونی ہے، نے کہا تھا کہ اس نے کروسیڈ دوبارہ شروع کر دی ہے۔ ہمارے سامنے ہے کہ یہود، نصارا اور ہنود نے مسلمانوں کو مارتے بھی ہیں اور ان کو اپنے دجالی میڈیا کے ذریعے دہشت گرد بھی ثابت کرتے ہیں ۔ افغانستان، عراق، لیبیا، بھارت، شام، کشمیر، فلسطین، برما،بوسینیا، چیچنیا وغیرہ اور خود پاکستان کے اندر عیسائی امریکہ نے یورپ اور ہندوستان کے ساتھ مل کر دہشت گردی پھیلا ئی ہوئی ہے۔ داش اور دیگر جنگجو تنظیمیںبنا کر مسلمانوں کی خو ن ریزی کی حد کر دی ہے۔ اپنی ناجائز اولاد اسراعیل کو کھلی چھٹی دی ہوئی ہے۔ وہ فلسطین پر قابض ہو گیا۔ مسلمان کسی سلطان نورالدین زنگی اور سلطان صلاح الدین ایوبی کی تلاش میں ہیں۔ اس وقت مسلمانوں کی پونے دو ارب آبادی ہے۔ مگر اس کے حکمرانوں کو عیسائی امریکہ نے قابو کیا ہوا۔ اس میں کسی کو مسلمانوں کا لیڈر نہیں بننے دیتا۔ چاہےے تو یہ ہے کہ تمام اسلامی ملک اپنی اپنی جنگی صلاحیت کو بڑھائیں اور پاکستان کی بھر پورمالی مدد کریں کہ وہ اپنا ایٹمی اور میزائل پروگرام کو ترقی دیکر مسلم دشمنوں کو للکارنے کے قابل ہو ۔ مسلمان دنیا میں ویٹو پاور حاصل کریں ۔ اقوام متحدہ یہود، نصارا کی لونڈی بنی ہوئی ہے ۔ مسلمان ملکوں کی اپنی اقوام متحدہ بنانی چاہےے ۔ مسلمان ملکوں کی مشترکہ اقتصادی منڈی ہونی چاہےے۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ مظلوم مسلمانوں کی مظلومیت کو ختم کرنے کےلئے کسی ایسے لیڈر کو پیدا کرے جو یہ سب کام کرکے دشمنوں کو مناسب جواب دے سکے ۔
٭٭٭٭٭
کالم
اللہ مظلوم فلسطینیوںکی مددفرمائے
- by web desk
- دسمبر 2, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 277 Views
- 1 سال ago
