امت مسلمہ اس وقت جن حالات سے نبرد آزما ہے؛ وہ سنگین اور تشویش ناک ہیں۔امتِ مسلمہ کا منتشر ہونا، اتحاد و یگانگت کا فقدان اور باہمی چپقلشیں محض اتفاقی نہیں بلکہ کئی تاریخی، سیاسی، سماجی، فکری اور مذہبی عوامل کا نتیجہ ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب مسلمان دنیا کے علمی، فکری، عسکری اور تہذیبی میدانوں میں رہنما تھے، آج اُمت مسلمہ انتشار، زوال اور کمزوری کی تصویر بنی ہوئی ہے۔ اس کی بڑی وجہ امت کا اپنے حقیقی اسلامی اصولوں سے روگردانی کرنا اور قومی، لسانی، مسلکی اور جغرافیائی تعصبات میں اُلجھنا ہے۔ اسلام نے مسلمانوں کو یک جسم کی مانند قرار دیا ہے کہ اگر جسم کے کسی ایک حصے کو تکلیف ہو تو سارا جسم بے چین ہو جاتا ہے۔ آج صورت حال یہ ہے کہ ایک مسلم ملک میں ظلم و ستم ہوتا ہے۔ معصوم جانیں قربان ہوتی ہیں اور دیگر مسلم ممالک خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ فلسطین، کشمیر، شام، یمن، لیبیا، افغانستان اور کئی دیگر مسلم خطے دِہکتے ہوئے زخم بن چکے ہیں، جہاں انسانی المیے روزانہ جنم لیتے ہیں۔ پوری امت مسلمہ کا ردِعمل محض مذمتی بیانات تک محدود ہے۔ اس رویے نے دشمنوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ امت مسلمہ اپنی صفوں میں کسی قسم کی عملی یک جہتی اور اجتماعی دفاع کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ انتشار کی ایک بڑی وجہ سیاسی قیادت کا بحران ہے۔ بیشتر مسلم ممالک میں حکومتیں یا تو آمرانہ نظام پر قائم ہیں یا ایسی جمہوریتوں پر جن میں عوام کی اصل شرکت نہ ہونے کے برابر ہے۔ ان ریاستوں میں حکمران طبقہ قومی مفادات کے بجائے اپنے ذاتی یا خاندانی اقتدار کو ترجیح دیتا ہے۔ اسلامی اصولِ شوریٰ، عدل اور مساوات کو نظر انداز کیا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں عوام کے اندر بداعتمادی، ناامیدی اور بغاوت کے جذبات پیدا ہو رہے ہیں۔ جب سیاسی استحکام نہیں ہوگا تو خارجی قوتیں اندرونی اختلافات کو مزید ہوا دیں گی، جس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ امت مزید ٹکڑوں میں تقسیم ہو جائے گی۔فکری اور نظریاتی اختلافات بھی انتشار کے اہم اسباب میں شامل ہیں۔ مختلف مسالک اور فقہی مکاتب فکر کے ماننے والوں کے درمیان نفرت، تعصب اور ایک دوسرے کو کافر یا گمراہ قرار دینے کا رجحان پھیل چکا ہے حالانکہ قرآن و سنت نے واضح طور پر مسلمانوں کو آپس میں بھائی قرار دیا ہے اور اختلافِ رائے کو فطری تسلیم کیا ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مسلکی تعصب نے دین کی روح کو پامال کر کے رکھ دیا ہے۔ علمائے دین اور دینی اداروں پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ امت کو جوڑنے کے بجائے توڑنے کا ذریعہ نہ بنیں۔ ہمیں اختلافات کو علمی دائرے میں محدود رکھ کر امت کے وسیع تر مفاد میں مشترکہ اقدار پر متحد ہونا ہوگا۔مغربی طاقتوں کی سازشیں بھی امت مسلمہ کے انتشار میں کردار ادا کر رہی ہیں۔ استعماری قوتیں ہمیشہ سے مسلم دنیا کی وحدت کو اپنے لیے خطرہ سمجھتی رہی ہیں۔ چنانچہ انہوں نے نہ صرف خلافت عثمانیہ کو توڑا بلکہ مسلم ممالک کو جغرافیائی حد بندیوں، قومیتوں اور مصنوعی ریاستوں میں تقسیم کر دیا۔ اس کے بعد سے مغرب نے مسلم دنیا میں اقتصادی، عسکری اور فکری انحصار پیدا کر کے ان کی خود مختاری کو محدود کر دیا۔ تعلیمی نظام کو اس طرح ڈھالا گیا کہ نئی نسل اسلامی تاریخ اور تشخص سے بے بہرہ ہوتی گئی اور مغرب کے مادی نظام کو ترقی کا معیار سمجھنے لگی۔ جب تک مسلم دنیا اپنے وسائل پر خود انحصاری اور تعلیمی خودمختاری حاصل نہیں کریگی,اس وقت تک وہ آزادی، ترقی اور اتحاد کا خواب پورا نہیں کر سکتی۔ایک اور وجہ معاشی ناہمواری اور سماجی عدل کا فقدان ہے۔ امت کے بیشتر ممالک یا تو قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں یا افرادی قوت سے، پھر بھی وہاں غربت، بھوک، بیروزگاری اور جہالت عام ہے۔ اس کی وجہ کرپشن،اقربا پروری اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ہے۔ جب ایک طبقہ دولت کے انبار پر بیٹھا ہو اور دوسرا دو وقت کی روٹی کو ترسے تو معاشرتی خلیج پیدا ہوتی ہے جو بالآخر قومی وحدت کو نقصان پہنچاتی ہے۔ان تمام مسائل کا حل اسی وقت ممکن ہے جب امت مسلمہ خود احتسابی کرے، ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھے اور اسلام کے اصل پیغام یعنی عدل، مساوات، اخوت، علم اور مشاورت کو اپنائے۔ ہمیں دوبارہ قرآن کی طرف رجوع کرنا ہوگا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کو اپنا عملی نمونہ بنانا ہوگا اور باہمی اتحاد کو صرف نعرے کی حد تک نہیں بلکہ عملی سطح پر نافذ کرنا ہوگا۔ اگر ہم نے اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے تو دشمن ہماری تقسیم سے فائدہ اٹھاتا رہے گا اور ہم مزید ذلت، غلامی، اور تباہی کی طرف بڑھتے جائیں گے۔آج کا سب سے بڑا جہاد یہی ہے کہ ہم امت کو بیدار کریں، تعلیم و تحقیق کو فروغ دیں، اختلافات کے باوجود متحد ہوں، اور دنیا کے سامنے ایک منظم، مہذب، اور مضبوط امت کے طور پر ابھریں۔ یہی وقت کا تقاضا ہے، یہی امت کی بقا کا راستہ ہے، اور یہی وہ فریضہ ہے جو ہر مسلمان پر فرض ہے۔