امریکہ کی 52 ریاستوںں میں طویل انتخابی مہم کے بعد چار نومبر 2024 کو امریکی عوام نے ری پبلیکن پارٹی کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کو دوسری بار امریکہ کے 47 ویں صدر کے طور پر منتخب کر لیا۔ اس طرح امریکی یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر جیمز لٹسمین نے 2024کے امریکی انتخابات میں نائب صدر کملا ھیرس کی کامیابی اور ٹرمپ کی شکست کی پیشین گوئی غلط ثابت ہو گئی ۔ٹرمپ نے الیکٹورل کالج کے 292ووٹ حاصل کیے جبکہ ان کی حریف کملا ھیرس 272 الیکٹورل ووٹ حاصل کر سکیں ۔ کملا ھیرس نے فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی شکست تسلیم کی اور ٹرمپ کو ٹیلی فون کرکے مبارکباد دی انہوں نے اقتدار کی منتقلی کے مختلف پہلووں کا جائزہ بھی لیا ۔ نتخابی مہم کے دوران دونوں صدارتی امیدوار ایک دوسرے کے خلاف زہر اگل رہے تھے لیکن انتخابی نتائج کے بعد کملا ھیرس نے اپنی شکست تسلیم کی اور دھاندلی کا الزام نہیں لگایا ۔ یہ ہے امریکی جمہوریت کا حسن ۔ ٹرمپ نے کامیابی کے بعد اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا انہوں نے کہا امریکہ کو مزید مضبوط بنائیں گے دنیا میں کوئی نئی جنگ نہیں چھیڑیں گے عوام پر ٹیکس کا بوجھ کم کریں گے ۔ دنیا بھر کے رہنماں کی طرف سے مبارکبادوں کا سلسلہ جاری ہے چین کے صدر نے بھی کامیابی پر ڈونلڈ ٹرمپ کو ٹیلی فون کرکے مبارکباد دی۔ وزیراعظم شہباز شریف نے ڈونلڈ ٹرمپ کو انتخابات میں کامیابی پرمبارکباد دیتے ہوئے کہاکہ پاکستان کی حکومت آپ کے ساتھ کام کرنے کی منتظر ہے۔ پی پی کے چیرمین بلاول بھٹو زرداری اور بانی پی ٹی آئی نے بھی ٹرمپ کو تاریخی کامیابی پر مبارکباد دی ۔ دراصل امریکہ کے صدرجوبائیڈن دوسری ٹرم کےلئے ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار تھے لیکن الیکشن مہم کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ پر حملے کی وجہ سے وہ صدارتی مقابلے سے دستبردار ہو گئے اور ڈیموکریٹک پارٹی نے نائب صدر کملا ھیرس کو صدارتی امیدوار نامزد کر دیا تھا ۔ دونوں امیدواروں نے ملک بھر میں بھرپور انتخابی مہم چلائی کئی ریاستوں میں اگر کمیلا ھیرس آ گے تھیں تو کئی اسٹیٹس میں ڈونلڈ ٹرمپ کو عوام کی حمایت حاصل تھی ۔ ٹرمپ کے جارہانہ بیانات کی وجہ سے وہ نوجوانوں میں زیادہ مقبول تھے جبکہ کملا ھیرس خواتین میں زیادہ پسند کی جاتی تھیں۔ بی بی سی سی سی این این اور الجزیرہ ٹی وی کے ابتدائی پولز کے مطابق دونوں امیدواروں کے درمیان کانٹے دار مقابلہ تھا کسی پول میں ھیرس آگے نظر آ رہی تھیں تو کسی میں ٹرمپ لیکن یہ سب اندازے تھے۔ آخر کار سخت ترین مقابلے کے بعد اقتدار کا ہما ڈونلڈ ٹرمپ کے سر پر بیٹھ گیا اور وہ دوسری مرتبہ وائٹ ہاﺅس پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ چین اور روس کے ساتھ تعلقات میں کیا تبدیلی کرتے ہیں ۔ گزشتہ دو سال سے جاری روس یوکرین جنگ میں امریکہ اور یورپی یونین کا موجودہ کردار جاری رہتا ہے یا اس میں کوئی تبدیلی آتی ہے ۔ ایران پر اقتصادی پابندیاں جاری رہیں گی یا اس میں کوئی تبدیلی آئے گی ۔ ٹرمپ کے آنے سے فلسطین کا مستقبل کیا ہو گا کیا اسے آزادی ملے گی ۔ غزہ میں اسرائیلی دہشت گردی بربریت میں ہزاروں افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں اور یہ علاقہ کھنڈر بن چکا ہے ۔ کیا اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے ہاتھ روکنے والا کوئی پیدا ہو گا ۔ وائٹ ہاس میں کوئی بھی صدر ہو امریکہ اسرائیل نواز پالیسی ترک نہیں کر سکتا کیونکہ یہودیوں نے امریکہ کے پورے نظام کو کنٹرول کر رکھا ہے ۔ ماضی میں پاکستان میں حکومتوں کی تبدیلیوں میں امریکہ نے اہم کردار ادا کیا ۔ سانحہ مشرقی پاکستان کے وقت ہم امریکی بحری بیڑے کا انتظار کرتے رہے اور ہمارا مشرقی بازو ہم سے الگ ہو گیا۔ مشرف دور میں حمایت نہ کرنے کی صورت میں پتھر کے دور میں بھیجنے کی دھمکی آ ئی اس لئے نو منتخب امریکی صدر ٹرمپ سے ہمیں زیادہ توقعات نہیں رکھنی چاہیں۔ پی ٹی آئی قیادت نے ٹرمپ کی کامیابی کی صورت میں بانی پی ٹی آ ئی کی رہائی کےلئے بہت زیادہ امیدیں لگا رکھی تھیں اس سلسلے میں سوشل میڈیا کے ہتھیار کو بھر پور طریقے سے استعمال کیا گیا اب جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے صدر بن چکے ہیں حکومتی اور پی ٹی آ ئی رہنماﺅں کی طرف سے بیانات کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے ۔ خواجہ آصف نے کہا کہ ٹرمپ بانی پی ٹی آئی کی رہائی کا نہیں کہیں گے ۔ سابق صدر عارف علوی نے خط لکھ کر ٹرمپ کو مبارکباد دی ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ صدارت کی کرسی پر بیٹھ کر ڈونلڈ ٹرمپ پی ٹی آئی کی حمایت میں کیا اقدامات اٹھاتے ہیں۔ پوری دنیا کی نظریں امریکی انتخابات پر لگی ہوئی ہیں ۔ مشرق وسطیٰ جنوبی ایشیا چین اور روس کے بارے میں امریکہ کی پالیسیاں جاری رہتی ہیں یا ڈونلڈ ٹرمپ کوئی بڑا یو ٹرن لیتے ہیں ۔