اداریہ کالم

امریکی صدر کی بدلتی پالیسیاں اوربیان بازی

امریکی صدرڈونلڈٹرمپ کی روزبدلتی پالیسیاں اوربیان بازی سے عیاں ہوتا ہے کہ وہ مستقل مزاجی سے کوسوں دورہیں۔کبھی وہ روس کو نشانے پرلے لیتے ہیں توکبھی بھارت کو سینگھوں پررکھ لیتے ہیں۔امریکہ ایک سپرپاورہے یقینا اس کی قیادت بھی ایک سنجیدہ شحصیت کے پاس ہونی چاہیے تھی تاہم ڈونلڈٹرمپ کاانتخاب امریکی عوام کا ہے اوربھگت پوری دنیاپوری رہی ہے۔جیسا کہ ان کی پالیسیوں سے ظاہرہوتاہے کہ وہ ایک تاجر ہیں اور تاجر ہمیشہ اپنے مفاد کو دیکھتا ہے، ٹرمپ کی تجارتی حکمتِ عملی ہمیشہ سے دباؤ، رعایت اور مفاد کے ایک متضاد امتزاج پر مبنی رہی ہے۔ ان کے فیصلوں میں ایک ایسا توازن جھلکتا ہے جو بظاہر سختی دکھاتا ہے مگر اندر سے سودے بازی کی گنجائش بھی رکھتا ہے۔ یہی طرزِ عمل ایک بار پھر سامنے آیا جب انہوں نے بھارت پر بھاری ٹیرف عائد کیا، روس سے تیل خریدنے پر سزا نما اقدامات کیے، مگر چین کے معاملے میں غیر معمولی لچک دکھائی۔بھارت پر 50 فیصد ٹیرف عائد کر کے ٹرمپ نے ایک طرف امریکی مفادات کے تحفظ کا تاثر دیا، تو دوسری جانب دفاعی معاہدے کی راہ ہموار کی۔ اسی دوران روس سے تیل کی درآمدات پر 25 فیصد اضافی ٹیرف لاگو کیا گیا جس سے بھارت کو پیغام دیا گیا کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات صرف اس وقت آسان ہوں گے جب واشنگٹن کے اقتصادی ایجنڈے کے مطابق چلا جائے۔ یہ سخت گیر رویہ بظاہر طاقت کا اظہار تھا، لیکن چین جیسے بڑے کھلاڑی کے مقابلے میں وہی ٹرمپ نرم پڑ گئے۔30 اکتوبر 2025 کو بساں میں صدر شی جن پنگ سے ملاقات کے دوران امریکی صدر نے ٹیرف 57 فیصد سے کم کر کے 47 فیصد کر دیا اور مختلف کیمیکلز پر ٹیرف بھی 20 سے گھٹا کر 10 فیصد کر دیا گیا۔ اس لچک کی وجہ واضح تھی۔امریکی کمپنیاں اپنی نایاب معدنیات کی تقریباً 70 فیصد سپلائی چین سے حاصل کرتی ہیں، جو سیمی کنڈکٹرز، دفاعی ٹیکنالوجی اور الیکٹرک گاڑیوں کے لیے ناگزیر ہیں۔ چین کی 9 اکتوبر 2025 کی پابندیوں نے امریکہ کی انڈسٹری کو شدید نقصان پہنچایا تھا، لہٰذا ٹرمپ کو پسپائی اختیار کرنا پڑی۔تاہم یہ ”پسپائی” دراصل سودے بازی تھی۔ معاہدے کے تحت چین نے 2025 کے آخری دو ماہ میں 12 ملین میٹرک ٹن امریکی سویا بین خریدنے کا وعدہ کیا، جب کہ 2026 سے 2028 تک ہر سال 25 ملین ٹن خریداری کا ہدف طے پایا۔ اس سے امریکی کسانوں کو تقریباً 5 بلین ڈالر کا معاشی سہارا ملے گا۔ مزید یہ کہ چین نے فینٹینل کیمیکلز کی روک تھام پر بھی اتفاق کیا — وہی کیمیکلز جو امریکہ میں سالانہ ایک لاکھ اموات کا سبب بنتے ہیں۔ معاہدے میں ایک اور نکتہ دلچسپ ہے: ٹک ٹاک کے امریکی آپریشنز پر واشنگٹن کو کنٹرول حاصل ہو گا۔یہ سب مل کر ایک سال کی اقتصادی جنگ بندی کی شکل اختیار کر چکے ہیں، جو ٹرمپ کی ”مارو یا مانو” طرزِ حکمتِ عملی کی کامیابی کا ثبوت ہے۔جہاں نقصان کا خطرہ ہو وہاں نرمی اور جہاں کمزور فریق ہو وہاں دباؤ۔اس تناظر میں پاکستان کیلئے سبق واضح ہے۔ مئی 2025 کی کشیدگی میں ٹرمپ انتظامیہ نے اسلام آباد اور نئی دہلی دونوں کو 250 فیصد ٹیرف کی دھمکی دی تھی۔ پاکستان نے اگرچہ اس کے بعد محتاط پالیسی اختیار کی، مگر واشنگٹن کے بدلتے موڈ کو سمجھنا اب بھی ناگزیر ہے۔ ٹرمپ کسی بھی وقت رنگ بدل سکتا ہے، جیسا کہ اس نے بھارت کے ساتھ کیا — پہلے قربت، پھر دباؤ، اور آخرکار معاہدے کی آڑ میں تجارتی شکنجہ۔پاک امریکہ تجارتی تعلقات کے تناظر میں دیکھا جائے تو صورتحال پہلے ہی نازک ہے۔ پاکستان کا برآمدی توازن امریکہ کے حق میں ہے؛ ہماری ایکسپورٹس تقریباً 7 ارب ڈالر جب کہ درآمدات محض 3 ارب کے قریب ہیں۔ واشنگٹن ہمارے لیے سب سے بڑا برآمدی منڈی ضرور ہے، مگر اس انحصار نے ہمیں کمزور بھی بنا دیا ہے۔ اگر ٹرمپ انتظامیہ نے بھارت یا چین کی طرز پر کوئی یکطرفہ ٹیرف پالیسی اپنائی تو پاکستان کے ٹیکسٹائل اور فوڈ سیکٹر کو براہِ راست نقصان پہنچ سکتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان نے حال ہی میں امریکہ کے ساتھ تیل کی تجارت بھی شروع کی ہے، جو ایک نئی پیش رفت ہے۔ اس کے برعکس بھارت اب بھی روسی تیل خرید رہا ہے، باوجود اس کے کہ واشنگٹن اس پر کھل کر ناراضی جتا چکا ہے۔ اس منظرنامے میں پاکستان کا امریکی تیل کی جانب رجحان اسے وقتی طور پر واشنگٹن کے قریب ضرور لایا ہے، لیکن اس قربت میں معاشی خطرات بھی پوشیدہ ہیں کیونکہ امریکی مفاد کے تابع ہونے کا مطلب ہے پالیسی کی خودمختاری کو محدود کرنا۔ٹرمپ کی موجودہ حکمتِ عملی ایک بات واضح کرتی ہے کہ وہ عالمی معیشت کو سودے بازی کے اصول پر چلا رہے ہیں۔ ان کی نظر میں اتحاد، اصول یا نظریہ نہیں، بلکہ نفع اور دباؤ کی سیاست ہی سب کچھ ہے۔ پاکستان اگر اس کھیل میں دیرپا فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے چاپلوسی کے بجائے چالاکی سے کام لینا ہوگا۔واشنگٹن کے ساتھ تعلقات میں توازن، چین کے ساتھ تعاون اور علاقائی تجارت کی وسعت ہی وہ راستہ ہے جو ہمیں ٹرمپ کی ”تجارتی چالوں” سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔
27ویں آئینی ترمیم لانے کی تیاریاں
حکومت 27ویں آئینی ترمیم کے مسودے کو حتمی شکل دے رہی ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ یہ مسودہ جلد وفاقی کابینہ اور پھر اسی دن سینیٹ میں پیش کر دیا جائے۔ مجوزہ ترمیم میں دفاع سے جڑی شقوں کا مقصد مسلح افواج کے درمیان رابطہ کاری اور تعاون کو مزید مربوط کرنا ہے تاکہ کسی بھی غیر ملکی جارحیت کیخلاف متحدہ اور تیز رفتار جواب کو یقینی بنایا جا سکے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ شقیں پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونیوالی حالیہ جنگ سے سیکھے گئے سبق اور جدید وار فیئر کی تبدیل شدہ ڈائنامکس کی روشنی میں تیار کی گئی ہیں کیونکہ یہ وہ موقع ہے جہاں تینوں مسلح افواج کے درمیان اتحاد اور رابطہ کاری کو سب سے اہم سمجھا جاتا ہے۔ حکمران جماعت مسلم لیگ ن اپنی اتحادی جماعتوں کے ساتھ مشاورت میں ہے تاکہ ترمیمی پیکیج پرسکون انداز سے منظور ہو سکے۔ وزیراعظم شہباز شریف ن لیگ کے وفد کے ساتھ پیپلز پارٹی کے رہنمائوں صدر آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ ملاقات کر چکے ہیں تاکہ آئینی ترمیم کی منظوری کیلئے ان کی جماعت کی حمایت حاصل ہو سکے۔ کہا جاتا ہے کہ اگرچہ پیپلز پارٹی پہلے ہی کئی مجوزہ تبدیلیوں کیلئے راضی ہو چکی ہے لیکن پارٹی نے نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ کے حوالے سے مجوزہ ترمیم پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ پیپلز پارٹی ایسے کسی اقدام کی حمایت نہیں کرنا چاہتی جس سے قومی وسائل میں صوبائی حصے کو دیے گئے تحفظ کو نقصان ہو۔ 27ویں ترمیم کے حوالے سے سب سے پہلے بلاول بھٹو نے انکشافات کیے اور کہا کہ مجوزہ تبدیلیوں میں آئینی عدالتوں کا قیام، ایگزیکٹو مجسٹریٹس کی بحالی، ججوں کے تبادلے، آئین کے آرٹیکل 243 میں تبدیلی اور تعلیم اور پاپولیشن پلاننگ کو فیڈرل لسٹ میں لانے کی باتیں شامل ہیں۔ صدر زرداری کی دوحہ سے واپسی کے بعد اس معاملے پر بحث کیلئے پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں حتمی شکل دی جا سکے تاہم قیادت نے بیرونِ ملک موجود درجنوں حکومتی ارکانِ اسمبلی اور سینیٹرز کو فورا وطن واپس آنے کی ہدایت کی ہے۔ زیادہ تر ارکان اسلام آباد پہنچ چکے ہیں ۔ حکومت کو توقع ہے کہ مجوزہ ترمیم کا پارلیمنٹ سے باآسانی منظور ہونا ممکن ہو گا۔دوسری جانب وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک نجی نیوزچینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ27ویں آئینی ترمیم نے ابھی حتمی شکل اختیار نہیں کی آرٹیکل 243 میں ترمیم پر مشاورت کی جارہی ہیدفاعی تقاضے بدل گئے ہیں یہ سارا کام باہمی مشاورت سے ہو گا ، آرٹیکل 243میں ترمیم جب تک فائنل نہیں ہوتی کچھ نہیں کہتا ججز کے تبادلوںکا معاملہ جوڈیشل کمیشن کے سپرد کیا جائے گاافغانستان سے مذاکرات کامیاب نہ ہوئے تو صورتحال خراب ہو سکتی ہے ہماری سر زمین کی خلاف ورزیاں جاری رہیں تو ہم بھی وہی کریں گے جو ہمارے ساتھ ہو رہا ہے۔ آئینی مقدمات 6 فیصد ہونے کے باوجود پیچیدہ ہونیکی وجہ سے وقت لیتے ہیںجو ججز روزانہ مقدمات کو سنتے ہیں وہی آئینی مقدمات کو بھی دیکھتے ہیں۔ بینچز بنا کر بہتری کی جارہی ہے مگر تنقید ہوتی ہے کہ عدالت کے اندر عدالت بن گئی ہے۔ ایک تجویز یہ ہے کہ الگ آئینی عدالت ہو جس میں ہر صوبے کی نمائندگی ہوگی۔ چیف الیکشن کمشنر کی تقرری پر ڈیڈ لاک کا معاملہ تیسرے ادارے کے پاس چلا جائے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے