امیرجماعت اسلامی سراج الحق صاحب جلسہ عام سے خطاب کرنے کےلئے بلوچستان کے علاقے ژوب پہنچے تو ژوب میں نیو اڈہ کے مقام پر سراج الحق کی گاڑی کے قریب ایک خود کش حملہ آور نے اپنے آپ کو دھماکے سے اڑالیا۔ تاہم خود کش جیکٹ مکمل نہ پھٹنے کی وجہ سے حملہ آور موقع پر ہلاک ہو گیا۔ امیر معجزانہ طور پر محفوظ رہے۔ حملہ آور ہلاک جبکہ 7 افراد زخمی ہوگئے۔صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے قافلے پر خود کش حملے کے بعد امیر جماعت اسلامی سے خیریت دریافت کرتے ہوئے کہا کہ اللہ کا شکر ہے کہ سراج الحق خودکش دھماکے میں محفوظ رہے۔وزیر اعظم میاں شہباز شریف ، نگران وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی ، جے یو آئی،پی پی پی ، مسلم لیگ ن کے سربراہوں، قومی اسمبلی کے سپیکر و ڈپٹی سپیکر، چیئرمین سینیٹ و دیگر سیاسی ، مذہبی اور سماجی رہنماو¿ں نے جناب سراج الحق پر خود کش حملے کی مذمت کرتے ہوئے ان کے محفوظ رہنے پر خدا کا شکر ادا کیا۔ ملک وبیرون ملک پاکستانیوں اور جماعت اسلامی کے قائدین و کارکنان نے بھی سراج الحق کے لیے خیریت اور لمبی عمر کی دعائیں کی ہیں۔ حملے کے بعد جناب امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ ہمارا ایمان ہے کہ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔ 24کروڑ عوام چترال سے کراچی تک لگی آگ میں جل رہے ہیں، لوگ گھروں، مساجد، بازاروں میں محفوظ نہیں۔ حکمرانوں نے عوام کا استحصال کیا، ان کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا۔ حکمرانوں نے پاکستان کو عالمی طاقتوں کا اصطبل بنایا اور آئی ایم ایف، ورلڈ بنک کی غلامی اختیار کی۔ وقت آگیا ہے کہ ملک میں لگی آگ پر پانی ڈالا جائے، اسے ترقی یافتہ خوشحال بنایا جائے۔ ملک کو صرف اسلامی نظام بچا سکتا ہے اور جماعت اسلامی ہی اسلامی نظام لاسکتی ہے ۔ ژوب کی سرحدیں خیبر پختونخوا کے دہشت گردی سے متاثرہ اضلاع وزیرستان اور ڈیرہ اسماعیل خان کے ساتھ ساتھ افغانستان سے بھی لگتی ہیں۔ ماضی میں یہ علاقہ بلوچستان میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کا گڑھ رہا ہے۔ 2007 میں ٹی ٹی پی کے بانی رہنما بیت اللہ محسود کے قریبی ساتھی اور گوانتاناموبے کے سابق قیدی عبداللہ محسود ژوب میں ایک آپریشن میں مارے گئے تھے۔ٹی ٹی پی نے حال ہی میں بلوچستان کے پشتون علاقے کےلئے ایک الگ تنظیمی شاخ ’صوبہ ژوب‘ تشکیل دی ہے۔گزشتہ ہفتے ژوب سے ملحقہ ضلع قلعہ سیف اللہ میں ایف سی کے مسلم باغ کیمپ پر بڑا دہشت گرد حملہ ہوا جس میں چھ سکیورٹی اہلکاروں سمیت 13 افراد افراد مارے گئے۔وطن عزیز کے موجودہ معاشی اور سیاسی بحران کے حل کےلئے امیر جماعت اسلامی حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات کرنے کےلئے سرگرم رہے ہیں۔ انہوں نے وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کی اور پھر عمران خان سے ملاقات کرکے انہیں حکومت سے مذاکرات کی تجویز دی۔ان کی تجاویز پر دونوں فریقین نے مذاکرات شروع کئے مگر کوئی نتیجہ برآمد نہ ہو سکا۔ امیر جماعت اسلامی اس سے قبل قومی انتخابات پر اتفاق رائے پیدا کرنے کیلئے تمام پارلیمانی پارٹیوں سے رابطے بھی کر چکے ہیں۔ انہوں نے تمام جماعتوں کو منصورہ کا پلیٹ فارم استعمال کرتے ہوئے مذاکرات کے آغاز کی دعوت دی تھی۔ سیاسی، معاشی بحران کے بعد ملک آئینی بحران کی طرف بڑھ رہا ہے۔ پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم کی لڑائی نے ملک میں آئینی بحران پیدا کیا ہے اور اب بات ایک بار پھر وہیں پر آ گئی ہے کہ میرا جج زندہ باد اور تمہارا جج مردہ باد۔ادارے متنازعہ ہو رہے ہیں عدالتوں کے اندر سیاسی مسائل حل ہوں گے نہ ہی مارشل لاءیا کسی ٹیکنوکریٹ یا صدارتی نظام سے بہتری آئے گی۔ عوام ہی اس ملک کے وارث ہیں، ان سے ہی فیصلہ لینا پڑے گا۔ پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی میں لڑائیاں جاری رہیں تو انارکی آئے گی اور خدانخواستہ لیبیا اور شام کی سی صورتحال بھی بن سکتی ہے۔ عدالتوں کے فیصلے متنازع ہوگئے ہیں۔ اس سے پہلے کہ بحران حل نہ ہونے کی سٹیج پر پہنچ جائے یا کوئی میرے عزیز ہم وطنو کہنے والا آجائے، سیاست دان مل بیٹھیں اور پورے ملک میں انتخابات کی ایک تاریخ پر متفق ہوجائیں۔ پی ڈی ایم، پیپلز پارٹی بھی قربانی دے۔ قومی اور دو صوبوں کی اسمبلیاں تحلیل کرے ۔ ہم چاہتے ہیں عدالت، اسٹیبلشمنٹ اور الیکشن کمیشن غیر جانبدار ہوجائیں۔ سیاستدانوں نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو حالات اس نہج تک پہنچ جائیں گے جہاں کسی کے ہاتھ میں کچھ نہیں آئے گا۔ یہ ملک ہے تو ہم سب ہیں اور سیاست چلتی رہے گی ۔ امیر جماعت اسلامی کا کہنا ہے کہ معاملات کو سدھارنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ سیاسی قیادت مل بیٹھ کر آپس میں مشاورت کرے لیکن ہر دھڑا اپنی اپنی ضد پر اڑا ہوا ہے۔ مذاکرات کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ فریقین اپنے اپنے موقف میں کچھ نرمی دکھا کر کچھ بات اپنی منواتے ہیں اور کچھ دوسرے کی مانتے ہیں۔ ضد اور ہٹ دھرمی سے مسائل مزید بڑھتے جائیں گے۔ ملک اس وقت جس مشکل صورتحال میں پھنسا ہوا ہے یہ عوام یا اداروں سے زیادہ سیاسی قیادت کا امتحان ہے۔ اگر سیاسی قیادت نے اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے تو کل جمہوریت اور جمہوری اداروں کے خلاف عوام کے ردعمل کی ساری ذمہ داری سیاسی قیادت ہی کی ہوگی۔