تمام تر خدشات کے باوجود اب آٹھ فروری 2024 کو پاکستان میں عام انتخابات کا انعقاد ہونے جا رہا ہے جو کہ خوش آئند ہے۔ الیکشن ہوں یا کھیل کا میدان اس میں ہار جیت بنیادی جزو ہے کہ ایک فریق ہارتا ہے تو کوئی ایک جیتتا ہے، ان انتخابات میں بھی کسی کی جیت ہو گی اور کسی کے مقدر میں ہار ہو گی۔ پاکستان میں ایک بڑا غلط قسم کا رجحان ہے کہ انتخابات سے قبل اور اس کے بعد ہمیشہ ایک فریق یا ہارنے والا فریق اس بات کا الزام ضرور لگاتا ہے کہ اسکے ساتھ دھاندلی ہوئی ہے اور پھر الیکشن کمیشن پر الزامات لگائے جاتے ہیں ، کبھی اسٹیبلشمنٹ کو قصور وار قرار دیا جاتا ہے تو کبھی اپنے حریفوں پر الزام تراشی کی جاتی ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں1970 کے انتخابات کو صاف و شفاف الیکشن مانا جاتا ہے اور ہمارے اکثر سیاست دان یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کی تاریخ کے صاف و شفاف الیکشن تھے لیکن کوئی یہ نہیں بتاتا کہ ان انتخابات پر بھی اعتراضات کئے گئے اور جیتنے والی پارٹیوں نے ایک دوسرے کے مینڈیٹ کو ماننے سے انکار کر دیا جس کی وجہ سے پاکستان کو اپنے مشرقی بازو سے محروم ہونا پڑا۔ پھر 1977 کے الیکشن ہوئے جس پر آج تک انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ وہ پاکستان کی تاریخ میں ایسے انتخابات تھے جب دھاندلی کی بنیاد رکھی گئی۔ ہوا کیا سیاست دان تب بھی ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنے پر راضی نہ ہوئے تو فوج کو مداخلت کرنا پڑی اور پھر پاکستان گیارہ برس تک جمہوریت سے محروم رہا۔ اسی طرح 1988 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کو اکثریت ملی لیکن اپوزیشن نے اس کو ماننے سے انکار کر دیا اور اڑھائی برس بعد ہی حکومت کو اقتدار سے محروم ہونا پڑا اور پھر اگلے دس برس تک پاکستان میں چار انتخابات ہوئے جس پر ہمیشہ ہارنے والی پارٹی نے سوالیہ نشان لگائے، مشرف کا دور آیا اس وقت کی مقبول ترین پارٹی مسلم لیگ ن کا راستہ روکا گیا اور پھر 2007کے انتخابات کے نتائج بے نظیر کے قتل کی وجہ سے پیپلز پارٹی کے حق میںچلے گئے اور یہاں سے تحریک انصاف کا نیا جنم ہوتا ہے اور 2013کے انتخابات پر تحریک انصاف نے 35پنکچر کی اصطلاح متعارف کرائی اور مبینہ دھاندلی کیخلاف طویل دھرنا دیا، پھر 2018کے انتخابات پر مسلم لیگ ن نے سوالات اٹھائے اوراب 2024 کے انتخابات سر پر ہیں اور پچھلے پچاس سال سے دھاندلی کا رونا رونے والی سیاسی جماعتیں ایک بار پھر وہی پرانے الزامات کے ساتھ میدان میں موجود ہیں۔ اس حمام میں تقریبا ًتمام سیاسی جماعتیں ننگی ہیں اور ان کی تاریخ ایک ہی ہے کہ انہوں نے نہ تاریخ سے سبق سیکھا ہے اور نہ ہی کبھی اداروں کو مضبوط بنانے کی کوششیں کیں صرف ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کرتے رہے ہیں اور ہمیشہ سے پاکستان کے عوام کا جمہوریت سے جی بیزار کیا۔ تاریخ بیان کرنے کا مقصد یہی ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو تاریخ سے سبق تو سیکھنا چاہئے لیکن اسکے ساتھ ساتھ اداروں کو مضبوط بھی کرنا چاہئے کیوں کہ جب ہمارے سیاست دان اقتدار میں نہیں ہوتے تو پھر یہ اداروں پر الزام تراشیاں کرتے ہیں اور الیکشن کمیشن کو کوستے ہیں کہ اس نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔پاکستان میں صاف و شفاف الیکشن کرانا بنیادی ذمہ داری الیکشن کمیشن کی ہی ہے لیکن کیا کبھی ہمارے حکمرانوں نے اس الیکشن کمیشن کو مضبوط کرنے کی کوشش کی ہے تو جواب نفی میں ہے۔ ہر جماعت چاہتی ہے کہ الیکشن کمیشن اس کی مرضی کے مطابق چلے اور اس کی منشا کے مطابق کام ہولیکن قانون پر عمل داری کوئی بھی ایک فریق نہیں چاہتا۔ اب انٹرا پارٹی انتخابات کو ہی لے لیں تو ہمارے ہاں شاید ہی ایک آدھ جماعت کے سوا کسی جماعت میں جمہوریت پائی جاتی ہے انٹرا پارٹی الیکشن کب ہوتے ہیں اور ان کے نتائج کیا آتے ہیں۔ یہ پارٹی کی پریس ریلیز سے ہی پتہ چلتا ہے۔ پارٹیاں جب اپنے اندر جمہوریت کو فروغ نہیں دیں گی تو ملک میں جمہوریت کیسے فروغ پائے گی اور جب الیکشن کمیشن اس بات پر ایکشن لیتا ہے تو سیاسی جماعتوں کو لگتا ہے کہ ان کےساتھ نا انصافی کی جا رہی ہے۔ بنیادی طور پر سیاسی جماعتیں خود اپنے ساتھ اور اپنے ووٹرز کے ساتھ دھوکہ کر رہی ہوتی ہیں اور اگر سیاسی جماعتوں میں جمہوریت فروغ پا جائے تو پھر سیاسی قیادت بھی نچلی سطح سے آ سکتی ہے، لیکن کوئی بھی سیاسی جماعت الا ما شااللہ نہیں چاہتی کہ ان کی قیادت نچلی سطح سے آئے اس لئے اب سیاسی جماعتیں جمہوری کم آمریت کا نمونہ زیادہ دکھائی دیتی ہیں کیونکہ الیکشن کا دور دورہ ہے تو اپنے اس کالم کے ذریعے یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ ہمارے ملک میں شفاف الیکشن تب ہی ہو سکتے ہیں ،جب تمام سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے کےساتھ مل بیٹھ کر الیکشن کمیشن کو مضبوط کرنے کیلئے قانون سازی کریں گی اور اس قانون سازی پر عمل کرنے کا عہد کریں گی، کیونکہ اگر الیکشن کمیشن سیاسی جماعتوں کی اپنی غلطیوں پر نوٹس لے تو پھر یہ سیاسی جماعتیں بھاگ کر عدالت سے رجوع کر لیتی ہیں اور ریلیف لینے کی کوشش کرتی ہیں۔اگر عدالت انہیں ریلیف دے تو پھر عدلیہ بھی آزاد ہے اور اگر عدالت ان کی مرضی کے مطابق فیصلہ نہ کرے تو پھر عدلیہ پر الزام تراشیاں شروع ہو جاتی ہیں۔ اس لئے الیکشن کمیشن کے فیصلوں پر جب تک عمل در آمد نہیں ہو گا الیکشن کبھی بھی شفاف نہیں ہو سکتے اور الیکشن کمیشن کے فیصلوں پر عمل در آمد کرنا سیاست دانوں کا کام ہے اور اگر سیاست دان الیکشن کمیشن کی مضبوطی کیلئے کام کریں گے تو مستقبل میں کوئی بھی الیکشن کی شفافیت پر اعتراض نہیں اٹھا سکے گا۔