کالم

انتخابات 2024!معاشی مسائل

ملک بھر میں انتخابی سرگرمیاں عروج پر پہنچ گئی ہیں وہ جماعتیں جو عرصہ تیس سال سے اقتدار کے یوانوں پر قابض رہیں ایک بار بھر نیا بھیس بدل کر عوام کو بیوقوف بنانے نکلی ہیں بڑے بڑے دلکش نعرے لگاے جا رہے ہیں۔ قومی اخبارات میں فرنٹ پیج کے اشتہارات چھپوائے جا رہے ہیں۔ ملک بھر میں چوہدریوں، خانوں اور وڈیروں کے ڈیرے آباد ہو چکے ہیں۔ ان کے پاس نیا کچھ بھی نہیں وہی پرانے نعرے اور وعدے ہیں اس وقت پاکستان مسلم لیگ ن پاکستان پیپلز پارٹی تحریک انصاف (آزاد امیدواروں)کے ساتھ استحکام پاکستان پارٹی جماعت اسلامی اور تحریک لبیک میدان میں ہیں۔ سندھ میں ایم کیو ایم پیپلز پارٹی کو ٹف ٹام دے رہی ہے۔ پیر پگاڑہ کی مسلم لیگ بھی مقابلے میں ہے۔ نواز شریف اور مریم نواز ملک بھر میں جلسے جلوس کرکے الیکشن مہم جاری رکھے ہوئے ہیں نواز شریف کی انتخابی مہم کا مرکزی نقطہ ان کے گزشتہ دور 2017میں ہونے والی معاشی ترقی اور خوشحالی ہے ۔ گوجرانوالہ میں جلسے سے خطاب میں نواز شریف نے کہا کہ میری چھٹی کرانے والا جج گھر چلا گیا ن لیگی دور میں کرپشن انڈیکس روٹی آٹا گھی اوربجلی کی قیمتیں سب سے کم تھیں گروتھ چھ فیصد تھی۔ اس دور میں واقعی ضروریات زندگی اور کھانے پینے کی اشیا بہت سستی تھیں مبینہ طور پر پی ٹی آئی مولانا طاہرالقادری اور ق لیگ کے ذریعے لندن پلان کے تحت نیا سیاسی بندوبست کرکے پانچ ججوں کے ذریعے مسلم لیگ ن کی حکومت ختم کرکے عمران خان کو اقتدار دلوایا گیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بڑے زور شور سے الیکشن مہم چلا رہے ہیں اور ان کی توپوں کا رخ صرف مسلم لیگ ن کی طرف ہے۔ شہباز شریف کی حکومت میں وزیر خارجہ رہنے والے بلاول اب ن لیگ کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں ۔ پی پی پی نے بلاول کی نی سوچ بدلے عوام کے شب و روز اور دس نقاتی منشور میں عوامی معاشی معاہدے کا نعرہ لگایاہے۔ انہوں نے پنجاب میں ڈیرے ڈالے ہوے ہیں اور زیادہ سے زیادہ سیٹیں حاصل کرنے کے لے جلسے کر رہے ہیں اور بینظیر بھٹو کی تصویر آصفہ بھٹو بھی اپنے بھائی بلاول کے ساتھ کھڑی ہیں۔ پی پی پی کی جڑیں جنوبی پنجاب میں کافی مضبوط ہیں لیکن وہ اب سینٹرل پنجاب سے اپنی کھوی ہوئی سیٹیں واپس حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ پی پی پی کا ووٹ بینک کے پی کے اور گلگت بلتستان میں بھی موجود ہے۔ بلاول پہلے عمران کو کٹھ پتلی کہتے تھے اب نواز شریف کو کٹھ پتلی کہتے ہیں اتنی تنقید کے باوجود ن لیگ کی طرف سے کوئی جواب نہیں دیا جا رہا ۔ استحکام پاکستان پارٹی نے بھی جہانگیر ترین کی قیادت میں ملک گیر جلسوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے یہ جماعت پی ٹی آئی سے ٹوٹے ہوئے سیاستدانوں کا مجموعہ ہے اس لے جنوبی پنجاب ک حد تک کافی ووٹ لے جاے گی لیکن سینٹرل پنجاب میں مسلم لیگ ن اور پی پی کے سامنے ان کی دال گلنے والی نہیں۔ پی ٹی آئی اور پی پی پی شفاف انتخابات کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے کہا اگر انتخابات شفاف نہ ہوے تو ملک میں زیادہ ہنگامے اور فسادات ہوں گے۔ اسحاق ڈار نے ایک انٹرویو میں انکشاف کیا ہے کہ جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کے تو آئی ایم ایف نے پاکستان پر آٹھ ماہ تک اقتصادی پابندیاں لگائے رکھیں ۔ جب ملک کی معاشی حالت کو سدھارنے اور ڈالر کو کنٹرول کرنے کے لئے مفتاح اسماعیل کو ہٹا کر اسحاق ڈار کو وزیر خزانہ بنایا گیا تو ڈالر کنٹرول سے باہر ہو گیا اور قوم اب تک ان ناقص اقتصادی پالیسیوں کا خمیازہ بھگت رہی ہے۔ اس وقت معاشی صورتحال اس قدر مایوس کن ہے کہ ایف بی آر بجٹ ٹاگٹس حاصل نہیں کر پا رہا مہنگائی نے پورے ملک کو گرفت میں لیا ہوا ہے ملکی ایکسپورٹس کم ہو رہی ہیں مبینہ طور پر فیصل آباد میں ٹیکسٹائل انڈسٹری بند ہو رہی ہے۔ آئی ایم ایف قرضے کے لئے سخت شراط عائد کر رہا ہے فارن ریزروز انتہائی کم ہو گئے ہیں ان حالات میں اپنی انتخابی مہم میں ہر جماعت بلند و بالا دعوے کر رہی ہے اور اقتدار میں آ کر دودھ اور شہد کی نہریں بہانے کے دعوے کے جا رہے ہیں کوی کہتا ہے ہم دو سو یونٹس بجلی فری دیں گے تو دوسری جماعت تین سو یونٹس بجلی فری دینے کی بات کر رہی ہے دراصل یہ سب کچھ عوام کو بیوقوف بنا کر اقتدار حاصل کرنے کے ہتھکنڈے ہیں۔ نگران حکومت کا اصل کام شفاف انتخابات کروا کر اقتدار منتخب نمایندوں کے حوالے کرنا ہے لیکن انہوں نے ایف بی آر کی ری سٹرکچرنگ کی منظوری اور پی آئی اے کی نجکاری جیسے اقدامات اٹھائے ہیں جس پر سیکرٹری الیکشن کمیشن نے انہیں خط لکھ کر کہا ہے کہ ان کو منتخب حکومت پر چھوڑ دیا جاے ۔ اب انتخابات میں چند روز باقی ہیں بلے کا نشان چھن جانے کے باوجود پی ٹی آئی کے حامی امیدوار مختلف شناختی نشانوں کے ساتھ الیکشنز میں حصہ لے رہے ہیں اور قومی انتخابات میں ان کی اچھی خاصی اکثریت کامیاب ہو جائے گی پھر آزاد امیدواروں کی منڈی لگے گی کیونکہ یہ نظریاتی لوگ نہیں ہیں ۔ان بد ترین معاشی حالات میں آئی ایم ایف کے قرضوں میں جکڑی ہوئی معیشت کے ساتھ الیکشن جیتنے کے بعد جو جماعت بھی اقتدار میں آئے گی کیا وہ الیکشن مہم میں کئے گئے بلند و بانگ وعدے پورے کر پاے گی یہ بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ آٹھ فروری کے بعد صورتحال واضح ہو جائے گی کہ ہما کس جماعت کے سر پر بیٹھتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے