اداریہ کالم

انتخابی عمل آخری مرحلے میں داخل

عام انتخابات کے التوا کے حوالے سے شکوک شبہات کے بادل چھٹ چکے ہیں ،اب انشااللہ 8فروری کو عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔تاہم دہشت گردی کے واقعات کے پیش نظر انکے پرامن نہ ہونے کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔اسی طرح لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے کی شکایات کی بنا پر انتخابی عمل کی غیرجانبداری پر اندیشے عام ہیں۔اس ضمن میںانتخابی مہم کے یکساں مواقع نہ ملنے کی شکایات کا ازالے کی کوششیں بھی کہیں نظر نہ آئیں ،اس پر سوال یقینا اب اٹھتے رہیں گے اور آنے والی حکومت کا پیچھا نہیں چھوڑیں گے۔ الیکشن کا انعقاد اگرچہ آئینی مدت کے اندر تو نہ ہو سکے تاہم عدالتی مداخلت کے بعد اب ان کا نعقاد ہونے جا رہا ہے۔اس اہم آئین ذمہ کے حوالے سے نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا ہے کہ لوگوں کے دعوے غلط ثابت ہوئے الیکشن ہو رہے ہیں، خوشی ہے آئینی ذمہ داری پوری کررہا ہوں۔ نگراں وزیراعظم کا ایک انٹرویو میں کہنا تھا کہ لوگ دعوے کرتے رہے کہ ہم انتخابات میں التوا چاہتے ہیں۔ لوگوں کے دعوے غلط ثابت ہوئے الیکشن ہورہے ہیں۔ دہشت گردی کی لہر کو بھی لوگ سازش سے جوڑ رہے تھے۔نگراں وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں جو آئینی ذمہ داری دی گئی وہ پایہ تکمیل تک پہنچ رہی ہے۔ کبھی ایسی بات نہیں کہی جس سے انتخابات کے انعقاد پر شک ہو۔ خوشی ہورہی ہے کہ اپنی آئینی ذمہ داری پوری کررہا ہوں۔ میرے وقت کے دوران جو کچھ ہوا اس کی ذمہ داری لیتا ہوں۔ کچھ جماعتوں اور افراد کو لیول پلیئنگ فیلڈ کے حوالے سے شکایت رہی ہیں۔ہماری جمہوری تاریخ زیادہ پرانی نہیں اس میں کچھ خامیاں ہیں۔ جمہوریت کے سفر میں جو کچھ خامیاں ہیں وقت کے ساتھ دور ہونگی۔ دہشت گردی پرکہا گیا کہ شاید ریاست اس کو جواز بنا کر الیکشن ملتوی کرے گی۔لیکن الیکشن ملتوی نہیں ہوئے، الیکشن ہونے جارہے ہیں، دعوے غلط ثابت ہوئے۔ دہشت گردی کی لہر کو سیاسی تناظر میں نہیں دیکھنا چاہیے تھا۔ دہشت گردی کے مسئلے کو انتہائی سنجیدگی سے دیکھنا چاہیے۔نگراں وزیراعظم نے کہا کہ امریکی فوجیں گئیں تو ان کا چھوڑا گیا اسلحہ دہشت گرد گروہ کے ہاتھ لگا۔ امریکی اسلحہ حاصل کرنے کے بعد دہشت گرد خود کو پراعتماد سمجھنے لگ گئے تھے۔انھوں نے کہا کہ ہم نے دہشت گرد گروپوں کے خلاف واضح اور اعلانیہ پوزیشن لی ہے۔ سیکیورٹی فورسز اور پولیس دہشت گردی کے چیلنج کا سامنا کررہے ہیں۔دہشت گردی کی جنگ ایسی نہیں کہ جس کا خاتمہ 9 فروری کو ہوجائے گا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے ہمیں ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے۔انھوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں توقعات کی وضاحت ہونی چاہیے۔ کوئی مسلح گروہ غیرمشروط طور پر سرینڈر کرے تو اسے موقع ملنا چاہیے۔ ریاست کے خلاف اسلحہ اٹھانے والا چاہے وہ کسی بھی سوچ کا ہو قصوروار ہے۔ اسلحہ اٹھانے والا چاہے مذہبی، لسانی یا سیاسی ہو قصوروار تصور کیا جاتا ہے۔ سیاست میں تشدد کا استعمال کسی صورت قبول نہیں کیا جاسکتا۔ انتخابی عمل کی موثر اور غیرجانبدارانہ نگرانی کے ضمن میں یہ امر اطمینان بخش ہے کہ یورپی یونین، کامن ویلتھ، روس، جاپان، اور جرمنی سمیت92بین الاقوامی مبصر انتخابی عمل کی نگرانی کے لئے پاکستان میں موجود ہوں گے جبکہ پولنگ کے دن امن وامان قائم رکھنے اور کسی بھی قسم کی تخریب کاری کو روکنے کابھی سکیورٹی ادارے ہمہ وقت الرٹ رہیں گے۔ اس ضمن میں پولنگ اسٹیشنوں کی سیکورٹی میں پہلی ذمہ داری پولیس کی ہے جبکہ سول آرمڈ فورسز اور مسلح افواج سیکورٹی کے دوسرے اور تیسرے درجے کے طور پر کام کریں گی۔ ضرورت پڑنے پر مسلح افواج دس منٹ سے بھی پہلے موقع پر پہنچ سکیں گی۔ انتخابی عمل کو پر امن رکھنے لئے سکیورٹی اداروں کے علاوہ سیاسی جماعتوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنا کردار ادا کریں ۔ اس کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ سیاسی جماعتیں اور انتخابی امیدوار بھی دھاندلی ،لاقانونیت، تشدد اور اشتعال انگیزی سے اجتناب برتیں ۔
کراچی میں بارش نے انتظامیہ کی کارکردگی کاپول کھول دیا
کراچی کے مختلف علاقوں میں تیز بارش ریکارڈ کی گئی۔ شہر بھر کی چھوٹی اور بڑی سٹرکوں پر ٹریفک جام ، گلیاں و بازار ندی نالوں کا منظر پیش کرنے لگے جبکہ شہریوں کو شدید پریشانی اور اذیت کا سامنا رہا۔ ضلعی انتظامیہ اور متعلقہ اداروں کی ناقص حکمت عملی کے باعث ابر رحمت شہریوں کیلئے زحمت بن گئی ہے ۔انتظامیہ کی غفلت نے 5بیٹیوں کے باپ کی جان لے ۔بلدیہ ٹاﺅن برساتی نالے سے لاش ملی۔ لاش کی شناخت سید محمد فخر عالم کے نام سے ہوئی۔ فخر عالم گزشتہ رات بارش کے بعد سے لاپتہ تھا۔فخر عالم فیکٹری سے کام کے بعد گھر کیلئے نکلا اور نالے میں ڈوب گیا۔متوفی فخر عالم بلدیہ ٹاﺅن کا رہائشی اور 5بیٹیوں کا باپ تھا۔منگھوپیر کے علاقے منگھوپیر ڈگری کالج کے قریب گلی میں بارش کا پانی بھرنے سے کباڑی اپنا ٹھیلا لے جاتے ہوئے گڑھے میں ڈوب کر جاں بحق ہوگیا جس کی لاش ایمبولینس کے ذریعے عباسی اسپتال لائی گئی جہاں متوفی کی شناخت 35سالہ بشیر خان کے نام سے ہوئی ۔ دوسری جانب کراچی میں شدید بارش کے باعث فلائٹ آپریشن متاثر ہو گیا۔ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لئے کسی ادارے کی تیاری نہ تھی اور بارش نے پورے کراچی کو ڈبو دیا ۔ جناح اسپتال ،این آئی سی وی ڈی کی سڑکوں پر بارش کے پانی نے تالاب کی شکل اختیار کر لی جس سے مریضوں کو شدید مشکلات کا سامنا رہا۔برساتی نالے کروڑوں روپے ہر سال صفائی کے نام پر خرچ ہونے کے باوجود بارش کا پانی نہ لے سکے میئر کراچی اور شہر کی انتظامیہ کے بلندو بانگ دعوے دھرے رہ گئے کمشنر کراچی اور ہنگامی امدادی ادارے صورتحال سے لاتعلق دکھائی دیئے۔ چھٹی کے باوجود نظام زندگی معمو ل پرنہ آسکا نکاسی آب اور ٹر یفک کا نظام درہم برہم ہونے کے باعث ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب بیشتر شہریوں نے اکیلے اور فیملیز کے ہمراہ سڑکوں پر گزاری پانی میں ڈوبی اور تیرتی ہوئی گاڑیوں کو بعض لوگ سٹرکوں پر چھوڑ کر پیدل روانہ ہوگئے ایک بڑی تعدادرات گئے اورصبح اپنے گھروں کو پہنچ سکی جبکہ بعض لوگوں نے رات اپنے دفاتر اور کاروبار کے مقام پر گزاری اس سے ایک بار پھر یہ بات عیاں ہو گئی کہ کراچی شہر کا انفرا اسٹرکچر انتہائی ناقص اور میٹرو پو لیٹن سٹی کہلانے کے لائق نہیں ہے یہ شہر اب تک بغیر کسی پلاننگ کے چل رہا ہے۔ شہریوں کا کہنا تھا کہ ملک کے دیگر شہروں میں اس سے کہیں زیادہ بارشیں ہوتی ہیں لاہور میں آئے روز ستر اسی سے سو ڈیڑھ سو ملی میٹر بارش معمول ہے لیکن دو تین گھنٹے بعد شہر نارمل اور ٹریفک رواں دواں ہوتا ہے۔ اس کے بر عکس کراچی میں پچاس سے ستر ملی میٹر بارش نظام زندگی کو مفلوج کر کے رکھ دیتی ہے لیکن اس صوبے میں برسراقتدار پارٹیاں اب تک اس کا کوئی مستقل حل نکالنے میں ناکام ہیں دعوے ضرور کئے جاتے ہیں لیکن ہر بارش میں قلعی کھل کر سامنے آجاتی ہے اور لوگوں کو ان کے اپنے حال پر چھوڑ دیا جاتا ہے گزشہ رات جس اذیت میں شہریوں نے گزاری کوئی ان سے پوچھ کر دیکھے۔عمر رسیدہ افراد اپنی موٹر سائیکلیں پانی جس طرح گھسیٹ کر لے جا رہے تھے لیکن کوئی سرکاری ادارہ ان کی مدد کرتے دکھائی نہیں دیا بعض مقامات پر نوجوان لوگوں کی مدد کرتے ضرور نظر آئے۔ پیشن گوئی کے باوجود کمشنر کراچی کے آفس میں کوئی کنٹرول روم یا ڈیسک قائم نہیں کی گئی پرو نشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے اہلکار غائب تھے کے ڈی اے ،واٹر بورڈ اور ٹاونز کا عملہ بھی اس صورتحال سے نمٹنے میں تیار نظر نہ آیا۔ حالیہ بارش نے حکمرانوں کی کارکردگی کی قلعی کھول دی۔ ہر سال نالوں کی صفائی ستھرائی کے لئے اربوں روپے کا بجٹ مختص کیا جاتا ہے لیکن حکمرانوں نے اربوں روپے نالوں کی صفائی کے بجائے کرپشن کی نذر کردیے۔ایک طرف یہ عوام سے ووٹ مانگ رہے ہیں دوسری طرف ان کی کارکردگی پرنظردوڑائی جائے توبالکل صفرنظرآتی ہے۔پیپلزپارٹی گزشتہ پندرہ سال سے صوبے میں اقتدارمیں ہے۔افسوس کہ ان پندرہ سالوں میں کراچی کی حالت تک نہ بدلی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے