پاکستان ایک طویل سیاسی بحران سے دوچار تھا،جس سے ،ملکی معیشت سے لے کر معاشرت تک بری طرح متاثر ہوئی۔تلخیوں کا ایک کالا اورگہرا بادل تھا جو چاروں” اور“ امڈ آیا تھا۔گھٹن تھی کہ سانس لینا مشکل تھا،پھر طویل مارا ماری کے بعد ماہ فروری کے پہلے عشرے میں الیکشن کاانعقاد ممکن ہوا،اور امید کی ایک کرن سی روشن ہوئی کہ اب کے سکھ کا سانس لینا ممکن ہو جائے گا۔الیکشن کیسے ہوئے یہ بحث تو جاری رہے گی،اور جاری رہنا بھی چاہئے اس سے در آنے والی خرابیوں کی تشخیص کے بعد حل ڈھونڈنا آسان ہوسکتا ہے۔ گزشتہ ماہ آٹھ فروری کو انتخابات کا پہلا اور اہم مرحلہ مکمل ہوا اوراس مرحلے میں رائے دہندگان نے اپنے اپنے نمائندگان کا چناو¿ کیا۔اگلا مرحلہ حکومت سازی کا تھا،جس میں چاروں صوبوں اسمبلیاں وجود میں آچکی ہیں جبکہ مرکز میں وزیراعظم کے چناو¿ کے بعد کابینہ کی تشکیل بھی کی جا رہی ہے۔جمہوری سیٹ اپ میں صوبائی اور مرکزی حکومتوں کی تشکیل کے بعد ملک کے سب بڑے ایوان”ایوان صدر“ میں تبدیلی کا مرحلہ ہوتا ہے ،جو نومارچ کو طے کر لیا گیا ہے۔صد شکر کہ یہ تمام مراحل بخوبی انجام پا گئے ہیں ۔ مرکز اور تمام صوبوں میں حکومتوں کی تشکیل کے بعدملک کے بڑے آئینی عہدے پر آصف علی زرداری 14ویں صدر کے طور پر اپنی ذمہ داریاں سنبھال چکے ہےں ۔غیر جانبدار مبصرین نے اس امر کو انتہائی حوصلہ افزا قرار دیا ہے کہ مرکز اور تمام صوبوں میں حکومتوں کی تشکیل کا عمل مکمل ہو چکا ہے اور مملکت کے سربراہ کے طور پر آصف علی زرداری 14ویں صدر کے طور پر اپنی ذمہ داریاں سنبھال چکے ہےں ۔ان مرحل کی تکمیل کے بعد عوام کو اس امر کی امید ہے کہ باہم اعتماد کی فضا قائم ہو۔اس کے لئے ضروری ہے اور امید واثق بھی ہے کہ قومی‘ سیاسی‘ دینی‘ عسکری قیادتوں اور ادارہ جاتی سطح پر جس یگانگت اور قومی افہام و تفہیم کی ضرورت ہے اس کیلئے بھی فضا سازگار ہوتی نظر آئے جسکے آثار تاہم نمایاں ہونے لگے ہیں۔صدر مملکت کے منصب پرپیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور حکومتی اتحاد کے امیدوار آصف علی زرداری کو جس بھاری اکثریت سے آئندہ پانچ سال کیلئے صدرمنتخب کیا گیا ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ تمام سیاسی قوتیں ملک میں جمہوری فضا کو پرامن اور سازگار بنانے کی خواہشمند ہیں۔ صدر مملکت کا انتخابی حلقہ سینیٹ ، قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں پر مشتمل ہوتا ہے ۔ آصف زرداری اپنے مد مقابل محمود خان اچکزئی کے181ووٹوں کے مقابلے میں 411ووٹ ملے۔یقینا اتنی بڑی تعداد میں ووٹ ملک کے سب سے بڑے آئینی عہدے پر اعتماد کی بحالی کی عکاسی بھی ہے۔یہاں یہ امر بھی اہم ہے کہ اپنی شکست اور انتخابی عمل کی شفافیت کو کھلے دل سے تسلیم کرکے آصف زرداری کو ان کی کامیابی پر مبارکباد دے کر اپوزیشن کے امیدوار محمود خان اچکزئی نے لائق ستائش جمہوری رویے کا مظاہرہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ الیکشن بڑے اچھے ماحول میں ہوئے، پہلی بار صدارتی الیکشن میں نہ کوئی ووٹ بیچا گیا نہ خریدا گیا۔ میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں ملک میں نئے دور کا آغاز ہواہے۔ محمود خان اچکزئی نے جس فراخ دلانہ سسٹم پر اعتماد کا اظہار کیا یہ خوش آئند ہے، قومی مفاد کے تقاضوں کے تحت حکومت اوراپوزیشن دونوں کی جانب سے مخالفت برائے مخالفت اور الزام و دشنام کی برسوں سے جاری روش کے بجائے ایسا ہی مثبت رویہ اپنایا جائے تو یقینی طور پر پارلیمان کی توقیر میں اضافہ ہوگااور یوں ملک کی تعمیر و ترقی کی راہیں کشادہ ہوں گی۔بلا شک وشبہ یہ خوش آئند امر ہے ملک میں آئین کے تحت پارلیمانی جمہوری نظام کے احیاءکیلئے جس سفر کا آغازجنرل مشرف کے طویل دور حکومت کے بعد ہوا تھا سازشوں کے باوجود اب تک نہ صرف جاری ہے بلکہ جمہوری نظام کے استحکام کے قوی آثار نمایاںہو رہے ہیں۔ماہرین اس بات پر متفق ہیں ریاستی ادارے بشمول پارلیمنٹ‘ حکومت‘ افواج پاکستان ، عدلیہ،آئین میں متعین اختیارات کے دائرہ کارمیں رہ کر اپنے فرائض منصبی ادا کریں تو کسی بھی جانب سے کسی قسم کی مداخلت کی نوبت ہی ناآئے پائے۔اگر کبھی ایسا ہوتا بھی ہے تو اسکے پس پردہ اپنے ذاتی مفادات کے اسیر اور بصیرت سے عاری سیاستدانوں کا ہی عمل دخل زیادہ تھا۔تاہم امید ہے کہ ماضی سے سب نے سیکھ لیا ہو گا یا وہ آئندہ کے لئے اپنی ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے معاشی اور سیاسی استحکام کی جانب مل کرقدم بڑھائیں گے اور قومی ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کریںگے،یہی وقت کا تقاضہ بھی ہے،کیونکہ اس وقت وطن عزیز کو سب سے بڑا چیلنج زبوں حال معیشت کی بحالی کا ہے۔جس پر قابو پانے کیلئے نئی حکومت کو جامع اقدامات شروع کرنا ہوں گے۔ عوام نے نئے سیٹ اپ کوملکی معیشت کو بہتر بنانے کا مینڈیٹ دیا ہے اور یہی حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہئے۔ حکومت ملک میں سرمایہ کاری کے فروغ اور کاروباری برادری کو سہولتیں فراہم کرنے کیلئے بھرپور طریقے سے کام کرے۔ نقصان میں جانے والے سرکاری اداروں کی فوری نج کاری کی جائے۔درمیانے اور چھوٹے درجے کے کاروبار کے فروغ کیلئے حکمت عملی تیار کرکی جائے۔ نوجوانوں کو اپنے پاﺅں پر کھڑا ہونے میں مدد دی جائے۔ کاروباری برادری، سرمایہ کاروں اور نوجوانوں کو سہولتیں دی جائیں۔ان دنوں پاکستان میں مہنگائی کا طوفان آ چکا ہے جس سے عام آدمی کی زندگی مشکل تر ہو گئی ہے لیکن مشکلات سے نکلنے کیلئے اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں کہ سخت فیسلے کئے جائیں۔ نئی منتخب حکومت کو اگر معیشت کا پہیہ پوری رفتار سے اور عوام کی فلاح کیلئے چلانا ہے تو ٹیکسوں کیلئے تنخواہ دار طبقے اور چھوٹے دکانداروں پر مزید بوجھ ڈالنے کی بجائے نئے ذرائع تلاش کرنا ہوں گے۔