بھارتی وزیر اعظم، وزیر خارجہ اور کابینہ کے دیگر اراکین کی طرف سے حال ہی میں پاکستان سے متعلق دیے گئے بیانات پرپاکستانی دفتر خارجہ نے واضح طور پر کہا کہ لوک سبھا کے انتخابی مہم کے دوران مختلف بھارتی رہنماو¿ں کی طرف سے پاکستان مخالف بیان بازی میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ ہم ان غیر ذمہ دارانہ بیانات کو یکسر مسترد کرتے ہیں، جموں و کشمیر تنازع، انسداد دہشت گردی کی کوششوں، دو طرفہ تعلقات کی حالت اور جوہری صلاحیتوں سمیت متعدد موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ بیانات پاکستان کے ساتھ غیر ضروری بھارتی جنون کی عکاسی کرتے ہیں اور انتخابی فوائد کے لیے ہائپر نیشنلزم کا فائدہ اٹھانے کے ارادوں کا اظہار ہے۔ بھارتی وزراءکی یہ بڑھتی ہوئی ملکی اور بین الاقوامی تنقید سے توجہ ہٹانے کی ایک مایوس کن کوشش کی بھی نشان دہی کرتے ہیں۔ بھارتی لیڈروں کی طرف سے دیے گئے بیانات لاپرواہی اور انتہاپسند ذہنیت کو بے نقاب کرتے ہیں۔ یہ ذہنیت ہندوستان کی اپنی تزویراتی صلاحیت کا ذمہ دار بننے کی صلاحیت پر سوالیہ نشان ہے، پاکستان کی سٹرٹیجک صلاحیت کا مقصد اپنی خودمختاری کا تحفظ اور اپنی علاقائی سالمیت کا دفاع کرنا ہے۔ پاکستان نے ماضی میں بھی اپنے دفاع کے عزم کا واضح طور پر مظاہرہ کیا ہے اور اگر بھارت کی جانب سے کسی مہم جوئی کا انتخاب کیا گیا تو مستقبل میں بھی ایسا کرنے سے دریغ نہیں کرے گا۔ صرف چند ماہ قبل، ہم نے پاکستانی سرزمین پر بھارت کے ماورائے عدالت اور بین الاقوامی قتل کی مہم کی تفصیلات بے نقاب کی تھیں اور پاکستان کے اندر جارحانہ کارروائیوں کے لیے اپنی تیاری پر بھارت کا مسلسل زور جرم کا اعتراف ہے۔ آزاد جموں و کشمیر کے بارے میں اشتعال انگیز بیان بازی پر ہم اس بات کا اعادہ کرتے ہیں کہ تاریخی حقائق، قانونی اصول، زمینی حقائق بھارت کے بے بنیاد دعووں کی تردید کرتے ہیں۔ جموں و کشمیر ایک بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ متنازع علاقہ ہے، اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادیں واضح طور پر اس کے حتمی تعین کے لیے اقوام متحدہ کی سرپرستی میں رائے شماری کا حکم دیتی ہیں۔ بھارتی رہنماو¿ں کا کوئی بھی بیان اس حقیقت کو نہیں بدل سکتا۔ لہٰذا بھارت کو چاہیے کہ وہ تصورات میں الجھنے کے بجائے ان قراردادوں کو عملی جامہ پہنانے پر توجہ دے۔ بھارتی سیاست دانوں پر زور دیتے ہوئے ترجمان نے کہا کہ وہ انتخابی فوائد کے لیے پاکستان کو اپنی ملکی سیاست میں گھسیٹنا بند کریں، حساس سٹرٹیجک معاملات کو انتہائی احتیاط کے ساتھ نمٹائیں۔ ہم عالمی برادری سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ بھارتی قیادت کی جارحانہ بیان بازی کا نوٹس لے۔ یہ بیانات علاقائی امن و استحکام کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔ جنوبی ایشیا میں امن، ترقی اور خوش حالی کے وژن کو جموں و کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب تنازعات کے پرامن حل اور تصادم سے تعاون کی طرف تبدیلی کے ذریعے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔بھارت میں وزیر اعظم نریندرا مودی کے گزشتہ دور حکومت میں مسلم مخالف مہم اور مسلمان شہریوں پر حملوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا۔ ہندو انتہا پسند بھارت میں سب سے بڑا محرک بن کر سامنے آئے۔ ان پر مسلمانوں کو ہراساں اور بدنام کرنے کا بھوت سوارتھا حتیٰ کہ وہ مسلمانوں سے اپنی نفرت کی وجہ سے تاج محل جیسے تاریخی ورثے کی اہمیت کو بھی محض اس وجہ سے تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ یہ ایک مسلم حکمران نے تعمیر کروایا تھا۔ مغل بادشاہ شاہجہان کی طرف سے اپنی بیوی ممتاز محل کی یاد میں تعمیر کروایا گیا یہ مقبرہ عجائبات عالم میں شامل ہے اور لازوال محبت کا استعارہ ہے۔ یہ شاید بھارت کا سب سے قیمتی تاریخی ورثہ اورسیاحوں کی دلچسپی کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ سنگ مرمر سے بنی اس عمارت جس پر قرآنی آیات تحریر ہیں کو ہر سال دنیا بھر سے لاکھوں افراد دیکھنے آتے ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود بھارتی حکام نے ریاست اتر پردیش جس کے شہر آگرہ میں تاج محل واقع ہے، کے سیاحتی بروشر سے اس کا تذکرہ مٹادیاتھا۔ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ انتہا پسند ہندو رہنما ادتیا ناتھ یوگی کا تعلق مرکز میں حکمران جماعت بی جے پی سے تھا۔ اس جماعت کے ایک اور انتہا پسند رہنما سنگیت سوم نے ایک بیان میں کہا کہ تاج محل غداروں کا تعمیر کردہ اور بھارتی ثقافت پر دھبہ ہے۔بی جے پی کے انتہا پسند رہنما اب کھلم کھلا یہ کہنے لگے تھے کہ بھارت میں مسلمانوں کو قابل نفرت دشمن نہیں تو اس حیثیت سے رہنا ہوگا کہ وہ ہندوو¿ں کے رحم و کرم پر رہیں۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد شروع ہونے والے فسادات میں دو ہزار سے زیادہ افراد کا قتل اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ ہندو انتہا پسند مسلم دشمنی میں کس حد تک جاسکتے ہیں۔آبادی کے لحاظ سے دنیا کی اس دوسری سب سے بڑی اور ایک ارب تیس کروڑ کی آبادی والی ہندو اکثریتی ریاست میں مسلمان سب سے بڑی مذہبی اقلیت ہیں۔ جنوبی ایشیا کے اس ملک میں مسلمانوں کی آبادی سترہ کروڑ کے قریب ہے۔ بھارت کے یہی مسلمان اس بارے میں ابھی سے خوف کا شکار ہیں کہ ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی یا بی جے پی سے تعلق رکھنے والے نریندر مودی ایک بار پھر ملکی وزیر اعظم بن گئے ہیں تو اب انہیں کس طرح کے حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔شمالی بھارتی شہر اعظم گڑھ روایتی طور پر مسلمان علماءاور شاعروں ادیبوں کا شہر رہا ہے۔ اسی شہر میں ابھی حال ہی میں جب چھ سرکردہ ریٹائرڈ مسلم ماہرین تعلیم آپس میں ملاقات کے لیے مل بیٹھے تو ان میں سے ہر ایک دوسروں سے بڑھ چڑھ کر ان خدشات کا اظہار کر رہا تھا کہ مودی کا پھر سربراہ حکومت بن جانا بھارتی مسلمانوں کے لیے اپنے اندر کیا کیا اندیشے اور خطرات لیے ہوئے ہو گا۔