کالم

انسانیت کا فقدان اور فراڈ لوگ

a r tariq

آپ اپنے اردگرد نظر دوڑائیں ،آپ کو معاشرے میں انسانیت کا فقدان نظر آئے گا، انسان کم اور شیطان زیادہ ، حرص و ہوس ، مال وزر کے بھوکے اور پیسے کی چمک کے پجاری نظر آئیں گے ،مال کیسے آسکتا ، کیسے آئے گا کی ہی سوچ میں غلطاں و فکر منددکھائی دیتے نظر آئیں گے،ہر دم پیسہ پیسہ کرتے مالِ ناحق بٹورتے ،دھوکہ دیتے نظرآئیں گے۔ اپنے طرز عمل سے مکمل حیوان کا روپ دھارے انسان کم کم دکھائی دیں گے اگر کبھی بھولے سے ایسے افراد کو خدا انسان کا راستہ دکھابھی دے تو اس پر نہ چلتے ہوئے حیوان کا راستہ اختیار کرلیں گے ، جتنا مرضی سمجھا لیں نہ سمجھیں گے ، تمام تر ڈھٹائی اور بے شرمی کا لبادہ اوڑھے بتادیں گے کہ ہم انتہا ءکے بے شرم ،ڈھیٹ جومرضی ہوجائے ،راہِ راست ہمارا راستہ نہیں ہے۔ ہم جنموں کے بھٹکے ہوئے ، سمجھانے سے بھی راستہ نہیں پا سکتے ، گمراہ دتھے، گمراہ ہی رہیں گے اور شیطان کی طرح جس حد تک ہو سکا ، اپنی تمام تر ”معصومانہ و فاضلانہ “ حرکتوں کے ساتھ اپنے نا سمجھ ، سدا کے بُت بنے اپنے پیرو کار لکھاریوں کو بھٹکاتے رہیں گے ،راہِ راست پر نہ خود تھے ،نہ انہیں آنے دیں گے ، ہمارا اپنے مرشد شیطان سے عہدوپیماں ہے کہ رحمن کے بندوں کو سیدھے راستے سے بھٹکاتے ،غلط راہوں پر ڈالتے رہیں گے ،خیر کے مقابلے میں شر پھیلا کر اپنے پاپی پیٹ کا ایندھن اس سے بھرتے رہیں گے جس حد تک ممکن ہوا ، خیر کا راستہ اختیار نہ کریں گے ،نہ ہی کسی کو کرنے دیں گے ، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہمارے ہوتے خیر اپنا راستہ بنا لے اور ہم یکسر ناکام ٹھہریں ، نہیں نہیں کبھی نہیں ، ایسانہیں ہو سکتا ، خیر چاہے جتنا مرضی زور لگا لے ، میرے ساتھی بڑے باکمال ،ہرکوشش کردیں گے ناکام ۔ اس میں یہاںمیرے چمن کے لکھاریوں کا قصور ہے کہ جو محنت سے جی چراتے ، درست طریقہ اختیار نہیں کرتے ، شارٹ کٹ سے منزل پارہونا چاہتے ہیںمگر افسوسناک بات یہ ہے کہ سوار ایسی کشتی میں ہیں جو یونان کی کشتی ہے جس میں بیٹھے افراد کے پاس اپنے روشن مستقبل کے سہانے سپنے ضرورہیں مگر یہ نہیں جانتے کہ یہ موت کا گھر، منزل کا ٹھکانہ نہیں ہے۔آپ کے بال بچوں کیلئے فخر کی جاہ نہیں ، عبرت کا مقام ہے ۔بیرون ملک جیسا خوبصورت جہاں نہیں ، ریت کا محل ہے ۔ یہاں زندگی ہمیشہ کیلئے نہیں ہے صرف اور صرف بکھری ،ٹوٹتی حسرتوں کا سامان ہے اور کچھ بھی نہیں ۔ جہاں اندھیرااندھیرا اور صرف اندھیرا ہے۔ سب سے اہم اور بڑی بات جو کوئی بھی نہیں سمجھائے اور بتائے گا کہ اس منزل کا ، اس کشتی کا چلوانے والا آپ کا خیر خواہ نہیں ، بلکہ قاتل ہے ،محض صر ف اپنے خوابوں کا خریدار ہے ۔ اپنے سہانے سپنوں کا شیدائی ہے ۔ اپنے لئے اپنی جیبیں بھری رکھنا چاہتا ہے ۔ تمہیں اس کا یہ خواب دکھانا اور کچھ بھی نہیں ، ایک آنکھوں کا دھوکہ اور صرف اور صرف اپنا آپ بنانا ہے اگرمیری بات پر یقین نہیں تو بتاﺅ کیا وہ سہانے سپنے دکھاتی یونان کشتی سمندر پار ہوگئی تھی کیا؟ اگر جواب نہ میں ہے تو پھرسوچو ، غور کرو ، کہاں کہاں اور کن لوگوں کے گرد گھوم پھر رہے ہو، سمندر کی جگمگاتی کشتی بننے کی بجائے چمکتا دمکتا قانونی راستہ اختیار کرو ۔جائز اور ٹھیک چلا جہاز پر سوارکیوں نہیں ہوتے ، کیوں جانتے بوجھتے بھی غلط راہوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ ٹھیک راستوں پر نہیں جارہے ۔تمہیں کیا پتہ کہ غلط راستوں کے بھٹکے مسافرتم ہو اور پریشان ساراکنبہ ہے ۔خدارا لوٹ آﺅ کہ تمہیں تمہارا مستقبل اور حقیقی راستہ بلا رہا ہے وہ راستہ جو تمہاری خواہش بھی ہے اور منزل کو بھی جاتا ہے۔میرا یہ سب کچھ بیان کرنے کامطلب صرف اپنے قابل احترام لکھاری بھائیوں سے کو یہ بتانا ہے کہ اس انسانیت کے فقدان لالچی ، خود غرضانہ ماحول سے یارانہ کیسا؟اور اپنے کالم، تحریر ،مضامین ،کہانی ،افسانے کیلئے خود ساختہ تنظیمات اور ان کے فراڈ کرتا دھرتا افراد پر ہی اکتفاءکیوں ؟ اپنے کالم ،مضامین ،کہانی ،افسانے ڈائریکٹ اخبارات کو کیوں نہیں بھیجتے ، اپنی تحریروں کیلئے ان کے محتاج کیوں بنے ہوئے ہیں۔اپنے اصل کی طرف لوٹ آﺅ جو بہتر اور درست راستہ ہے۔ شر سے خیر میں ہی بھلائی ہے ۔ نقل سے اصل بہتر ہے۔حق ہی باطل پر ہمیشہ غالب آتا ہے۔ شیطان کا علاج رحمن ہے ۔ فراڈ خیر خواہ سے مہربان دوست اچھا ، جو بے غرض ہو ، جسے لالچ بھی نہ ہو ، جو نہ پیسے کا پجاری ، نہ انسانیت کا بیوپاری ۔ اپنی تحریروں ،کالمز ،کہانی لگواﺅ ، اپنی کتاب بھی چھپواﺅ مگر اپنا پیسہ ،ساکھ اور میعار بھی بچاﺅ اور کمال کی شاندار عزت پاﺅ۔ کتاب فراڈ میں تحریر لگواﺅ فراڈ گیم شوسے بچو۔ جعلی کتاب چھوڑ کر اصلی اخبار ،رسائل ،میگزین میں لگواﺅ اور کالم کہانی کورس فیسوں کے انبار تلے دباسیکھنے کی بجائے کتاب ،اخبار ،رسائل ،مطالعہ بڑھاتے علم و فن پاﺅ ، جہاں ضرورت محسوس کرو علم و ادب افراد سے رہنمائی لو،جو آپ کے آس پاس آپ میں ہی موجود ہیں۔ کالم کہانی ٹپس پائیے ، کالم کہانی کی رفتار بڑھائیے او ربچئے جعلی تنظیموں کے خودساختہ ناشر نما کرتا دھرتاﺅں سے جو دراصل لکھاریوں کی فلاح کے نام پر کتاب چھاپنے اور کتاب میں تحریر لگواﺅ کی آڑ میں صحافتی اقدار کا یکسر جنازہ نکالے انسانیت کا فقدان اور فراڈ لوگ ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے