کالم

انصاف کہاں تلاش کریں ؟

ہم ایسے ملک کے معززشہری ہیں جہاں امیر اور غریب میں فرق واضع ہے ۔جہاں غریب لاوارث جبکہ امیر بادشاہ ہے۔ سرکاری ملازم دو حصوں میں تقسیم ہیں ایک وہ سرکار کے ملازم ہیں جن کی بھاری تنخواہیں اور مراعات ہیں ۔جیسے نوکر، چاکر ،گاڑیاں ، بجلی ،گیس اور پٹرول مفت جبکہ دوسرے وہ ملازمین جو گریڈ سترہ سے کم ہیں جن کی تنخواہیں بھی کم مراعات کا نام و نشان نہیں۔ انہیں کوئی چیز مفت میسر نہیں جو بھاری تنخواہیں اور مراعات لے رہے ہیں۔ کبھی نہیں کہا کہ ہم اپنی مراعات نہیں لیں گے! بس تنخواہ پر گزارا کریں گے لیکن یہ بد قسمت لوگ بہانے بہانے سے ٹی اے ڈی اے بناتے ہیں کہا جاتا ہے ان میں انصاف دینے والے سر فہرست ہیں ۔ کسی ساتھی کے بچے کی شادی پر سپیشل بنچ بنا لیتے ہیں ۔ یہ وہی ہیں جو انصاف دینے کی بنا پر تنخواہ لیتے ہیں مگر اکثر انصاف نہیں دیتے۔ان سے شکوہ اس لئے نہیں بنتا کہ یہ تو اپنے ساتھی ججز کو انصاف نہیں دے پاتے عام آدمی کو یہ انصاف کیا دیں گے ۔ابھی بھی ججز اپنے انصاف لینے والوں کی قطار میںبے بس کھڑے ہیں۔کچھ تو انصاف لیتے لیتے دوسرے جنم میں پہنچ چکے ہیں ۔کچھ سرکاری افسران نے عدالتی فیصلے نہیں مانے مگر ان کے ساتھی ججوں نے سرکاری افسر کی شکایت پر جج کی ہی چھٹی کرادی ۔ ماضی میں کچھ ججز نے تو بے گناہ ہونے کے باوجود وزیراعظم کو سولی پرچڑھا دیا اور کچھ نے وزرائے اعظم کو گھر بھیجا ۔یہ وہ منصف ہیں جھنوں نے اپنے ساتھی ججز کے خلاف ریفرنس چلا کر کٹہرے میںلا کھڑا کیا ۔ جن کا کام انصاف کرنا تھا انہوں نے خود ہی انصاف کی راہ میں روڑے اٹکائے۔ان میں وہ ججز بھی ہیں جنھوں نے فارن سے تعلیم حاصل کر رکھی تھی مگر پھر بھی وہ تعلیم ان کا کچھ بگاڑ نہ سکی اور شہریوں کو انصاف کے بجائے ٹارچر دیتے رہے۔ تنخواہیں اور مراعات لیتے رہے ۔ سپریم کورٹ کا جج چیف جسٹس سے حلف لیتا ہے مگر اس حلف پر کیا مجال کہ اس پر یہ عمل بھی کرتے ہوں۔ اس سے بہتر نہیں کہ حلف ہی نہ لیا کریں ۔یہ حلف اٹھانے والے اپنے ہی حلف کی خلاف فرضی کرتے ہیں۔ اس لئے کہ اسکی کوئی سزا نہیں ۔آئین اور قانون کی پرواہ نہیں کرتے موم کی ناک جیسے اپنی مرضی سے قانون کا استعمال کرتے ہیں ۔ یقینا ایسوں کا اگلی اور بڑی عدالت میں حساب ہو گا اور بیحساب ہو گا۔ اس حساب کا ان کو معلوم تو ہے لیکن انہیں یقین نہیں کہ جو کچھ کر رہے ہیں اس پر ہم بھی اس کی عدالت میں بطور مجرم کے ایک دن کھڑے ہو سکتے ہیں یا کھڑے ہونگے۔ اس وقت سپریم کورٹ میںہزاروں کیس زیر التوا ہیں جن کو سنا جانا باقی ہے مگر اس کی کسی کو فکر نہیں کہ ہم اس کے ذمہ دار ہیں ۔اس کام کی تنخواہ اور مراعات لیتے ہیں پھر بھی اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کرتے ۔اگر خود پرابلم کو حل نہیں کر سکتے ہو تو اس پر سیمینار کراتے ،ساتھی ججز اور وکلا سے مشورے کرتے لیکن ایسا یہ نہیں کرتے کیونکہ یہ خود کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں ۔ سول جسٹس کیسوں میں پاکستان انٹر نیشنل ریکنگ میں 139ممالک میں 124 نمبر پر ہے۔ایسے خاموش ہیں جیسے یہ اعزاز کی بات ہو ۔کہا جاتا ہے کانفرنسز اس لئے ضروری تھیں کہ سپریم کورٹ کے پڑے کیس کم ہو جائیں۔ کہا جاتا ہے ۔ججز نے سوچ بچار کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ اگر آبادی پر کنٹرول ہو جاتی ہے تو مقدمات کی تعداد بھی خود بخود کم ہو جائے گی ورنہ نہیں۔لہٰذا یہ پتہ لگانا ضروری ہے کہ آبادی کو کیسے کم کیا جائے۔لگتا ہے ججز کو یقین ہے کہ اگر آبادی کم ہو گی تو کیس کم ہونگے ۔جب کہ اس کا اس سے دور دور تک کا واسطہ نہیں۔ججز کو خود انصاف نہیں ملتا ۔قانون میں جوڈیشری سے ہائی کورٹ کے ججز کا حصہ ہے مگر سیٹ خالی ہونے کے باوجود انہیں پروموٹ نہیں کرتے۔ججز میرٹ پر نہیں لائے جاتے ۔ پروموٹ نہیں ہوتے ۔پک ایڈ چوز کرتے ہیں۔جس سے انصاف ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ ایسے ہونے سے عدالت کے برے حالات ہیں۔ سپریم کورٹ میں ججز کے گروپ ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ سیاسی فیصلے گروپ بندی کی نذر ہو جاتے ہیں۔کیا سیاسی فیصلے قانون کے مطابق ہوتے ہیں ۔وکلا کی خواہش ہے کہ بنچ دو
اور سنگل کا بنائے جائیں۔ سول کریمنل کسٹم انکم ٹیکس اور سروس میٹر کیس ان ججزکے سامنے لگایا کریں جن ججز کو متعلقہ فیلڈ میں کام کرنے کا تجربہ ہو ۔یقین کریں! آدھے سے زیادہ کیسسز اپنی موت آپ مر جائیں جن کا اعلان باقی ہے۔ سیاسی مقدمات کو عام کیسسز پر فوقیت نہ دی جائے ۔ اگر ان باتوں پر عمل کرنا مناسب سمجھا گیا تو خوشگوار تبدیلی کی امید کی جا سکتی ہے!!!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri