کالم

انگریزی زبان

انگریز کے برصغیر میں وارد ہونے کے ساتھ ہی برصغیر پاک و ہند میں انگریزی زبان کا نزول ہوا ۔ان سے قبل یہاں بادشاہان اور سرکاری دفاتر میں چلنے والی زبان فارسی تھی ۔ہمارے ہاں 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد انگریز دشمنی میں انگریزی زبان کو سیکھنا مسلمان گناہ تصور کرتے تھے ۔سر سید احمد خان کو مسلمانوں کو انگریزی پڑھنے اور سیکھنے پر آمادہ کرنے میں بڑی تگ و دو کرنا پڑی ۔اس کے مقابلہ میں ہندوئوں نے اس زبان کو پڑھنے ،لکھنے اور سیکھنے میں بہت زیادہ دلچسپی و رغبت دکھائی اور اس کے فیض سے مستفیض بھی ہوئے۔اردو زبان جس کے بارے میں حضرت داغ دہلوی نے فرمایا تھا کہ:
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
مگر آج صورتحال یکسر تبدیل ہو چکی ہے ۔اردو زبان ابھی تک اپنا اصل مقام حاصل کرنے میں ناکام ہے ۔ہم اردو زبان کیساتھ آزادی کے بعد ہی سے step languageکا برتائو کرتے چلے آ رہے ہیں ۔آج ہمارا سارا سرکاری سسٹم انگریزی زبان کا ہی مرہون منت ہے ۔اردو کو قومی اور سرکاری زبان کہا تو جاتا ہے لیکن یہ کلمات صرف زبانی حد تک ہیں عملی زندگی میں اس کا دوردور تک بھی ظہور نہیں ۔تمام کام انگریزی سے لیا اور کیا جاتا ہے۔شائد اس لئے کہ دوستو انگریزی ضروری ہے ہمارے واسطے فیل ہونے کو بھی اک مضمون ہونا چاہیے۔ سائنس کی ترقی تو انگریزی پر منحصر نہیں ۔وہ قومیں جنہوں نے اپنی قومی زبانیں اپنا کر سائنس میں ترقی کی ۔جاپان ،چین ،جرمن ہم اس ضمن میں نام لے سکتے ہیں ۔بچپن میں ہم بھی ٹافی کو مچھلی کہتے تھے ۔ہمارے معاشرے پر تو صرف انگریزی کا بھوت ہی سوار ہے ۔ابو کو ڈیڈ اور پاپا کہلوانے میں ہم پیش پیش ہیں ۔ انگریزی بولنا سٹیٹس سمبل بن چکا ہے ۔ انگریزی کے بارے میں اکثر لطائف زبان زد عام ہیں ۔ہمارے بچپن کے زمانے میں کلاس ٹیچر نے بچوں سے پوچھا پنکچر کے کیا سپیلنگ ہیں ۔اکثر لڑکوں نے سپیلنگ بتانے کیلئے ہاتھ کھڑے کئے۔ایک طالب علم بڑے زور سے ہاتھ ہلا رہا تھا ،ٹیچر نے اسے کھڑا کیا اور پوچھا کہ آپ بتائیں تو وہ کہنے لگاپی یو این چ ر چر پنچر،ٹیچر مذکور نے اسے شاباش دے کر بیٹھنے کیلئے کہا۔اسی طرح کا ایک واقعہ ایک بس میں پیش آیا ۔لاہور جانے والی بس میں ایک سیٹ خالی تھی کہ اچانک ایک سواری دروازے میں نمودار ہوئی ۔کنڈیکٹر جھٹ سے بولا آئو جی ایک سیٹ خالی ہے بیٹھو تو چلیں ۔اس پر سواری بولی نہیں یار میرے ساتھ فیملی ہے ۔ڈرائیور بولا نہیں جناب اسے چھت پر ڈال کر ترپال پھینک دوں گا ۔آپ بیٹھیں ،مسافر غصے سے بولا تمہارا دماغ خراب ہے ترپال ڈالو گے۔ کنڈکٹر نے بات کاٹ دی اور کہا کہ جناب آپ بالکل پریشان نہ ہوں ،ترپال ڈال کر رسی سے کس دوں گا ،گرنے کا خطرہ بھی نہیں رہے گا ۔مسافر غصے سے آگ بھگولاہو گیا اور بولا تمہارا دماغ درست کرنا پڑے گا ۔الو کا پٹھا لڑائی بڑھتے دیکھ کر پچھلی نشست پر بیٹھا ایک بوڑھا کلرک بولا ۔بیٹا لڑتے کیوں ہو اگر کوئی ٹوٹنے والی چیز ہے تو ادھر لے آو میں رکھ لیتا ہوں۔انگریزی بولنے کا معاملہ بھی عجیب ہے ! پنجاب کے ایک سابق وزیر اعلیٰ غلام حیدر وائیں صرف میٹرک پاس تھے ۔انہوں نے ایک بار راولپنڈی میں نالہ لئی کے پل کی تقریب میں انگریزی کا ایک جملہ بولا ،اخبارات میں ایک نمایاں خبر شائع کی کہ ”وائیں نے انگریزی بولی”۔قومی اسمبلی کے ایک رکن نے برطانیہ کے ایک سفارت کار سے انگریزی میں بات کی ۔سفارتکار نے کہا ،مجھے اردو نہیں آتی ،آپ انگریزی میں بات کریں ۔اس نے کہا ،میں انگریزی ہی بول رہا ہوں!
ن دنیا میں ظلم کے خلاف ناپسندیدگی اور عوامی سطح پر ناراضگی کیلئے عوام سڑکوں پر احتجاج تو کرتے ہیں لیکن امریکہ کی عراق پر چڑھائی اور ظلم کے خلاف جرمنی کے پروفیسروں نے اس زمانے میں ایک انوکھا احتجاج کیا ۔جرمنی کے پروفیسروں نے امریکہ کیخلاف احتجاج کے طور پر اپنی لغت یعنی ڈکشنری سے انگریزی الفاظ مکمل طور پر نکالنے کا عمل شروع کر دیا ۔اس سے قبل جرمن زبان میں روز مرہ کے بہت سے محاورے اور الفاظ انگریزی زبان سے شامل کر لئے گئے تھے ۔ویسے بھی طاقتور ملکوں کی زبان اور ثقافت ساری دنیا کو متاثر کرتی ہے ۔امریکی قوت کے سبب برگر، کوکا کولا اور میکنولڈ وغیرہ دنیا بھر میں مشہور ہو گئے ہیں اور امریکی ثقافت کی علامت سمجھے جاتے ہیں ۔شائد1993ء میں فرانس کے وزیر ثقافت نے اپنی اسمبلی سے یہ قانون پاس کروایا تھا کہ آج سے فرانسیسی زبان سے تمام غیر فرانسیسی الفاظ نکال دیے جائیں گے اور دکانوں پر صرف فرانسیسی زبان کے بورڈ لگائے جائیں گے ۔اس قانون میں یہ بھی گنجائش رکھی گئی تھی کہ غیر فرانسیسی بورڈ لگانے والوں کو چھ ماہ قید اور جرمانے کی سزا سنائی جائے گی ۔پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے فرانسیسی وزیر نے خاص طور پر ذکر کیا تھا کہ لوگ برگر کا استعمال کرتے ہیں جو فرانسیسی لفظ نہیں ہے ۔آج سے برگر کی بجائے اس کیلئے فرانسیسی لفظ استعمال کیا جائے گا ۔یہ اس دور کی بات ہے جب امریکہ یا انگریزی کے خلاف کوئی احتجاجی تحریک نہیں تھی ۔فرانسیسی حکومت نے صرف اپنی زبان اور ثقافت کو غیر ملکی زبان اور ثقافت کی یلغار سے بچانے کیلئے یہ قانون پاس کیا تھا ۔لیکن ہمارے ہاں چال انگریزی ،ڈھال انگریزی ،سر پر بال انگریزی ۔بقول شاعر
حلق چھلتا ہے تو چھل جائے
لہجہ صاحب سے اپنا مل جائے
معزز قارئین ہمارے ہاں انگریزی زبان سے اتنی وابستگی ہو چکی ہے اور یہ اتنا رس بس چکی ہے جس کا اندازہ ماضی میں اس خبر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ خبر کا مفہوم یوں تھا کہ انگریزی میں لیٹر لکھ کر سپریم کورٹ کے احکامات کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں ۔پنجاب حکومت عجب کام کر رہی ہے کہ دفتروں میں اردو نافذ کرنے کیلئے انگریزی میں لیٹر جاری کئے جا رہے ہیں اور سرکاری اداروں سے انگریزی زبان میں وضاحت طلب کی جا رہی ہے کہ دفتروں میں اردو کا استعمال کیا جائے اور تمام آفس ورک اردو میں ہونا چاہیے اور خود انگریزی میں سرکاری اداروں کو خط لکھ کر سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم کی دھجیاں اڑا رہی ہے ۔سپریم کورٹ آف پاکستان نے ماضی میں حکم دیا تھا کہ پاکستان کے تمام سرکاری اداروں میں قومی زبان اردو کو نافذ کیا جائے اور تمام دفتری کام قومی زبان اردو میں ہونے چاہئیںجبکہ گورنمنٹ آف پنجاب نے اپنے ماتحت سرکاری اداروں کو انگریزی میں ہدائت کی مگر انگریزی میں اس حکم کا لیٹر جاری کرنا جہاں عجیب تضاد کا مظہر اور اپنے ہی حکم کی کھلم کھلا خلاف ورزی تھی وہاں انگریزی زبان سے انتہا درجے کی وابستگی ظاہر کر رہی تھی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے